گم گشتہ معاشی استحکام

Jul 21, 2019

وقار مسعود خاں

قارئین بخوبی آگاہ ہیں کہ ان صفحات میں ہم ایک عرصے تک حکومت کو آئی ایم ایف کا پروگرام شروع کرنے کا مشورہ دیتے آئے ہیں۔ اسکی ضرورت و افادیت پر ہم نے کئی کالم لکھے تھے۔ بالآخرجب اس پروگرام کا معاہدہ ہوگیا تو ہم نے اس کا خیرمقدم بھی کیا۔ اس پروگرام سے بہت سی امیدیں وابستہ ہیں جس میں کم از کم یہ امید ہے کہ ملکی معیشت مستحکم ہوجائیگی۔ لیکن اب اس عمل کے بہت سارے مراحل طے ہوگئے ہیں پھر بھی اس سے متوقع ثمرات کی بارش کے چند قطرے بھی نظر میں نہیں آرہے۔دس مئی کو اس پروگرام پر اتفاق کا اعلان ہوا تھا۔ بعد ازاں اس میں شامل سابق اقدامات (Prior Action)پر عملدرآمد کا سلسلہ شروع ہوا۔ شرح تبادلہ میں کمی (جو ایک سو اکتالیس روپے سے بڑھ کر ایک سو ستاون روپے پر پہنچ گئی) اور شرح مارک اپ میں اضافہ ہوا (جو دس اعشاریہ پچھتر سے بڑھ کربارہ اعشاریہ پچیس پر پہنچ گئی) ۔ بعد ازاں بجٹ کا اعلان ہوا جو ٹیکسوں سے بھرپور تھا۔ سترہ جون کو ایک پریس کانفرنس میں گورنر اسٹیٹ بینک نے یہ اعلان کیا کہ آئی ایم ایف سے متعلق تمام سابق اقدامات مکمل ہوگئے ہیں اور تین جولائی کو ایکزیکٹو بورڈ پاکستان کے پروگرام کی منظوری دیدیگا۔ انھوں نے اپنی دانست میں یہ بھی مناسب سمجھا کہ یہ دعوی بھی کیا کہ معاشی استحکام شروع ہوگیا ہے۔ لیکن قبل اس کے کہ یہ وقت آتا ہم نے دیکھا کہ شرح تبادلہ میں ایک بار پھر زبردست گراوٹ سامنے آگئی (جو ایک سو پینسٹھ روپے تک پہنچ گئی) اور مارکیٹ عدم استحکام کا شکار ہوگئی۔ پھر تین جولائی کو بالآخر پروگرام کی منظوری ہوگئی، لیکن تین ہفتے گزرنے کے باوجود بے یقینی اور عدم استحکام ڈیرے ڈالے بیٹھے ہیں اور فی الحال ان کا اٹھنے کا ارادہ نظر نہیں آتا۔
در حقیقت ہم دیکھ رہے ہیں کہ معیشت کی کیفیت بہتری کی طرف نہیں پلٹ رہی۔ ہم چند اہم ترین اشاروں کی نشاندہی کرتے ہیں جو اس بات کی تصدیق کرتے ہیں۔ اول، ٹیکسوں سے متعلق حکومت نے جو فیصلے کیے ہیں وہ ابھی تک اختلافات کا شکار ہیں۔ کاروباری حلقے ان اقدامات کو قبول نہیں کررہے اور کہا جا رہا ہے کہ کاروبار کا پہیہ رْکا ہوا ہے۔ جولائی کا مہینہ آخری عشرے میں داخل ہوگیا ہے لیکن یہ قضیہ ابھی تک حل طلب ہے۔ ایسے میں یہ کیونکر ممکن ہوگا کہ ہم ٹیکس وصولی کا وہ ہدف حاصل کرلیں جو اس ماہ کیلئے طے ہوا ہے۔ اگر یہ حاصل نہیں ہوتا تو ہمارے سامنے اور بڑی پریشانی آ کھڑی ہوگی جو آئی ایم ایف پروگرام کے اہداف میں ممکنہ ناکامی کی صورت میں نکلے گا اور جسکے سخت مضر اثرات مرتب ہونگے۔ حکومت نے اس سلسلے میں کئی محاذ کھول لیے ہیں۔ ایک طرف وہ پہاڑ جیسا ٹیکسوں کا ہدف طے کربیٹھی ہے، جس کیلئے ضروری ہے کہ جو نئے ٹیکس لگائے گئے ہیں انکی وصولی کا عمل شروع ہو جو نہیں ہورہا۔ دوسری جانب اس نے وصولیوں کے نظام میں اصلاحات کا بھی ایک بڑا ایجنڈا نافذ کرنے کا ارادہ کرلیا ہے، مثلاً پچاس ہزار روپے سے زائد کی خرید و فروخت کی دستاویزی شرط۔ اس وقت جھگڑوں کی بنیاد ی وجوہات اس نوعیت کی تبدیلیاں ہیںجن کو ماضی میں بھی شروع کرنے کی کوشش کی گئی لیکن ناکام رہیں۔ ہمیں حکمت و دانش سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے نہ کہ غیر ضروری پر کاروبار سے الجھنے کی۔ لہذا یہ بات اب ختم کرکے آگے بڑھا جائے تاکہ معیشت کا پہیہ چلنا شروع ہوجائے۔
دوم، جس دن سے آئی ایم ایف کے پروگرام کی منظوری کی خبر آئی ہے، کہیں بھی اس کا خیر مقدم ہوتا نظر نہیں آرہا۔ یہ سلسلہ سب سے پہلے اسٹاک مارکیٹ میں ظاہر ہونا چاہیے تھا۔ اسکے بر خلاف، لگتا ہے کہ اسٹاک مارکیٹ شدید ناراضگی کا شکار ہوگئی ہے۔ تین جولائی سے اب تک مارکیٹ دو ہزار پانچ سو سے زیادہ پوانئنٹس سے گر گئی ہے جو سات فیصد سے زیادہ ہے۔ سال گذشتہ میں سات سو ملین ڈالر سے زائد بیرونی سرمایہ کاری واپس چلی گئی ہے۔ لوگ مایوسی کا شکار ہیں۔ بیرونی سرمایہ کار شرح تبادلہ میں زبردست گراوٹ کی وجہ سے خوفزدہ ہوگیا ہے اور مستقبل قریب میں اسکی واپسی کے امکانات نہیں ہیں۔
سوم، اکثر خبریں یہ آرہی ہیں کہ معیشت سخت کمزوری کا شکار ہورہی ہے۔ گذشتہ سال جولائی تا اپریل کے عرصے میں بڑی صنعتوں کی پیداوار میں اس سے پہلے سال کے مقابلے میں ساڑھے تین فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ ان میں گاڑیاں، اسٹیل، سیمنٹ، دوائیں، فوڈ اور مشروبات اور ٹیکسٹائل شامل ہیں۔ گندم کی فصل جو ملک کی مجموعی آمدنی کا ایک خاطر خواہ حصہ ہوتی ہے، اپنے ہدف دو کڑوڑ پچپن لاکھ ٹن سے پندرہ لاکھ ٹن کم ہوگی، جو گذشتہ سال کی پیداوار سے بھی کم ہے۔ ملک میں گندم کی فراہمی کے بارے میں اندیشے پیدا ہورہے ہیں جسکے سبب اپنے گذشتہ روز کے اجلاس میں کابینہ کی اقتصادی رابط کمیٹی نے گندم کی درآمد پر پابندی لگا دی ہے۔ ایک اور بری خبر پیٹرولیم اشیاء کے استعمال میں کمی سے متعلق ہے۔ سال گذشتہ میں ان کی کھپت میں پچیس فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ خصوصاً ڈیزل کا استعمال بیس فیصد کم ہوا ہے۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ ڈیزل معیشت کے پہیئے کو چلانے میں کلیدی ایندھن کا کام کرتا ہے۔ اسکے استعمال میں کمی معاشی سرگرمیوں میں کمی کا عندیہ دے رہی ہے۔ یہ تینوں باتیں اس بات کی طرف اشارہ کررہی ہیں کہ سال گذشتہ میں قومی پیدوار میں گروتھ کا نظرثانی شدہ تخمینہ جو تین اعشاریہ تین فیصد دکھایا گیا تھا وہ حقیقت سے زیادہ تھا اور قوی امکان یہ ہے کہ گروتھ دو اعشاریہ سات اور نو کے درمیان ہوگی۔ اس پس منظر میں ہم دیکھتے ہیں کہ معیشت سست روی کا شکار ہے۔
