رمضان المبارک کے مقدس مہینہ میں پھلوں کی ہوشربا قیمتوں میں اضافے کے خلاف عوام الناس نے اس دفعہ احتجاج کا نیا طریقہ متعارف کروایا ہے ،سوشل میڈیا کے ذریعے شروع ہونے والی پھلوں کی خریداری کے بائیکاٹ کی مہم کو عوامی حلقوں میں بہت پزیرائی ملی ،لوگوں نے عملی طور پر تین دن پھلوں کی خریداری نہ کرکے اس مہم کو کامیاب بنانے میں اپناکردار ادا کیا ۔یہ حالیہ دنوں کا ایک بڑا واقعہ ہے جس میں سوشل میڈیا نے مین سٹریم میڈیاکو مجبورکیا کہ وہ ایشو کو ڈسکس کریں ۔ گلوبلائزیشن کے اس دور میںانٹر نیٹ اور میڈیا نے معاشرے وسماج پر کافی گہرے اثرات مرتب کئے ہیں ،چاہئے اس کا تعلق سیاست سے ہو ،معاشرت سے ہو یااقتصادیات سے۔بہت سے ماہرین ان واقعات کو سماجی شعور کا پہلاقدم قرار دے رہے ہیں جس میں عوام الناس نے پرامن احتجاج کو نیا اسلوب دیا ہے اس سے پہلے احتجاج کرنے کے لئے پہیہ جام ہڑتال ،دھرنا ،جلائوگھیرائو اورمارکیٹیں بند کرنا وغیرہ جیسے روایتی طریقہ کار اختیار کیئے جاتے، مگر گلوبالائزیشن وجدید ٹیکنالوجی نے دنیا کو نئے طور طریقے واسلوب اپنانے پر مجبور کردیا ہے ۔عرب سپرنگ کے بعد سوشل میڈیا کی طاقت کو پوری دنیا میں مانا گیا ،مین سٹریم میڈیا پر پابندیوں کے باوجود بادشاہت سے تنگ لاکھوں لوگ سوشل میڈیا پر ایک مقصد کے لئے اکٹھے ہوئے دیکھتے ہی دیکھتے لاکھوں لوگ حکومت مخالف تحریک میں شامل ہوگئے ، چنددنوں میں عوامی احتجاج کا لاوا سڑکوں پر نظر آنے لگا اور تحریر سکوائر ودیگر مناظر پوری دنیا کے میڈیا کیمروں نے دیکھے ۔ عالمی سطح پر شامی بچہ کی تصویر چند گھنٹوں میں پوری دنیا میں وائرل ہوئی جس نے عالمی برادری کو شامی مہاجرین کے مسئلہ کو سنجیدہ لینے پر مجبور کیا ۔
پاکستان میں 2013 کے الیکشن میں نوجوان نسل اور متمول خاندانوں کے لوگوں بلخصوص خواتین کا ووٹ کاسٹ کرنے کے لئے لائینوں میں لگنے میں سوشل میڈیا کا ایک بہت بڑا کردار ہے ۔الیکشن کے بعد دھاندلی کے خلاف دھرنا اور دیگر سیاسی معاملات میں تمام سیاسی جماعتوں نے باقاعدہ سوشل میڈیا سیل بنائے اور اپنی جماعت کے نظریات وافکار اوراپنے قائدین کا موقف سوشل میڈیا کے ذریعے پہنچایا ۔سوشل میڈیا پر ہر بندے کی باآسانی رسائی ممکن ہے ،الیکٹرونک وپرنٹ میڈیا کی طرح ایڈیٹوریل چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے کی وجہ سے بہت سی قباحتیں بھی پیدا ہورہی ہیں ۔اپنے مخالفین کے بارے میں غیر اخلاقی زبان کا استعمال ،جعلی تصاویر،بغیر ثبوت کے الزام تراشی ،مخالفین کی کردار کشی کرنے کے لئے تمام حدیں پار کرجانا ،اپنے قائد کی ہر بُرائی کو بھی اچھائی ثابت کرنا واپنے مخالف کی خوبیوں کو بھی خامیاں بنانا ،عدم برداشت کا کلچر ،نوجوان نسل کا سوشل میڈیا پر وقت ضائع کرنا ،دوستیاں کرنا وغیرہ سوشل میڈیا کے نقصانات ہیں ۔ اس کے علاوہ سوشل میڈیا نے ایک نیا اسلوب جنم دیا ہے۔ لمبی تقریروں یا لمبے مضامین کے بجائے آسان اور سہل انداز اور کم از کم الفاظ میں اپنی بات کو ادا کرنے کا ہنر سوشل میڈیا نے بہتوں کو سکھایا ہے۔ بالخصوص Twitterا س معاملے میں اپنی جداگانہ پہچان رکھتا ہے۔ چبھتے تبصرے، تیکھے جواب اور ذومعنیٰ بیانات یہ ٹویٹرکے پیغام (ٹویٹس)کا خاصہ ہیں۔اورسوشل میڈیا آج کل کسی بھی بڑی تنظیم (سیاسی، سماجی وغیرہ)کے لئے اپنے پیغام کی وسیع تر اشاعت کا ایک بڑا ذریعہ بن چکا ہے۔
