میں پڑھے لکھے افراد سے سنتا چلا آ رہا ہوں کہ ”وقت تبدیل ہو گیا ہے“۔ بلامعذرت میں اس منطق سے متفق نہیں۔ میری رائے میں وقت نہیں بدلتا‘ انسان بدلتے ہیں کیونکہ تبدیلی ایک ارتقائی اور فطری عمل ہے۔ بہرحال وقت نے کروٹ لی یا موجدوں نے ہاتھ پا¶ں مارے اور ”سیاہ و سفید“ ٹیلی ویژن ایجاد کر کے ابلاغ عامہ کے میدان میں ایک تہلکہ سا مچا دیا۔ رفتہ رفتہ ”سیاہ و سفید“ سکرین میں تمام دستیاب رنگ بھر کے اسے رنگین بنا دیا لیکن یہ ”رنگین“ مکمل سیاہ و سفید کا مالک بن گیا۔ جب نجی ٹی وی چینلز کی بھرمار ہوئی تو وطن عزیز میں نجی ٹی وی چینلز کو شمار کرنا دشوار ٹھہرا۔ وطن عزیز میں جاریہ ٹیلی ویژن نشریات میں کچھ پروگرام واقعی قارئین کے لئے دلچسپ معلومات فراہم کر رہے ہیں لیکن گنتی کے چینلز کو چھوڑ کر اکثر سکرینوں پر سرشام ”ٹاک شو“ کے نام پر ایسی محافل سجائی جاتی ہیں۔ جس میں کچھ ”میزبان“ اور مہمان وہ کچھ کہہ جاتے ہیں کہ معتدل قارئین کی دل آزاری ایک فطری ردعمل ہے اور ”ٹاک شو“ کے مہمان خواہ وہ کسی سیاسی جماعت سے تعلق رکھتے ہوں‘ ریٹائرڈ اعلیٰ فوجی افسران ہوں یا کسی ایک مکتب فکر سے پیوستہ تجربہ کار ہوں جو منہ میں آتا ہے بلاروک ٹوک کہے چلے جاتے ہیں اور میزبان کا کامل کمال یہ کہ اکثر مہمان سکرینوں پر دست و گریباں نظر آتے ہیں۔ جسے اختلاف رائے کا نام دے دیا جاتا ہے۔ ماضی بعید کے اخبارات و رسائل کی طرح یہاں وہ ”غیر جانبدارانہ“ عنصر نظر نہیں آتا۔ جو سماجی اختلافی و مذہبی روایات کا آئینہ دار تھا۔ دور کی بات نہیں ملک کے سب سے بڑے حکمران‘ تیسری بار وزیراعظم کے عہدے پر فائز میاں نواز شریف کا مقدمہ ملک کی سب سے بڑی عدالت میں زیر سماعت ہے۔ روزِ اول سے ہی مقدمہ زیر سماعت ہونے کے باوجود تین عدالتوں میں ”ٹرائل“ دیکھنے کو ملا۔ ایک تو اصل اور بااختیار اور مجاز عدالت عظمیٰ رہی۔ دوسری عدالت عمران خان اور میاں نواز شریف کے حواری عدالت سے باہر ”میڈیا“ سے خطاب کی چھتری تلے لگاتے رہے۔ بھانت بھانت کی بولیاں بولی جاتی رہیں۔ بے سرو پا قصے‘ کہانیاں‘ روگردانیاں‘ کہہ مکرانیاں سُبک رفتاری سے اڑان بھرتی رہیں‘ زمین بوس ہوتی رہیں اور تیسری عدالت بلاناغہ مختلف ٹی وی چینلز پر کچھ اینکر پرسن لگاتے رہے۔ عجلت‘ بے صبری اور جانب داری کا مظاہرہ بھرپور انداز میں ہوتا رہا اور قارئین دیکھتے رہے۔ ان میزبانوں کو لوگ ”اینکر پرسن“ کہنے پر مجبور ہوئے۔ پھر سنسنی خیز خبریں بھی نشر ہوئیں۔ پیشن گوئیاں ہوتی رہیں اور جب کوئی ذی شعور تجزیہ کار یا منجھا ہوا سیاستدان میسر نہ آیا تو لال حویلی کے مکین ”نجومی سیاستدان“ کو قارئین کی سماعتوں پر مسلط کیا گیا اور کیا جا رہا ہے۔ خوش قسمتی سے اس ”نجومی“ سیاستدان کی آج تلک ایک بھی پیشن گوئی صحیح ثابت نہیں ہوئی۔ تیسرا میڈیا جس عرف عام میں سوشل میڈیا یعنی سماجی میڈیا کا نام دیا گیا ے جو مادر پدر آزاد ہے جس کا سر ہے نہ پا¶ں ۔ سماجی میڈیا کے نام پر وطن عزیز کی سماجی اقدار اور روایات کو دن رات تہہ و تیغ کرنے میں مصروف ہے جس کے فائد کم اور نقصانات شمار سے باہر ہیں۔ اس نے کس کس م¶قر اور مقتدر ادارے پر کیچڑ نہیں اچھالا لیکن یہ بے لگام سرپٹ دوڑتا ہوا یہ گھوڑا ہماری روایات‘ اخلاقی و مذہبی اقدار کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑا ہوا ہے۔ حکومت وقت‘ اعلیٰ عدلیہ‘ مجاز ریگولیٹری اداروں کو سر اٹھانا ہو گا۔ غیر قانونی اور غیر اخلاقی سرگرمیوں کی سرکوبی کرنا ہو گی۔ مجاز سماج کے پہلے ہی حصے بخرے ہو چکے۔ غربت‘ افلاس‘ بے روزگاری‘ مہنگائی‘ دہشت گردی‘ کرپشن‘ اقربا پروری‘ سفارش‘ سماجی عدم مساوات نے معاشرے کے گرد گھیرا تنگ کر دیا ہے۔
”میڈیا“ کے لئے ایک ضابطہ اخلاق وضع ہونا چاہیے اور ترقی یافتہ ممالک میں وضع کردہ قوانین سے رہنمائی حاصل کی جا سکتی ہے کیونکہ کوئی ادارہ ”مقدس گائے“ نہیں۔
”کلمہ حق“
Jul 21, 2017