دہری شہریت ۔ آئین و قانون کی حکمرانی یا جنگل کا معاشرہ ؟

Jul 21, 2020

سعید آسی

اس بارے میں تو بعد میں بحث کرلیں گے کہ دہری شہریت کا حامل کوئی فرد پاکستان میں کیا کر سکتا ہے اور کیا نہیں کر سکتا اور آیا وہ مشیر اور معاون خصوصی جیسے اہم اور حساس منصب پر فائز ہو سکتا ہے یا نہیں۔ ہمیں پاکستان کی شہریت کے حوالے سے سب سے پہلے پاکستان سٹیزن شپ ایکٹ مجریہ 1951ء کو مدنظر رکھنا ہوگا جس کی دفعہ 14 ذیلی دفعہ ایک میں واضح طور پر تعین کر دیا گیا ہے کہ پاکستان کا کوئی شہری کسی دوسرے ملک کی شہریت حاصل کرتے ہی پاکستان کی شہریت سے محروم ہو جاتا ہے اور اگر کوئی پاکستان کی شہریت برقرار رکھنا چاہتا ہے تو اسے پاکستان مشن کی وساطت سے ڈائریکٹر جنرل امیگریشن و پاسپورٹ کو فارم ’’ایکس‘‘ پرباقاعدہ ڈیکلریشن دینا ہوگا کہ اس نے دوسرے متعلقہ ملک کی شہریت چھوڑ دی ہے۔ بصورت دیگر اسکی شہریت ختم تصور کی جائیگی۔ اسی طرح ہم نے آئین کی دفعہ پانچ‘ ذیلی دفعہ ایک کو بھی مدنظر رکھنا ہے جس کے تحت پاکستان کے ہر شہری کیلئے ریاست کا وفادار اور آئین و قانون کا تابع فرمان ہونا لازمی تقاضا گردانا گیا ہے۔
دہری شہریت کا معاملہ عدلیہ میں آج کا نہیں چل رہا‘ اس حوالے سے اعلیٰ عدلیہ (سپریم کورٹ‘ ہائیکورٹ) کے بے شمار فیصلے بطور نظیر موجود ہیں جن میں اپنی سہولت کیلئے کوئی تاویل نکالنا واضح حرام ٹھہرائی گئی کسی چیز کو حلال قرار دینے کے ہی مترادف ہوگا۔ آئین کے تحت ریاست کا ہر شہری ریاست کا وفادار اور آئین و قانون کا پابند ہے اور آئین و قانون کی حکمرانی انصاف کی عملداری سے قائم ہوتی ہے۔ پھر جو قدغنیں آئین و قانون اور عدالتی فیصلوں کے ذریعے دہری شہریت کے حوالے سے لگائی گئی ہیں‘ ملک کے وفادار شہری ہونے کے ناطے ہمیں انکی تعمیل اور پاسداری کرنی ہے۔ انہی دوٹوک اصولوں کی بنیاد پر ’’قائد تحریک انقلاب‘‘ علامہ طاہرالقادری اپنی کینیڈین شہریت کے باعث پاکستان کے انتخابات اور انتخابی عمل میں حصہ لینے سے محروم ہوئے اور سپریم کورٹ میں اپنی دہری شہریت کا دفاع کرنے میں ناکام ہو کر انہیں اپنے ملک کینیڈا واپس جانا پڑا کیونکہ وہ کینیڈین شہریت سے دستبردار ہونے پر آمادہ نہیں ہوئے تھے۔ اسی طرح موجودہ گورنر پنجاب چودھری محمد سرور کو پاکستان میں سیاست کرنے کیلئے اپنی برطانوی شہریت سے باضابطہ طور پر دستبردار ہونا پڑا جس کیلئے انہوں نے فارم ’’ایکس‘‘ پر ڈیکلریشن جمع کرایا۔ اس حوالے سے پوچھا جا سکتا ہے کہ دہری شہریت کے حامل موجودہ حکومتی مشیروں اور معاونین خصوصی میں سے کتنوں نے پاکستان کی سیاست میں حصہ لینے سے پہلے باضابطہ طور پر فارم ’’ایکس‘‘ پر ڈیکلریشن جمع کرایا ہے۔
پاکستان کے شہریت ایکٹ اور اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں میں دہری شہریت کو معیوب کیوں گردانا گیا ہے۔ بھئی! سیدھا سیدھا اصول ہے۔ ملک کے ایک شہری کیلئے ملک سے وفاداری بنیادی آئینی تقاضا ہے۔ اگر وہ بیک وقت کسی دوسرے ملک کا شہری بن کر اس سے وفاداری کا بھی حلف اٹھا لیتا ہے تو وہ دہری شہریت کے ساتھ وفاداری کا تقاضا کس ملک کے ساتھ نبھائے گا۔ اگر پاکستان کا شہری ہونے کے ناطے اسے اس ملک کیخلاف بندوق اٹھانا پڑے جس کی اس نے بعد میں شہریت حاصل کی ہے تو کیا وہ آئین و قانون کی اس تابع فرمانی کو قبول کریگا؟
