الیکشن، ووٹرز، تبدیلی کانعرہ اور اُمیدیں... ؟؟

اس وقت سب کی نظریں مُلک میں ہونے والے عام انتخابات کی شفافیت اور اِس کے بعد تشکیل پا نے والی حکومت پر لگی ہوئی ہیں۔ اگرچہ ، انتخابات کے انعقاد کو چند ہی دن رہ گئے ہیں۔ مگر ایسا لگتا ہے کہ جیسے انتخا بی نتائج کے بعد پیدا ہونے والی صورتِ حال ماضی سے مختلف نہیں ہوگی،قوی امکان تو یہی ظاہر کیا جارہاہے کہ نہ تو ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگانے والے کچھ نیا کرپا ئیں گے اور ناں ہی ’’تبدیلی آئی‘‘ کا ترانہ بجا نے والے ہی کسی ایسی ویسی تبدیلی کے ساتھ کچھ نیا لے کر سامنے آئیں گے ۔وہی کچھ قوم کا مقدر بنے گا جیسا پہلے ہوتاآیا ہے۔اِس میں شک نہیں کہ اقوامِ عالم میں الیکشن چہروں کی تبدیلی کے ساتھ نظام کی بہتری کا ذریعہ بھی ہوا کرتے ہیں ، مگر بدقسمتی سے ستر سال سے غریبوں ،بے کسوں، مجبوروں اور مقروضوں کے دیس پاکستان میں تو الیکشن صرف چہروں کی تبدیلی کا ہی ذریعہ ثابت ہوتے رہے ہیں، جس کے لئے قومی خزا نے سے اربوں، کھربوں کا نقصان ہونا معمولی سی بات ہے۔ سُنا ہے کہ امسال25جولائی 2018ء کو بھی جو انتخابات ہونے جارہے ہیں۔ یہ مُلکی تاریخ کے سب سے مہنگے ترین الیکشن ہیں۔ ایسااِس لئے ہے کہ اِس میں دھاندلی اور بوگس ووٹنگ کی روک تھام کے لئے جدید ٹیکنالوجی اور راکٹ سائنس سے بھی مددلی جارہی ہے۔ اِس لئے غالب گمان یہ ہے کہ یہ اپنی نوعیت کے مہنگے ترین انتخابات ہوں گے۔ مگر اِس کا بھی کیا فائدہ ہوگا؟جب کہ حسبِ روایت یہ بھی صرف چہروں کی تبدیلی کے لئے ہی ہوں گے؟ دیکھ لیتے ہیں، اَب کچھ بھی ہو مگر یہ اعتراف کرنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ پاکستان میں ہربار الیکشن کے بعد وجود میں آنے والی حکومتوں کے کارندوں اور جمہوری پچاریوں نے قومی خزانے سے جتنی لوٹ مار کی ہے یہ اِسی کا ہی نتیجہ ہے کہ آج مُلک تین سو ارب کا مقروض ہوگیاہے ۔ یہاں اِس سے بھی اِنکار نہیں کہ مملکتِ پاکستان میں سِول حکمرانوں، سیاستدانوں او ر اِن کے چیلے چانٹوں نے سترسال سے جمہوریت کے نام پر جمہوریت کوہی موم کی گڑیابنایاہے؛ یقین ہے کہ اِس مرتبہ بھی جس انداز سے مٹھی بھر اشرافیہ نے’’ الیکشن، ووٹرز اور تبدیلی کے نعرے کے ساتھ جیسی اُمیدیں‘‘ نتھی کردی ہیں۔ یہ بھی عوام کی آنکھوں میں جمہوری سفوف جھونک کرعوام سے اپنے حق میں ووٹ لے کر اپنی جیت کو یقینی بنا نے کی ڈرامہ بازی اور کڑی سازش ہے۔ آج شاید ہی دنیا میں کوئی قوم اور کوئی مُلک ایسا ہو؛ جس کے عوام اپنے کرپٹ حکمرانوں اور سیاستدانوں کا احتساب کرنے کے بجا ئے۔ اُلٹا اُن کے بارے میں ایسی رائے رکھیں۔ اور اپنے سینے چوڑے کرکے یہ کہیں ’’ اگر کھاتاہے تو لگاتا بھی تو ہے‘‘ اِس کا احتساب کرکے ادارے غلط کررہے ہیں،سوچیں ، اور تصورکریں ،آج وہ عوام جنہیں اپنے حکمرانوں اور سیاستدانوں کی کرپشن پر اداروں سے پہلے اِنہیں ڈنڈا اُٹھا کر کرپٹ عناصر( حکمرانوں اور سیاستدانوں) کا احتساب کرنا چاہئیے تھا۔آج اِن کا کرپشن پر اپنے حکمرانوں کے حق میں سڑکوں او ر گلیوں ، بازاروں میں نکل کر ایسے بیانات دینا یہ ثابت کرتاہے کہ سرزمین پاکستان کا توبچہ بچہ بھی کرپشن کی گھٹی میں ڈوبا ہوا ہے۔ تب ہی ساری پاکستا نی قوم کرپٹ حکمرانوں اور سیاستدانوں کو اداروں کے احتسا بی عمل کے بعد اِنہیں سزا سے بچارہی ہے۔ اَب آپ اِسے کیاکہیں گے؟چند روز بعد انتخابات ہونے والے ہیں ، سیاسی جماعتوں کے بال رومز میں جشن کا سماں ہے، جیت کے ترانے بجائے جارہے ہیں، شورشرابے کا ایک طوفان برپاہے،قانونی اور اخلاقی حدود کی دھجیاں بکھیری جارہی ہیں، ہر ایک نے اپنی جیت کا خیالی خول تیار کررکھاہے ، سگریٹ کے دھوئیں اور چائے کی پیالی سے نکلنے والی بھانپ کی طرح خوش فہمیوں کے جال بن دیئے گئے ہیں۔ جبکہ ابھی تک سنجیدہ اور خاموش ووٹرز کے مزاج اور اِس کے فیصلہ کن رول کی جانب کسی کی بھی خاص توجہ نہیں ہے؛یہ بھی ٹھیک ہے کہ الیکشن میں سیاسی جماعتوں کی آپس میں اختلافِ رائے کا پیدا ہونا اپنی جگہہ ہے۔ مگر ایک دوسرے کے خلاف گندی ، نفرت اور اشتعال انگیز زبان استعمال کرنا اور گدھے جیسے معصوم اور محنت کش جانور پر ظلم اور تشدد کرنا اور اِسے موت کی وادی میں دھکیل دینا اِنسا ن کی انسانیت اور رویوں پر سوالیہ نشان لگارہاہے۔ ایسے میں بھلاجیت ہو بھی جائے تو یہ اِنسان اور انسانیت کی نہیں بلکہ حیوانیت اور شیطانیت کی جیت تصور کی جائے گی۔ ویسے چاہتاہوں کہ یہ نکتہ بھی باور کراتاچلوںکہ پاکستان میں جمہوریت کا ’’ج ‘‘ بھربھراہوگیاہے؛ اِسے اِس نہج تک پہنچانے والے یہی عناصر ہیں جنہوں نے نصف صدی سے زائد عرصے میں عوامی ثمرات سے عاری جمہوری ثمرات کا نعرہ تو بہت لگایا مگر اِسے عوام الناس تک پہنچانے کے بجائے ۔اپنے ہی دامن تک محد ود رکھا ہے۔ تو پھر کیوں نہ جمہوریت کے ایک ’’ج ‘‘ کے بجائے؛ مُلک کی باگ ڈورتین ’’ج‘‘ یعنی کہ جنرل، جسٹس اور جرنلسٹ کو دے دی جائے۔

ای پیپر دی نیشن