مفاداتی سیاست

مکرمی! بہت افسوس اور دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ ہماری سیاست کا مرکزی نقطہ ذاتی مفادات ہی ہیں۔ ملک کا جتنا بھی نقصا ن ہوجائے اسکی انہیں پرواہ نہیں۔ ذاتی مفادات حاصل کرنے کے لئے نہ تو ضمیر کی خلش ہوتی ہے نہ کسی اصول پر عمل ہوتا ہے۔1971کا واقعہ لیں۔ بہت سے پاکستانی اب بھی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے ذمہ دار حکمران تھے۔ اگر وہ اقتدار کا لالچ نہ کرتے تو شاید ملک دو لخت ہونے سے بچ جاتا۔ اسی طرح2018کے الیکشن میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن ایک دوسرے کے سخت مخالف تھیں۔ ان دونوں پارٹیوں کی بد قسمتی کہ اقتدار عمران خان کو مل گیا جسے یہ دونوں برداشت نہیں کر سکتے۔لہٰذا دونوں پارٹیاں ایک ہو گئیں اور حکمران پارٹی کی حکمرانی عذاب بنا دی۔ کہاں گئے اصول اور جمہوری سیاست۔ داراصل ہمارے ملک کی بدقسمتی یہ ہے کہ سیاسی اشرافیہ جتنا دل چاہے لوٹ مار کر لیں۔ قانون کی دھجیاں اڑا لیں لیکن نہ ان سے کوئی لوٹا گیا پیسہ واپس لے سکتا ہے نہ انہیں کسی سزا کا خوف ہے۔ یہ لوگ ہر قسم کے احتساب سے مبرا ہیں۔ ان لوگوں کی کارکردگی اتنی گھٹیا ہے کہ دل خون کے آنسو روتا ہے ۔ بھارت اس وقت جو کچھ کشمیر میں یا بھارتی مسلمانوں کے خلاف کر رہا ہے ہم اسے روکنے کے لئے کچھ بھی نہیں کر سکتے نہ ہی کسی ملک سے سپورٹ لے سکتے ہیں۔ بھارت دو سالوں کے لئے سلامتی کونسل کا ممبر بھی بن چکا ہے۔ بھارت نے 193ووٹوںمیں سے 184ووٹ حاصل کیے۔ معلوم نہیں ہمارے سفیر حضرات کہاں تھے اور ان کی کارکردگی کہاں گئی ہے۔ سوچ کر ہی شرم آتی ہے۔ ملک کے اندر جو ہمارے سیاست دانوں کی کارکردگی ہے وہ کسی عذاب سے کم نہیں۔ کراچی کے کسی شخص نے حالات سے تنگ آکر سوشل میڈیا پر ٹھیک لکھا ہے۔ ’’آج اگر ہمارے حکمران انگریز ہوتے نہ تو صاف پانی کی کمی ہوتی اور نہ18-18گھنٹے بجلی کی لوڈ شیڈنگ ہوتی‘‘۔ (سکندر خان۔ لاہور)

ای پیپر دی نیشن