بد قسمتی سے بعض سیاست دانوں نے اپنے مقاصد کے لیے امیر اور صاحب ثروت ہونا گالی اور برائی بنا دیا ہے حالانکہ کسی معاشرے میں صاحب ثروت اور صاحب حیثیت ہونا کوئی برائی نہیں ہے۔ فکر صرف حقوق اور آجکل کی زبان میں ٹیکس کی ادائیگی کی ہونی چاہئے۔ معاشرے میں بعض افراد اپنی دولت چھپانے کے لیے دوسروں کی امارت اور دولت و حشمت کی نشاندہی کرتے اور شور مچاتے رہتے ہیں بالکل ایسے کہ بھاگتے ہوئے چور دوسروں کی طرف اشارہ کرنے لگے کہ وہ جا رہا ہے چور اس طرح حقیقی چور بچ نکلنے کی کوشش کرتا ہے۔ تاریخ اسلام کی بعض نامور شخصیات کے پاس دولت کے انبار تھے لیکن کبھی کسی نے ان کے بارے میں فتویٰ جاری نہیں کیا۔ ایسی دولت خدا کی واحدنیت کے فروغ اور مخلوق خدا کی خدمت کے کام آئی۔ ہمارے معاشرے میں ایسے سیاست دان سامنے آ چکے ہیں جو خدمت اور سیاسی میدان میں مات کھانے کے بعد کاروبار کی وسعت کو گالی بنا کر پیش کرتے ہیں۔ پاکستان میں متعدد کاروباری گھرانے موجود ہیں جو دیگر ملکوں میں بھی اپنے کاروبار کی برانچیں قائم کر چکے ہیں ۔ ملک کے اقتصادی استحکام کا باعث بن رہے ہیں۔ کبھی کوئی ان کے کاروبار کو گالی کے رنگ میں بیان نہیں کرتا اور نہ ہی انہیں مقدمہ بازیوں میں الجھاتا ہے۔ میاں محمد نواز شریف باپ دادا سے امیر کبیر چلے آ رہے ہیں بزرگوں نے سخت محنت کی اوردولت کمائی ۔ اس وقت کی بات ہے کہ جب میاں محمد نواز شریف اور میاں محمد شہباز شریف طالب علم تھے۔ تعلیم سے فارغ ہوئے تو انہیں فوری طور پر بنا بنایا کاروبار ورثے میں مل گیا۔ جب سیاست میں آئے تو کاروبا سے الگ ہو گئے۔ میاں محمد نواز شریف اور میاں محمد شہباز شریف دونوں بھائی سیاست میں ہیں سب جانتے ہیں کہ دونوں بھائیوں نے یا ان کے خاندان کے کسی فرد نے سرکاری فنڈز سے کبھی دھیلے کی کرپشن نہیں کی دن رات محنت کی اور عوامی فلاح و بہبود کے منصوبے مکمل کرکے عوام کے دلوں میں مقام پیدا کیا۔ اس کا نتیجہ ہے کہ ڈکٹیٹر کی قید و بند اور جلا وطنی کی صعوبتیں برداشت کرنے اور برسوں اپنے عوام سے دور رہنے کے باوجود میاں محمد نواز شریف تیسری بار پاکستان کے وزیراعظم ہیں۔ ان کی مقبولیت صرف پاکستان کے عوام تک محدود نہیں بلکہ صلح جو اور فرینڈلی رویوں کی وجہ سے دوسرے ملکوں میں بھی پسندیدہ شخصیت ہیں چین ترکی سعودی عرب اور متعدد دوسرے ملک اس سلسلے میں مثال ہیں۔
پاکستان میں بعض شکست خوردہ سیاست دان اپنی فنکارانہ صلاحت سے میاں محمد نواز شریف کے باپ دادا کے بیرون ملک اثاثوں کو گالی اور جرم بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگر شریف خاندان کے کاروبار کی وسعت گالی ہے اور جے آئی ٹی اس گالی کو مخصوص مقاصد کے لیے پاکستان دشمنی قرار دیتی ہے تو اس کا مطلب ہوگاکہ پاکستان کی کسی کاروباری فیملی کو اپنا کاروبار زیادہ پھیلانا نہیںچاہئے۔ اقتصادی لحاظ سے لولے لنگڑے پاکستان پر ہی اکتفا کرنا چاہئے۔ جے آئی ٹی کے افسران کو شاید احساس نہیں ہوگا کہ ان کی پیش کردہ رپورٹوں سے ملک میں کاروباری سرگرمیوں پر کس قدر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ محترم عدلیہ کے ذی وقار منصفوں کو ضرور سوچنا ہوگا کہ انتشار پسند سیاست دانوں اور ان کے وکیلوں کی موشگافیوں سے صاحب کردار صاحب حیثیت اور خادم ملک و قوم وزیر اعظم کی شخصیت کو داغدار ثابت کرنے کی کوششوں میں کس قدر جھول اور کمزوریاں موجود ہیں ۔