جے آئی ٹی کی فائنل رپورٹ 60 دن کی شب و روز محنت کے بعد بالآخر گزشتہ روز سوموار 10 جولائی کو سپریم کورٹ کے معزز تین رکنی بنچ کے سامنے پیش ہوگئی جس پر عدالت عالیہ نے اس رپورٹ پر سماعت کیلئے ایک ہفتہ بعد مورخہ 17 جولائی کا وقت دیا۔ اس میں کوئی دو آراء نہیں اور سب فریقین ا ب اس با ت پر متفق ہیں کہ یہ تاریخ ساز مقدمہ اپنے آخری نازک ترین مرحلہ میں داخل ہو گیا ہے۔ جناب نواز شریف کے خاندان کے وکلاء ہوا کا رخ اپنے مخالف محسوس کرنے لگے ہیں چنانچہ پیش بندی کے طور پر وفاقی کابینہ کی ایک اہم میٹنگ کے بعد بعض سینئر وفاقی وزراء نے JIT کو زور شور تند ترین لحظہ میں اپنی تنقید کا ہدف بنانا شروع کر دیا اور دوسری طرف شریف خاندان کے سینئر وکیل جناب خواجہ حارث صاحب نے 17جولائی کو سپریم کورٹ میں JIT کے خلاف اپنے تفصیلی خدشات پر مبنی JIT کو تختہ مشق بناتے ہوئے ایک زور دار پٹیشن بھی فائل کر دی جبکہ سپریم کورٹ نے JIT کی رپورٹ کی سماعت کرتے ہوئے کوئی حتمی رائے قائم کرنے سے پہلے بعض نکات پر سماعت کے بعد مزید کارروائی کیلئے اگلے روز بروز منگل 18 جولائی کیس ADJOURN کر دیا گیا۔ اس روز کی HEARING کے بعد یہ امر روز روشن کی طرح واضح ہو گیا تھا کہ مسلم لیگ نون اور ان کے ساتھ حکومت وقت اس مقدمہ میں وزیراعظم کے خلاف اپنے حق میں فیصلہ حاصل کرنے میں کئی دشواریوں سے دوچار ہیں۔ دوسرے لفظوں میں شریف خاندان کی توقع کے مطابق مقدمہ ان کے حق میں آگے بڑھتا ہوا نظر نہیں آ رہا اسی لئے حفظ ماتقدم کے طور پر JIT کے خلاف عدالت عالیہ کو اپنے تحفظات بھی پیش کر دیئے گئے ہیں۔ اگر غور کیا جائے تو اس کی صرف ایک ہی وجہ نظر آتی ہے کہ جب سپریم کورٹ کے تین رکنی فاضل بنچ نے JITکی 6 رکنی ٹیم مقرر کی تھی تو اس وقت اس ٹیم سے بہت سی ضرورت سے بڑھ کر خوشگوار توقعات قائم کی گئی تھیں۔ جن کے باعث مٹھائیاں بانٹی گئی تھیں اور اپنی کامیابی کے بھنگڑے ڈالے گئے تھے اس وقت جو تحفظات اور تنقید JIT پر آج کی جا رہی ہے اس کے شائبہ تک کا اظہار تک نہیں کیا گیا تھا۔ یہ توقعات اس وقت سے ہی شروع ہو گئے تھے جب اس مقدمہ کے ابتداء میں فاضل پانچ رکنی بنچ کا وہ تین دو کا فیصلہ سامنے آیا تھا جس میں دو فاضل جج صاحبان نے وزیراعظم اور ان کے خاندان کے بعض ارکان کو صادق اور امین قرار نہیں دیا تھا اور باقی ماندہ تین فاضل جج صاحبان نے اس معاملہ پر مزید PROBE کرنے کے لئے خواہش کا اظہار کیا تھا جس پر چھ رکنی JIT وجود میں آئی تھی جس کی نگرانی میں اس JIT نے مقررہ 60 دن کی مدت کے بعد 10 جولائی کو اپنی رپورٹ مکمل کر کے اسی تین رکنی بنچ کے سامنے پیش کر دی تھیں جہاں یہ رپورٹ اب زیر سماعت ہے۔