ابلاغ عامہ کے ماہرین تو کافی عرصے سے اس موضوع پر بحث کا آغاز کر چکے ہیں کہ آنیوالے دور میں سوشل میڈیا عالمی سیاست میں اہم ترین کردار ادا کرے گا۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا اس حوالے سے کمتر درجہ رکھتے ہیں کیونکہ مالکان اور چند مخصوص افراد کو رام کرکے ان کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے لیکن موبائل فون اور انٹرنیٹ میڈیا کے بارے میں ایسا ممکن نہیں۔ سوشل میڈیا کو کاروباری مقاصد کے لئے استعمال کرنے کا رجحان بھی وقت گزرنے کیساتھ بڑھ رہاہے تمام کاروباری کمپنیوں اپنی پراڈکٹس تشہیرکے لئے باقاعدہ سوشل میڈیا مہم چلاتی ہیں ۔سوشل میڈیا پر مذہبی منافرت اور گستاخانہ مواد کے واقعات کے بعد سوشل میڈیا کوضابطہ اخلاق کے تابع کرنے کی کوششوں کا آغاز ہوا ۔ ڈان لیکس ایشو کے بعد پاک فوج کے خلاف سوشل میڈیا پر ہرزہ سرائی کرنے والوں کے خلاف پہلی بار ایکشن لیا گیا جس پر مبصرین دوحصوں میں تقسیم دکھائی دئیے ،ایک حلقے کا کہنا ہے کہ حکومت اپنے سیاسی مخالفین کو دبانے کے لئے اس طرح کے ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے جبکہ حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر اداروں کی تضحیک کی اجازت نہیں دی جائے گی اگر کسی نے جعلی اکائونٹ بنا کر کسی بھی ریاستی ادارے کی تضحیک کی تو اسے ملکی قوانین کے تحت سخت سز اد ی جائے گی ۔بہت سے تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ 2018 کے الیکشن میں سوشل میڈیا کا بہت بڑا کردار ہوگا وہی جماعت الیکشن جیتنے کی پوزیشن میں ہوگی جو سوشل میڈیا کے ذریعے اپنامنشور ونظریات عوام الناس تک پہنچائے گی کیونکہ سوشل میڈیا کی رسائی اب ان دور دراز علاقوں میں بھی ہے یہاں تک ٹی وی چینلز،اخبارات وکیبل نیٹ ورک ابھی تک نہیں ہے ۔ پاکستان میںرائے عامہ ہموار کرنے کے لئے تمام سیاسی جماعتیں سردھڑ کی کوششیں کررہی ہیں ۔ پانامہ کیس کو بنیاد بناکر اپوزیشن کی جماعتیں بلخصوص پاکستان تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی مختلف شہروں میں احتجاج وجلسے کررہی ہیں ۔ان جلسوں میں عوامی مسائل بلخصوص لوڈشیڈنگ آصف علی زرداری ،بلاول بھٹواور تحریک انصاف کی قیادت کاموضوع گفتگو ہوتا ہے ان جلسے جلوسوں سے الیکشن 2018 کی ابھی سے تیاری کا آغاز نظر آرہا ہے ۔حکومت وقت بھی مختلف ترقیاتی منصوبوںکی افتتاحی تقریبات کا انعقاد کررہی ہے جس میں وزیراعظم میاں محمدنوازشریف اپنے منصوبوں کی تفصیلات بتانے کے ساتھ اپوزیشن کو آڑھے ہاتھوں لے رہے ہیں ۔وزیراعظم جس شہر میں جاتے ہیں وہاں الیکشن کو مدنظر رکھتے ہوئے منصوبوں کا اعلان بھی کرتے ہیں اور عوام سے ان منصوبوں کی بنا پر آئندہ کے الیکشن میں ووٹ کی درخواست کرتے ہیں ۔ پانامہ جے آئی ٹی کی وجہ سے وزیراعظم پاکستان اورانکاخاندان بظاہر مشکل میں نظر آرہاہے جس کی جھلک حکومتی نمائیندگان کی نجی گفتگو میں سننے کو ملتی ہے ۔ حسین نواز کی جے آئی ٹی میںپیشی کے موقع پر ایک تصویرلیک ہوئی ہے جوسوشل میڈیا پر بہت زیادہ وائرل ہوئی ۔اس خفیہ کاروائی کی تصویر کا سوشل میڈیاپر وائرل ہونے سے بہت سے سوالات جنم لیتے ہیں ۔ کس نے لیک کیا؟ تصویر لیک کرنے کامقصد کیا ہے ؟اس کا فائدہ کس کو ہوگا؟ کیا جے آئی ٹی کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے ؟ کیا وزیراعظم اور انکی فیملی کو مظلوم ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے ؟ ان تمام سوالات کے جوابات کے لئے تحقیقات ہونی چاہئیں مگر ایک بات اہم ہے کہ سوشل میڈیا کی بڑھتی ہوئی مقبولیت وعوامی پذیرائی نے سیاسی حلقوں کو پریشان ضرور کیا ہے کہ اب کوئی بات چھپانے سے چھپ نہیں سکتی ۔ عوام الناس اگر ظلم وجبر یا اپنے حقوق کی خلاف ورزی ،کسی بھی ایسے واقعہ جس سے اجتماعی وقومی مفادات کو نقصان پہنچ رہا ہو اگر متحد ہوکر اس کے خلاف تمام پلیٹ فارموں کو استعمال کرکے موثر احتجاج کرے تو کوئی بھی طاقتور سے طاقتور حکمران یا اشرافیہ کا فرد ان کا استحصال نہیں کرسکتا ۔اگر اشرافیہ کو ڈر ہوگاکہ بنیادی حقوق نہ ملنے پر عوام احتجاج کریں گے تو وہ وقت دور نہیں جب قوم ظالم کے ظلم کے خلاف متحد ومتفق ہوگی ۔ پھلوں کے بائیکاٹ کی مہم اس سلسلے میں پہلا قدم ہے کسی دانشور نے کہا تھا ہزاروں میل کا سفر طے کرنے لئے پہلا قدم اٹھانا بہت ضروری ہوتا ہے توہم کہہ سکتے ہیں سماجی وسیاسی شعور کی جانب پاکستانی عوام کا یہ پہلا قدم ثابت ہوگا ۔