عدالت کے باہر وزیراعظم کے خاندان کو گالیاں دینے والوں میں کتنے ہیں جو امانت و دیانت خدا خوفی اور خدمت خلق میں نواز شریف خاندان کی روایات کے قریب پہنچ سکتے ہیں۔ اگر سپریم کورٹ وقتی طور پر الزام تراشیوں کی سیاست اور مقدمہ بازیوں کو لپیٹ کر عوام میں سیاست دانوں کی مقبولیت کا گراف جانچنا چاہے تو 2018 کے الیکشن کا انتظارکر لیا جائے۔ بڑھک مار سیاستدانوں کے بارے میں پتہ چل جائے گا کہ عوام کے نزدیک کتنے پانی میں ہیں اور میاں محمد نواز شریف کی کارکردگی کے کس قدر دلدادہ ہیں۔ پاکستان کی تاریخ پر نگاہ ڈالتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ پاکستان بننے اور قائداعظم محمد علی جناح کی رحلت کے بعد اکثر و بیشتر سیاست دانوں نے پاکستان میں اقتدار کو بازیچہ اطفال بنا ئے رکھا ۔ اقتدار حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کے کھیل میں متعدد بار سیاست دان فیلڈ سے آوٹ ہوئے جن حکمرانوں نے عوام کی خیر و فلاح کے لیے کچھ کارکردگی دکھائی ان میں میاں محمد نواز شریف سرفہرست ہیں پہلی بار موٹر وے بنائی جس پر سفر کرنا سیاست دانوں سمیت تمام طبقات باعث اعزاز سمجھتے ہیں 2013کے الیکشن کے نتیجے میں میاں محمد نواز شریف کو اقتدار ملا تو ملک میں خارجہ سرمایہ کاری کا فقدان تھا ۔ لوڈشیڈنگ کا یہ عالم تھا کہ ایک گھنٹہ بجلی آتی تو تین گھنٹے عنقا رہتی میاںمحمد نواز شریف کی کاوشوں کا ثمر ہے کہ پاکستان کی خوشحالی کا بڑا منصوبہ سی پیک تکمیل کی طرف بڑھ رہا ہے۔ بجلی کے کئی پراجیکٹ مکمل ہو کر بجلی دینے لگے ہیں۔ اگلے سال تک مزید بجلی دینے لگیں گے۔ انڈیا اسرائیل اور امریکہ پاکستان کو ایٹمی اور اقتصادی لحاظ سے مضبوط دیکھنا پسند نہیں کرتے اندرون ملک بعض سیاست دان ملک دشمنوں کی ہمنوائی میں موجودہ حکومت کو گرانے کی کوششوں میں مصروف چلے آ رہے ہیں بعض فارغ جماعتوں اور افراد کو ساتھ ملا کر کنٹینر دھرنا دیتے ہیں۔ دارالحکومت کو یرغمال بنانے کی سازش کرتے ہیں حکومت اور بڑے ترقیاتی فلاحی منصوبوں کو مقدمہ بازیوں کی بھینٹ چڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں مقصد یہ کہ ملک میں افراتفری پیدا کرکے میاں محمد نواز شریف کو حکمرانی سے محروم کیا جا سکے ایسے سیاست دان بھی ہیں جو مشرف کو دس بار وردی میں منتخب کرانے کا اعلان کرتے تھے آج منہ چھپانے کی بجائے ایڑیاں اٹھا اٹھا کر میاں محمد نواز شریف کی حکومت گرانے میں پیش پیش ہونے کی کوشش کرتے ہیں بعض دوسرے سیاست دان بھی ہیں جو اقتدار میں رہے تو لوٹ مار کا بازار گرم رکھا ۔آج ایسے یتیم قسم کے سیاست دان صاف ستھرے کردار کے مالک میاں محمد نواز شریف کے خلاف جتھہ بندیوں میں مصروف ہیں ہمارے خیال میں یہ سب سعی لاحاصل ہے اگر سیاست دان ملک اور عوام کے بہی خواہ ہیں تو سازشوں کو ترک کرکے 2018 کے الیکشن کا انتظار کریں ۔بصورت دیگر اگر ان سیاست دانوں نے اندھیرے میں ٹکریں مارنا ترک نہ کیا ۔ منتخب حکومت کو کام نہ کرنے دیا تو ڈر ہے کہ تمہاری داستان تک نہ ہوگی داستانوں میں کے مصداق لڑتے بھڑتے ختم ہو جائیں گے ملک کا نقصان کریں گے اور اپنا بھی۔