1967ءکی عرب اسرائیل جنگ کے دوران یہودی پراپیگنڈہ مشینری پوری قوت کے ساتھ واویلا کرتی رہی کہ انکے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے۔ وزیراعظم ایشکول نے ایک میڈیا کانفرنس میں تعجب سے کہا تھا کہ عربوں کو کیا ہو گیا ہے اور آخر کیا چاہتے ہیں، ان سے ہمارا وجود برداشت کیوں نہیں ہوتا؟ اس پر ایک برطانوی اخبار نے اسرائیل کے تجاہل عارفانہ کی پھبتی اڑاتے ہوئے لکھا تھا کہ فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کو وہ اپنا حق سمجھتا ہے اور اسکی مثال اس یہودی نوجوان کی سی ہے جسے روس، ترکی جنگ کے زمانے میں محاذ پر روانہ کرتے ہوئے ماں نے نصیحت کی تھی کہ زیادہ مشقت کی ضرورت نہیں، آرام اور صحت کا خیال رکھنا۔ بس ایک ترک مار لیا اور آرام کر لیا پھر ایک ترک مار لیا اور آرام کر لیا۔ لڑکا بولا اگر ترک نے مجھے مار دیا تو ؟ وہ بھلا ایسا کیوں کرنے لگا تم نے اس کا کیا بگاڑا ہے؟ ماں نے معصومیت سے جواب دیا۔