اسلام آباد (آئی این پی+نوائے وقت رپورٹ) چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی نے پانامہ کیس پر بنائی جے آئی ٹی کی رپورٹ کو زیر بحث لانے کے بارے میں رولنگ جاری کرتے ہوئے حکومتی موقف کو مسترد کر دیا، چیئرمین سینٹ نے واضح کیا ہے کہ ایوان بالا کے اظہار رائے کے حق اور آزادی سے انکار نہیں کیا جا سکتا، ارکان کی تقاریر کو آزادی پر کوئی قدغن عائد نہیں کی جا سکتی، یہ رولنگ انہوں نے سینٹ اجلاس کی کارروائی کے دوران جاری کی۔ انہوں نے سینٹ اجلاس کی وجوہات سے ارکان کو آگاہ کیا اور کہا کہ 10 جولائی کو30ارکان سینٹ اجلاس کی درخواست دے چکے تھے،14نکات پر مشتمل ایجنڈا ریکوزیشن کے ساتھ منسلک تھا، عدالت عظمیٰ کے حکم پر جے آئی ٹی کی رپورٹ جاری کر دی گئی ہے جو نشراور شائع ہو چکی ہے۔ قومی سیاسی معاملہ بھی ہے، جے آئی ٹی کی رپورٹ پر بحث سے ہرگز عدالت عظمیٰ کی کارروائی متاثر نہیں ہو گی، تقریر کی آزادی ارکان کا بنیادی حق ہے، پانامہ کے سلگتے معاملے پر عوام میں بحث ہو رہی ہے، ٹی وی چینلز میں بات ہو رہی ہے، فریقین، سیاسی جماعتیں، وکلائ، دانشور سب رپورٹ کا پوسٹمارٹم کر رہے ہیں، حکومت سیاسی جماعتیں اپنی آراءکا برملا اظہار کر رہے ہیں، رپورٹ کے 9والیم سپریم کورٹ کی ویب سائیٹ پر جاری ہو چکے ہیں۔ رپورٹ کو ایوان بالا میں زیر بحث لانے کے فیصلے سے مطمئن اور ذہن واضح ہے۔ نوائے وقت رپورٹ کے مطابق وزیر قانون نے سینٹ میں جے آئی ٹی رپورٹ پر اعتراض کیا تھا۔ چیئرمین سینٹ نے کہا جے آئی ٹی رپورٹ ایک حساس مسئلہ ہے‘ مناسب نہیں ممبران اس رپورٹ کو زیربحث لانے سے محروم رہیں۔ سینیٹر سعیدغنی سینٹ میں آخری تقریر کرتے ہوئے آبدیدہ ہوگئے۔ ایوان میں حکومتی اور اپوزیشن سینیٹرز نے ڈیسک بجا کر سعیدغنی کو داد دی۔ سعیدغنی نے کہا میں ایک غریب خاندان سے تعلق رکھنے والا آدمی ہوں۔ میرے دادا مزدور تھے‘ انہوں نے میرے والدکو پڑھایا۔ میرے والد کی میٹرک کی فیس میری دادی نے کپڑے بیچکر جمع کرائی تھی۔ ہم اپنی اوقات کبھی نہیں بھولے‘ اپنے والد کی شہادت کے بعد میں سیاست میں آیا۔ پی ایس 114 کاالیکشن کراچی کی تاریخ کا شفاف ترین انتخاب تھا۔ جے آئی ٹی رپورٹ اور سپریم کورٹ کے خلاف پراپیگنڈے پر سینٹ میں بحث ہوئی۔ ایم کیو ایم کے طاہر مشہدی نے کہا باقیوں کیلئے بھی جے آئی ٹی بنے گی تو تین نسلوں کا حساب ہوگا‘ تب پتہ چلے گا بڑے خزانے کے پیچھے جرم چھپا ہے۔ شکر ہے کرپشن کے خلاف کچھ تو شروع ہوا ہے۔ جے آئی ٹی سپریم کورٹ کی مدد کیلئے بنی تھی۔ اعظم سواتی نے کہا سپریم کورٹ پر حملے کی کوشش ہوئی تو عوام‘ پارلیمان وادارے تحفظ کریںگے۔ جے آئی ٹی نے سب کو زیادہ سے زیادہ وقت دیا۔ بادشاہت کو جمہوریت کے ساتھ منسلک کرنے کی کوشش مت کریں۔ قانون اور اسلوب کے مطابق سب کو آئین اور قانون کے سامنے پیش کرنا ہوگا۔ سینیٹر سراج الحق نے کہا آج بھی وزیراعظم نے کہا میں نہیں جانتا مجھ پر الزام کیا ہے۔ سیاست ومنصب کو کاروبار کو وسعت دینے کیلئے استعمال کیا گیا۔ پانامہ سکینڈل میں شامل سب کا احتساب شروع کیاجائے۔ سینیٹر شاہی سیدنے کہا سیاستدان ایک دوسرے کو رسوا کر رہے ہیں۔ کوئی چاہتا ہے سیاستدان ذلیل ہوں‘ ہم سب اس کے آلہ کار بنے ہیں۔ سیاستدانوں میں کچھ ایسے تھے جو چاہتے تھے ہمارا احتساب نہ ہو دوسرے کا ہو۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کاانتظار کیاجائے۔ کاش یہ کام پارلیمنٹ خود کرلیتی۔ سینیٹر پرویزرشید نے کہا یقیناً بدعنوانی کرنے والے کو سزا ملنی چاہیے۔ کیا آج پاکستان جس حالت میں ہے اس کی وجہ بدعنوانی ہے؟ پاکستان میں ون پورٹ کا قیام زیادہ تباہی کا سبب بنا یا سیاستدانوں کی بدعنوانی؟ کون سیاستدان تھا کہ اس کی بدعنوانی سے 1971ءمیں ملک دولخت ہوا؟ دہشت گردی نے کس بدعنوانی سے جنم لیا۔ ملکی سرحدوں پر جو خطرات ہیں کیا سیاستدانوں کی بدعنوانی سے پیدا ہوئے؟ معیشت کی خرابی کیا سیاستدانوں کی بدعنوانی سے پیدا ہوئے۔ بلوچستان کے لوگوں کے دکھ کس بدعنوان سیاستدان کی وجہ سے ہیں؟ پاکستان کے مسائل کی وجوہات بدعنوانی میں تلاش نہیں کی جاسکتی‘ جنہیں 60دن کا اقتدار ملا وہ 40سال کاحساب مانگ رہے ہیں۔ انہیں ضرورت پڑی تو اپنے کزن کی کمپنی سے کام کروا لیا۔ جے آئی ٹی نے کزن کی کمپنی کو 49ہزار پاﺅنڈ قومی خزانے سے ادا کیے۔ اعتزاز احسن نے کہا مجھے دبئی کا اقامہ چاہیے تو پارلیمنٹ میں نہ آﺅں بلکہ بزنس کروں۔ جے آئی ٹی میں پیش ہونے والے ہر شخص نے کہا ہمارا قصور کیا ہے؟ جے آئی ٹی کی ٹیپ آجائیں تو پتہ چلے گا بیٹوں‘ والد‘ چچا سے کیا سوال ہوئے۔ قوم جے آئی ٹی کے سوال دیکھے تو دلچسپ سکرپٹ اور ویڈیوز ہوں گی۔ کہا جاتا ہے یہ سازش ہے۔ جے آئی ٹی رپورٹ میں ذکر ہے ذرائع کون ہیں‘ جو آمدن ظاہر نہ کرسکے تو وہ ہولڈر آف پبلک آفس گرفت میں آتا ہے۔ جس کے مفاد کیلئے ٹیمپرنگ ہوئی وہ کیسے کیس میں نہیں آئے گا۔ ایف آئی اے نے ظفر حجازی کا نرم کیس بنایالیکن وہ بچ نہیں سکیں گے۔ ماضی ایسا ہو کہ جس نے سپریم کورٹ پر حملہ کیا ہو‘ طارق عزیز اور اختر رسول کو سزا ہو اور میں بچ جاﺅں لیکن ہم قربانی کے تین بکرے بنے‘ جس کے اقتدار کیلئے سب کچھ ہوا ہو وہ بچ جائے۔ پانامہ میں سوا کروڑ دستاویزات ظاہر ہوئیں۔ امیتابھ اور ایشوریہ کا نام بھی آیا۔ سازش تھی صرف میاںنوازشریف اور ان کے خاندان کے خلاف۔ کہا گیا جے آئی ٹی نے 60دن میں رپورٹ کیسے بنائی۔ کیا سپریم کورٹ نے بھی پھر 13سال پہلے سے بنائے ہوئے تھے؟ یا تو کہیں ججز نے 3سال میں سوال بنائے تھے۔ 20اپریل کو تو وہ سوال آئے جس پر جے آئی ٹی نے تحقیق کرنی تھی۔ زیادہ تر افراد نے جے آئی ٹی رپورٹ نہیں پڑھی‘ جے آئی ٹی نے 60دن میں ہی کام کیا ہے۔ سینیٹر مشاہداللہ خان نے کہا پانامہ پیپرز میں نوازشریف کا نام نہیں‘ ان کے بیٹوں کا نام ہے۔ نوازشریف کے بیٹوں کے علاوہ 450 سے زائد پاکستانیوں کے نام ہیں۔ پانامہ پیپرز میں رحمان ملک اور بینظیربھٹو کا نام بھی ہے جس جس کا نام ہے پھر اس کا بھی احتساب ہونا چاہیے۔ جے آئی ٹی کی دستاویزات 80فیصد سےزائد غیرتصدیق شدہ ہیں۔ نوازشریف کیوں استعفیٰ دیں‘ ان کا تو نام نہیںہے۔ جن کا نام پانامہ پیپرز میں ہے وہ اسستعفے مانگ رہے ہیں۔ یہاں جے آئی ٹی رپورٹ کو خراج تحسین پیش کر رہے ہیں۔ واجد ضیاءنے 49ہزار پاﺅنڈ کا ٹھیکا اپنے کزن کو دیدیا جس کا دفتر ایک کمرے میں ہے‘ یہ ذمہ داری صرف واجد ضیاءپر نہیں پوری جے آئی ٹی پر عائد ہوتی ہے۔ انہوں نے تو 50ہزار پاﺅنڈ کی واردات ڈال دی۔سینٹ اجلاس میں چیئرمین رضا ربانی موبائل فون کی گھنٹیاں مسلسل بجنے سے برہم ہو گئے۔ چیئرمین سینٹ نے ایوان میں فون کے استعمال پر پابندی لگا دی۔ جے آئی ٹی رپورٹ پر بحث کے دوران اپوزیشن نے وزیراعظم سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا تھا جبکہ وفاقی وزیر قانون و انصاف زاہد حامد نے رپورٹ پر بحث سمیٹتے ہوئے خطاب میں کہا جے آئی ٹی کی رپورٹ کی بنیاد پر وزیراعظم سے استعفیٰ مانگنا درست نہیں۔ رپورٹ کے 2 والیم ہائیکورٹ کے کالعدم قرار دیئے کیس پر لکھے گئے۔ رپورٹ میں نازیبا زبان استعمال، غیرقانونی طور پر ٹیلی فون ٹیپ کئے گئے۔ رپورٹ پر انحصار نہیں کیا جا سکتا۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ آئی ایس پی آر کی ٹوئیٹ آئی تھی، وہ کرپشن کے خلاف اور قانون کے ساتھ ہیں کاش یہ ٹوئیٹ بھی آتی جب پرویز مشرف عدالت جاتے ہوئے ہسپتال کی طرف مڑ گئے، کل ڈی ایچ اے میں کرپشن پر بات کی کاش تب بھی یہی ٹوئیٹ آتا۔ چیئرمین سینٹ رضا ربانی نے فرحت اللہ بابر کے بیان پر ہنستے ہوئے کہا کہ فرحت اللہ بابر لگتا ہے آپ آئی ایس پی آر کو مانیٹر کر رہے ہیں۔ فاٹا اصلاحات میں تاخیر پر بھی بحث کی گئی۔صباح نیوز کے مطابق سعیدغنی نے سینٹ کی سیٹ چھوڑ دی۔ وفاقی وزیر قانون وانصاف زاہدحامد نے کہا ہے کہ پانامہ پر بنائی جے آئی ٹی نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ۔ جے آئی ٹی کا کام تفتیش کرنا تھا فیصلہ سنانا نہیں۔ جے آئی ٹی کی طرف سے گواہان کو دھمکیاں دی گئیں اور ان کی جاسوسی کی گئی۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ کی بنیاد پر عوام کے منتخب کردہ وزیراعظم سے استعفے کا مطالبہ درست نہیں۔سینٹ میں فاٹا اصلاحات پر کابینہ کی سفارشات پر پیش رفت نہ ہونے پر تحریک پیش کر دی گئی۔ سینیٹر ہدایت اللہ نے سینٹ میںتحریک پیش کی۔ انہوں نے کہا فاٹا کو خیبر پی کے میں ضم کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں‘ ہمیں اہمیت نہیں دی جارہی۔ سینیٹر صالح شاہ نے کہا ہم نے تحفظات سے آگاہ کیا۔ اہمیت نہیں دی گئی‘ کمیٹی میں فاٹا کی نمائندگی نہ ہونے کے باعث مسائل پیدا ہوئے۔ آئین کا آرٹیکل 239 فوری طور پر ختم کیا جائے۔ریاستی وسرحدی امور (سیفران) کے وزیر عبدالقادر بلوچ نے کہا کہ فوج نے کسی مرحلے پر فاٹا اصلاحات کی مخالفت نہیں کی بلکہ فاٹا کو بغیر مرکزی دھارے میں لائے ضم کرنے کی مخالفت کی۔ فاٹا اصلاحات کی تحریک پر بات کرتے ہوئے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا فاٹا اصلاحات کے معاملے پر آئی ایس پی آر اور وزیر سیفران عبدالقادر بلوچ کے درمیان تضاد ہے۔ انہوں نے کہا عبدالقادر بلوچ نے کہا فوج فاٹا اصلاحات نہیں چاہتی جبکہ جی ایچ کیو میں ایک اجلاس کے بعد پریس ریلیز میں کہا گیا ہم فاٹا اصلاحات چاہتے ہیں۔ فوج نے گزشتہ برس کہا فاٹا کو ضم کرنے سے قبل علاقے کو مرکزی دھارے میں لایا جائے۔ اگر پارلیمنٹ پر غیرآئینی طریقے سے کوئی آنچ لانے کی کوشش کی گئی تو میں بطور ایوان کے کسٹوڈین اس کی مزاحمت کرنے میں صف اول میں کھڑا ہوں گا اور ہم جمہوریت کو پٹڑی سے نہیں اترنے دیں گے۔ حزب اختلاف کی جماعتو ں نے واضح کیا کہ حقیقی احتساب سے حقیقی جمہوریت قائم ہو گی، اصل میں اداروں کو کمزور کرنے کی سازش ہو رہی ہے ، پانامہ پیپرز کے تحت منظر عام پر آنے والے تمام 600 افراد کا احتساب کیاجائے، پارلیمنٹ کی ٹی او آرز بنانے میں ناکامی پر معاملہ سپریم کورٹ میں چلا گیا۔ ٹی او آر میں رکاوٹ بننے والے نہیں چاہتے تھے ان کا احتساب ہو، حکومت کئی دن سے تین تین پریس کانفرنسیں کر رہی ہے ہر دور میں ہمارا احتساب ہوا۔ ادارے مفلوج ہو کر رہ گئے ہیں۔ وزیر اعظم سیالکوٹ گئے ساتھ ہی سرحد پر بلا اشتعال فائرنگ ہو رہی تھی مگر انہوں نے اس کا تذکرہ کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ حکمران احتساب کا سامنا کریں دھمکیا ں کیوں دے رہے ہیں۔
سینٹ/ رولنگ