یہی سوال سپریم کورٹ نے ڈاکٹر طاہرالقادری کے کیس میں اٹھایا تھا کیونکہ آئین کی دفعہ 63 ذیلی دفعہ ایک‘ سی کے تحت دہری شہریت کے حامل کسی شخص کو پارلیمنٹ کا انتخاب لڑنے سے اس تصور کے تحت ہی نااہل قرار دیا گیا ہے کہ وہ رکن منتخب ہو کر اہم مناصب پر فائز ہو سکتا ہے جو ملکی سلامتی اور قومی مفادات کے حوالے سے حساس ہوسکتے ہیں۔ اس لئے دہری شہریت کے ساتھ وہ اس منصب کا ریاست کے وفادار شہری ہونے کے ناطے کیسے تقاضا نبھا سکتا ہے۔ پھر سپریم کورٹ نے پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کی اہلیہ فرح ناز اصفہانی‘ فیصل وائوڈا اور زلفی بخاری کی دہری شہریت کے معاملہ کا اپنے ازخود اختیارات کے تحت نوٹس لیا جس کی اس وقت کے چیف جسٹس سپریم کورٹ مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار‘ مسٹر جسٹس عمر عطاء بندیال اور مسٹر جسٹس اعجازالحسن پر مشتمل عدالت عظمیٰ کے خصوصی بنچ کے روبرو سماعت ہوئی اور فاضل عدالت نے 14؍ دسمبر 2018ء کو باون صفحات پر مشتمل اپنے فیصلہ میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ہدایت کی کہ ملک کی سول سروسز میں جو بھی دہری شہریت رکھتے ہیں انکی فہرستیں مرتب کی جائیں اور ایک میعاد مقرر کرکے انہیں پابند کیا جائے کہ اس عرصہ کے دوران وہ یا تو اپنی دہری شہریت ترک کردیں یا ملازمت چھوڑ دیں۔ اگر وہ مقررہ میعاد کے اندر ایسا نہیں کرتے تو پھر ان کیخلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے۔ اس معاملہ میں فاضل عدالت عظمیٰ نے حکومت کو پارلیمنٹ کے ذریعے باقاعدہ قانون سازی کی بھی ہدایت کی‘ فاضل عدالت کا یہ فیصلہ صادر ہوئے بھی ڈیڑھ سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے مگر میرے ذہن کے کسی کونے میں اس عرصے کے دوران کیا گیا حکومت کا کوئی ایسا فیصلہ محفوظ نہیں جس کے تحت سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق پارلیمنٹ میں اس حوالے سے کوئی قانون سازی کی گئی ہو۔
کیا اس سے یہ پیغام دینا مقصود ہوتا ہے کہ عدل گستری کے کسی سربراہ کے اپنے منصب سے رخصت ہوجانے کے بعد انکے صادر کردہ فیصلے بھی رخصت ہو جاتے ہیں۔ مجھے یہ ساری تمہید باندھنے کی ضرورت وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کی جانب سے پیش کی گئی اس ’’منطق‘‘ کی بنیاد پر محسوس ہوئی کہ دہری شہریت کا قانون منتخب ارکان پارلیمنٹ پر لاگو ہوتا ہے‘ غیرمنتخب مشیروں اور معاونین خصوصی پر نہیں۔ انکی اس منطق کا آئین و قانون اور عدالتی فیصلوں کی روشنی میں جواب دینا بھی شاید بھینس کے آگے بین بجانے کے مترادف ہوگا کہ بیرسٹر ہو کر وہ ’’دوسو کیس‘‘ کے مقابلے میں ’’پنج سو کیس‘‘ پیش کررہے ہیں۔ ارے بندۂ خدا! اول تو پاکستان شہریت ایکٹ کی دفعہ 14۔الف کے تحت دوسرے ملک کی شہریت حاصل کرنیوالا کوئی شخص پاکستان کا شہری ہی نہیں رہتا تو پھر پارلیمنٹ کی رکنیت ہو یا غیرمنتخب مشاورتی منصب‘ وہ پاکستان میں کسی بھی منصب پر فائز ہونے کا اہل نہیں رہتا۔ سپریم کورٹ نے اپنے دسمبر 2018ء کے فیصلہ میں کسی بھی پبلک آفس کیلئے دہری شہریت کے حامل افراد کو نااہل قرار دیا ہے اور اس میں بطور خاص عدلیہ کے ارکان کو بھی شامل کیا ہے۔ پھر آپ ہاتھ گھما کر کسی چھومنتر کے ذریعے دہری شہریت کے حامل کسی فرد کو مشیر اور معاون خصوصی بنانے کی گنجائش کیسے نکال سکتے ہیں۔ اگر سیاست بازی میں آپ اپنے مخالفین پر آئین و قانون کی حکمرانی اور انصاف کی عملداری لاگو ہوتی دیکھنا چاہتے ہیں اور اس بنیاد پر انکی تاحیات نااہلی بھی ہو جاتی ہے تو پھر آئین و قانون کے ہوتے ہوئے اور انصاف کی عملداری میںدہری شہریت آپ کیلئے شیرینی کیسے بن سکتی ہے؟ ریاست کے معاملات بہرصورت آئین اور قانون کے مطابق ہی چلتے ہیں اور ریاست کے ہر شہری کو اپنے حقوق و ذمہ داریوں کے معاملہ میں آئین و قانون کا پابند ہونا ہوتا ہے۔ آئین و قانون کی حکمرانی اور انصاف کی عملداری ہی میرا ہمیشہ کا تجسس رہا ہے جس پر کچھ ’’فیڈڈ‘‘ حلقے ناک بھوں بھی چڑھاتے ہیں اور آئین کی بھد بھی اڑاتے ہیں مگر ہم نے بہرصورت آئین کے تابع رہنا ہے ورنہ ہم ریاست مدینہ کا خواب تو کیا شرمندۂ تعبیر ہوتے دیکھیں گے‘ جنگل کا معاشرہ ہم پر ضرور غالب آجائیگا۔
٭…٭…٭

مزیدخبریں