چہارم، اسٹیٹ بینک نے سولہ جولائی کو مانیٹری پالیسی کمیٹی کے اجلاس میں شرح مارک کو مزید ایک فیصد بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے، جو اب تیرہ اعشاریہ پچیس فیصد ہوگئی ہے۔ یہ ایک حیرت انگیز فیصلہ ہے جس کی معقولیت اور جواز ڈھونڈنا آسان نہیں ہے۔ کہا گیا ہے کہ نئے سال میں افراط زر گیارہ سے تیرہ فیصد ہونے کا امکان ہے جس کی خاطر یہ شرح بڑھائی گئی ہے۔ ہماری نظر میں یہ ایک بڑی بودی دلیل ہے۔ جون کے مہینے میں افراط زر آٹھ اعشاریہ نو فیصد تھا جو مئی میں نواعشاریہ ایک فیصد کے مقابلے میں کم ہوا تھا۔ اس کا مزید تجزیہ یہ بتا رہا ہے کہ یا تو اس میں کمی ہورہی ہے یا یہ مستحکم ہورہا ہے۔ اس سلسلے میں افرا ط زر کے متعدد اعشاریہ سب اس رجحان کی تصدیق کررہے ہیں۔ دوسری جانب سال گذشتہ میں افراط زر کی اوسط شرح سات اعشاریہ تین فیصد تھی اسکے مقابلے میں شرح مارک اپ بارہ اعشاریہ پچیس فیصد تھی، جس کا مطلب ہے کہ حقیقی مارک اپ پانچ فیصد تھا، جو ایک بہت بڑی شرح ہے خصوصاً ایسے ملک میں جہاں یہ شرح ماضی میں منفی بھی رہی ہے۔ اسکی موجودگی میں مزید اس کو بڑھانے کا فیصلہ ناقابل فہم ہے، جبکہ معیشت پہلے سے بری طرح سست روی کا شکار ہے۔ مجموعی مانگ کو مزید کم کرنے کی خواہش اس کا گلا گھونٹ رہی ہے۔ اگر اس بات کو تسلیم بھی کرلیا جائے کہ بجٹ میں اٹھائے جانے والے ٹیکس اقدامات اور بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کیوجہ سے افراط زر پر منفی اثرات مرتب ہونگے تو یہ ایک دفعہ کا عمل ہوگا نہ کہ مستقل طور پر افراط زر کی شرح بڑھانے کا باعث۔
مزید براں ابھی تو یہ معلوم نہیں ہے کہ یہ اثرات کس حد تک مرتب ہونگے۔ کوئی بھی پیش گوئی ایک اندازہ ہوتا ہے۔ اس کو عمل کی بنیاد بنانا ایک حد تک درست تسلیم کیا جاسکتا ہے۔ لیکن جب اس میں اور موجودہ حقیقت میں ایک بڑا فاصلہ ہو تو اس کو عمل کی بنیاد بنانا دانشمندی کی بات نہیں ہے۔ لہذامرکزی بینک کا شرح مارک اپ میں ایک فیصد مزید اضافہ کرنا یہ کہہ کر کہ موجودہ افراط زر جو سات اعشاریہ تین فیصد ہے وہ نئے مالی سال میں تیرہ فیصد ہوجائیگااور اس خطرے سے آج ہی نمٹ لینا چاہیے ، بلا جواز ہے۔ اس میں تو صرف آئی ایم ایف سے کیا گیا وعدہ مکمل ہوتا نظر آرہا ہے جو مزید یہ سوال پیدا کرتا ہے کہ اس پروگرام کو طے کرنے میں شائد کچھ خامیاں رہ گئی ہیں۔خدا جانے یہ سلسلہ کہاں جاکر ٹہرے گا۔ اس فیصلے سے حکومت کے بجٹ پر بوجھ بڑھے گا کیونکہ سود کی ادائیگی میں دو سو ارب روپے تک کا اضافہ ہوسکتا ہے۔ اس سے اسٹاک مارکیٹ کے جذبات مزید مجروح ہوئے ہیں۔ سرمایہ کاری کا رجحان مزید کم ہوگا۔ جب لوگوں کوحکومت کو قرضہ دینے میں اتنی خطیر آمدنی ہوسکتی ہے تو وہ کاروباری خطرات مول لیکر کیوں اپنی زندگی کو الجھنوں میں ڈالیں گے۔ اس تناظر میں ہمیں معیشت مستحکم ہوتی نظر نہیں آرہی۔ لوگوں میں اعتماد پیدا نہیں ہورہا۔ اگر اس صورتحال پر جلد قابو نہ پایا گیا تو اس بات کا اندیشہ ہے کہ معاملات مزید بگاڑ کا شکار ہوجائیں۔

مزیدخبریں