ماہ جولائی اور یوم شہداء کشمیر

تحریک آزادی کشمیر میں ماہ جولائی کی بہت بڑی تاریخی اہمیت ہے اس ماہ کی مختلف تاریخوں میں اہم تاریخی واقعات رونما ہوئے ہیں۔ 10 جولائی 2015ء تحریک آزادی کشمیر کے نامور مجاہد سابق وزیراعظم و صدر آزاد کشمیر سردار محمد عبدالقیوم خان اس دار فانی سے رخصت ہو گئے تھے۔ 13 جولائی 1931ء ہم ہر سال یوم شہدا کشمیر کے طور پر مناتے ہیں اس دن سرینگر سنٹرل جیل کے احاطے میں عبدالقدیر نامی شخص کے مقدمے کی سماعت کے موقع پر ڈوگرہ فوج نے 22 بے گناہ مسلمانوں کو شہید کر دیا تھا۔ 19 جولائی 1947ء تحریک آزادی کشمیر کے نامور قائد بانی صدر آزاد کشمیر غازی ملت سردار محمد ابراہیم خان مرحوم کی ذاتی کوششوں سے اِن کے گھر واقع آبی گزر سرینگر مُسلم کانفرنس کے اہم نمائندہ اجلاس میں الحاق پاکستان کی مشہور تاریخی قرارداد منظور ہوئی تھی۔ 31 جولائی 2003ء کو سردار محمد ابراہیم خان وفات پا گئے ۔ 8 جولائی 2016ء حزب المجاہدین کے خوبصورت نوجوان کمانڈر برہان مظفر وانی کو وادی کشمیر میں ہندوستانی فوج نے شہید کر دیا ۔ ان تاریخی واقعات سے ماہ جولائی کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ آج کے کالم میں 13 جولائی یوم شہدا کشمیر پر کچھ عرض کروں گا۔ اس واقعہ کا پس منظر اور تاریخی اہمیت و اثرات سے واقف ہونا ضروری ہے چونکہ تحریک آزادی کشمیر میں یہ اہم واقعہ ہے۔ 1832ء سرزمین پونچھ کے تاریخی مقام منگ میں ڈوگرہ مہاراجہ گلاب سنگھ کے مظالم کیخلاف تحریک چلانے کی پاداش میں سدھو قبیلے کے سرداروں سبز علی خان، ملی خان کے ساتھ 14 مسلمانوں کو زندہ کھالیں اُتار کر بیدردی سے شہید کیا گیا، زندہ کھالیں اُتارنے کی انوکھی مثال قائم ہوئی۔ 13 جولائی یوم شہداء کشمیر کے پس منظر میں تین اہم واقعات میں ایک 29 اپریل 1931ء بڑی عید کے دن جموں کی میونسپل کمیٹی باغ میں جب مولانا مفتی محمد اسحاق خطبہ عید دے رہے تھے اور حضرت موسیٰؑ اور فرعون مصر کا واقعہ بیان کر رہے تھے تو ہندو پولیس انسپکٹر نے آگے بڑھ کر مولانا کو خطبہ دینے سے روک لیا۔ اس پر تمام نمازی مشتعل ہو گئے اور نماز کی ادائیگی کے بعد احتجاج کیا۔ پوری ریاست میں اس واقعہ کے خلاف مسلمانوں نے جلسے جلوس اور مہاراجہ حکومت کے خلاف تحریک شروع کر دی۔ ینگ مینز مسلم ایسوسی ایشن نے پرزور تحریک چلائی۔ دوسرا واقعہ تحصیل سانبہ صوبہ جموں کے گاؤں ڈگھور میں پہلے تو ایک تالاب کے پانی کے استعمال پر ہندو مسلم جھگڑے شروع ہو گئے پھر اس جگہ کے قریب نماز عید کی ادائیگی پر پابندی لگا دی گئی اور مسلمانوں کو اس تالاب سے پانی استعمال کرنے پر بھی پابندی لگا دی گئی۔ اس پر بھی جموں کے تمام علاقوں میں احتجاج شروع ہو گیا۔ پھر سنٹرل جیل جموں میں ایک ہندو انسپکٹر لبھو رام نے ایک مسلمان کانسٹیبل کے بستر کو غصے میں آ کر دور پھینکا اور بستر سے پنج سورہ بھی دور پھینک کر اسکی بے حرمتی کی، کانسٹیبل کی شکایت کا اعلیٰ حکام نے کوئی نوٹس نہ لیا تو بات پورے علاقے میں آگ کی طرح پھیل گئی اور مہاراجہ حکومت کیخلاف احتجاج شروع ہو گیا۔ ان تینوں واقعات کیخلاف مسلم ینگ مینز ایسوسی ایشن نے بھرپور اور منظم احتجاجی تحریک شروع کی۔ کچھ دنوں بعد ایک اور توہین قرآن کا واقعہ سامنے آیا کہ 20 جون 1931ء سرینگر میں ایک عوامی لیٹرین سے قرآن پاک کے اوراق ملے۔ اس واقعہ کیخلاف پورے سرینگر میں احتجاجی جلسے شروع ہو گئے۔ اِن ہی واقعات کے ردعمل میں شیخ عبداللہ نے سرکاری محکمہ تعلیم کی ملازمت کو خیرآباد کہہ کر احتجاجی تحریک میں سرگرم حصہ لینا شروع کر دیا۔ ان واقعات کے خلاف 21 جون 1931ء خانقائے معلیٰ سرینگر کشمیری مسلمانوں کا جم غفیر تھا اور احتجاجی تقریریں کی جا رہی تھیں۔ اہم کشمیری قیادت موجود تھی۔ میر واعظ یوسف شاہ، احمد اللہ حمدانی، شیخ عبداللہ، مفتی جلال الدین، مولوی عبدالرحیم وغیرہ نے پرجوش خطاب کیا۔ جونہی یہ جلسہ ختم ہوا ایک اجنبی نوجوان عبدالقدیر نامی سٹیج پر پہنچا اور بہت جذباتی تقریر شروع کر دی اور کہا کہ ’’مسلمانو اب وقت آ گیا ہے کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دو۔ یاداشتوں، قراردادوں، اپیلوں سے ظلم و ستم ختم نہیں ہو گا۔ ظلم کیخلاف ڈٹ جاؤ اس نے مہاراجہ کے محل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا اس محل کی اینٹ سے اینٹ بجا دو۔ اسکی تقریر سے لوگوں میں اشتعال پیدا ہوا۔ پولیس نے بغاوت کے مقدمے میں اسے گرفتار کر لیا اس پر بغاوت کا مقدمہ عدالت میں چلنا شروع ہو گیا۔ عبدالقدیر ایک عام سا مسلمان شخص جو ایک انگریز فوجی آفیسر کا خانساماں تھا اور پٹھان نسل سے تعلق رکھتا تھا۔ انگریز فوجی آفیسر کے ہمراہ سرینگر آیا تھا۔ وادی کشمیر میں عبدالقدیر کی رہائی کی پرجوش تحریک شروع ہو گئی جب ہتھکڑیاں لگا کر جیل سے تاریخ پر اسے پولیس عدالت لاتی تو مسلمانوں کا جم غفیر اس کے ساتھ عدالت پہنچتا۔ 12 جولائی سرینگر کے ایک احتجاجی جلسے میں پرزور مطالبہ ہوا کہ عبدالقدیر کے مقدمے کی سماعت جیل کے بند کمرے کے بجائے کھلے احاطے میں کی جائے۔ یہ مطالبہ نہ مانا گیا دوسرے دن 13 جولائی مقدمے کی سماعت کے دوران بڑی تعداد لوگ کمرہ عدالت میں سماعت سننے کیلئے عدالت کے اندر داخل ہو گئے۔ سیشن جج نے حکم دیا کہ سب کمرہ عدالت سے باہر نکل جائیں۔ لوگ کمرے سے نکل کر احاطہ میں جمع تھے کہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ مسٹر ترلوک موقع پر پہنچا اور آتے ہی پولیس کو لوگوں کی گرفتاریوں کا حکم دیدیا۔ پکڑ دھکڑ شروع ہو گئی لوگ مشتعل ہو گئے اور گرفتار ہونے والوں کو چھڑانے کی خاطر سنٹرل جیل کی عمارت میں داخل ہو گئے۔ حکومت کیخلاف اور عبدالقدیر کے حق میں نعرے لگانے شروع کر دیئے۔ مجسٹریٹ کے حکم پر ان مسلمانوں پر فائرنگ شروع کر دی گئی جس سے سترہ مسلمان موقع پر ہی شہید ہو گئے چالیس افراد شدید زخمی ہوئے۔ زخمیوں سے پانچ مزید شہید ہو کر کل شہداء کی تعداد بائیس ہو گئی۔ ان بائیس میں سب کو سینے پر گولیاں ماری گئیں اور آذان کا وقت تھا ظہر کی آذان کیلئے یہ بائیس یکے بعد دیگرے آذان دیتے ہوئے شہید کئے گئے۔ ایک سے بائیس کو شہید کیا گیا اور انہوں نے آذان بھی مکمل کر دی۔ ان بائیس شہداء کا تعلق سرینگر اور قرب و جوار سے تھا۔ تمام اہم قیادت جن میں شیخ عبداللہ اور چودھری غلام عباس میر واعظ شاہ شامل ہیں موقع پر پہنچ گئے۔ شہداء اور زخمیوں کے خون آلود کپڑوں کو عَلم بنا کر احتجاجی جلوس نکالا گیا جو شہداء کربلا کی یاد تازہ کر رہا تھا۔ مہاراجہ حکومت نے سرینگر شہر میں کرفیو لگا دیا تمام اہم لیڈر گرفتار کر لئے گئے دو دنوں تک شہدا کی تدفین بھی نہ ہو سکی۔ 15 جولائی کو سرینگر کے قبرستان نقشبند میں شہداء کی تدفین کی گئی اس قبرستان کا نام مزار شہداء رکھا گیا۔ سترہ روز تک پوری وادی کشمیر میں شدید احتجاج رہا۔ 1947ء میں تقسیم برصغیر کے وقت انگریز ہندو مشترکہ خفیہ سازش کے ذریعے مسئلہ کشمیر پیدا کیا گیا۔ آج 2017ء جولائی تک کشمیری مظلوم و محکوم مسلمان اپنی آزادی کی جدوجہد میں قربانیاں دے رہے ہیں۔ طرح طرح کے ظلم و ستم بھارتی افواج کے برداشت کرتے ہوئے آزادی کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ سرینگر کے چوکوں میں پاکستان کا سبز ہلالی پرچم اٹھائے ہمارے بھائی اپنے سینوں پر گولیاں کھا رہے ہیں۔ روزانہ سبز ہلالی پرچم میں لپیٹ کر نوجوان شہداء کو دفنایا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ اور پوری دنیا تماشہ دیکھ رہی ہے۔ منافقت کی انتہا ہے ہمارے حکمران اور اپوزیشن پانامہ لیکس کے مقدمے اور جے آئی ٹی کی کارکردگی پر غم اور خوشی کے بھنور میں پھنسے کشمیر اور کشمیریوں کی حالت زار سے بے خبر ہوس اقدار کے گھن چکر میں پڑے ہیں۔

پروفیسر ریاض اصغر ملوٹی

ای پیپر دی نیشن