اس موقع پر جناب خواجہ حارث صاحب کا اب سپریم کورٹ کے سامنے اس JIT کو تختہ مشق بنانا اور جناب وزیراعظم سمیت بعض سینئر کابینہ کے ممبران کا اپنی پریس کانفرنس میں JIT کو تنقید کا نشانہ بنانا اور اس سارے پس منظر میں وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کا تازہ ترین کردار راقم کے تجزیہ کے مطابق حکمران جماعت مسلم لیگ نون اپنے لیڈر اور وزیراعظم کو یہ مقدمہ جیتنے میں ظاہری تازہ ترین شواہد کے مطابق ناکام ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ انگریزی اخباری DALY TIMES کے مطابق "SC CASTIGATES 'DEFIANT' PM" عدالت عالیہ کے مطابق شریف خاندان نے INVESTIGATION اور INTERROGATIONکے دوران جے آئی ٹی کے ساتھ تعاون نہیں کیا کیونکہ ان کی پالیسی سے یہ تاثر ملتا تھا۔
"DON'T ACCEPT, DON'T REVEAL THAT SEEMS TO BE THE THINKING"
وزیراعظم نواز شریف نے اپنے ایک تازہ ترین بیان میں کہا ہے کہ اسمبلی تحلیل ہو گی نہ استعفیٰ دونگا۔ محاذ آرائی کا ارادہ نہیں لیکن ساتھ ہی ایک اہم بات بھی کی ہے کہ ’’عدالتی فیصلہ قبول کرینگے‘‘۔ یہ بات اپنی کابینہ کے دیگر ممبران کے حالیہ تند و تیز بیانات سے ہٹ کر ہیں۔ جس سے وزیراعظم کی سوچ میں تبدیلی کا اشارہ ملتا ہے۔ ادھر بدھ 19 جولائی تک شریف خاندان کے سینئر وکیل خواجہ حارث نے تیسرے روز بھی سپریم کورٹ کے سامنے اپنی بحث جاری رکھی۔ سماعت کے دوران فاضل عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ ’’وزیراعظم کی نا اہلی بنتی ہے یا معاملہ نیب کو بھیجیں۔ فیصلہ شواہد پر کرینگے‘‘۔ اس سے واضح اشارہ ملتا ہے کہ فاضل عدالت عالیہ آخری فیصلہ کیلئے مقدمہ ٹرائل کورٹ کو بھیج سکتی ہے۔
قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ دو مرحلوں میں دو قسم کے فیصلے خارج از امکان نہیں ہیں۔ پہلے مرحلہ میں وزیراعظم کے صادق یا امین ہونے کے بارے میں جلد فیصلہ دیا جا سکتا ہے جو قانون اور آئین کے مطابق موجودہ فاضل بنچ کے دائرہ اختیار میں ہے۔ دیگر معاملات کے بارے میں جن پر ابھی سماعت کی بحث جاری ہے ان معاملات کو ٹرائل کورٹ کے حوالے کیاجا سکتا ہے اور ان معاملات پر آخری فیصلہ کے لئے وقت کی حدود بھی جاری کی جا سکتی ہے۔
اس دورانیہ میں جبکہ وزیراعظم کے صادق اور امین ہونے کا فیصلہ نہیں ہوتا یہ بہت قیمتی دورانیہ ہے جس میں جناب وزیراعظم کے پاس مسلم لیگ نون اور اپنی حکومت کے اقتدار کو جاری و ساری رکھنے کے صحیح آپشنز موجود ہیں۔ اس محدود کالم میں ان تمام امکانات اور آپشنز پر تفصیلی بحث کی اس لئے ضرورت نہیں ہے کیونکہ اخبارات کے تبصروں اور مختلف ٹی وی چیلنجز کے اندرون و بیرون ملک ان مختلف امکانات پر کافی بحث ہو رہی ہے۔ اس نازک موقع پر قومی مفادات کو کسی کی ذات یا کسی بھی سیاسی پارٹی کے مفاد میں وطن عزیز کی سر بلندی خود مختاری اور SOVEREIGNTY کو ہمیشہ اولین ترجیح دینا ہم سب کا فرض ہے۔ اس سلسلہ میں افواج پاکستان کے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ کا تازہ ترین بیان نہایت حوصلہ افزا ہے کہ موجودہ حالات کے پس منظر میں افواج پاکستان دفاعی امور پر وہ دنیا کی کسی طاقت سے کسی حالت میں سمجھوتہ نہیں کرینگے۔ ایک ایسے نازک لمحہ پر جبکہ پاکستان کے اندرونی و بیرونی دشمن وطن عزیز کے خلاف طرح طرح کی سازشوں میں مصروف ہیں‘ مسلح افواج کے سربراہ کا یہ بیان قوم کے لئے امید اور روشنی کی ایک کرن ہے ۔
پاکستان زندہ باد پائندہ باد۔