ایک مثال بابری مسجد کے حوالے سے دی جارہی ہے۔ اس دلیل بے بنیاد کا منہ توڑ جواب اوریا مقبول جان نے دیا ہے۔ ڈائریکٹر جنرل آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ 2007 میں بھارت میں ڈی جی آرکیالوجی سے ملے۔ بابری مسجد کی تعمیر سے قبل وہاں مندر یا کسی اور عبادت گاہ یا عمارت کی موجودگی کی حقیقت جاننے کے لئے45 لوگوں نے مل کر رپورٹ بنائی۔ ان میں تین مسلمان اور 42 ہندو تھے۔ یہ رپورٹ اس مقام کی کھدائی کے بعد مرتب کی گئی تھی۔ سب نے متفقہ طورپر رپورٹ میں تصدیق کی کہ اس جگہ کوئی مندر نہیں تھا۔ یہ خالی زمین تھی جس پر بابر نے مسجد تعمیر کی۔ لیکن بابری مسجد بارے بھارتی سپریم کورٹ کے مجہول فیصلے کا احترام کرنے کا واویلا کرنے والے ’’عالمی‘‘ گماشتے ترکی کی اعلیٰ عدلیہ کا احترام کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ ایک اور ماہر ترک امور پیدا ہوگیا ہے جسے ارتغل اور اس کے گھوڑے پسند نہیں ہیں کہ گھوڑے جہاد کی علامت ہیں ۔
سمندر کنارے آباد اس خوبصورت شہر کا نام سلطان محمد فاتح کے نام پر ’’فاتح‘‘ ہے جہاں آیا صوفیہ سربلند ہے۔ یہاں اب آرمینیائی مسیحیوں کی تعداد 0.2 فیصد ہے۔ عالمی معاہدوں کی بات کرنے والے حضرت عمر فاروقؓ کے بیت المقدس کی فتح کا حوالہ بھی پیش کررہے ہیں۔ مسیحی بادشاہ سے معاہدہ کے تحت یہ شہر حوالے ہوا تھا۔ معاہدہ کی پہلی شق تھی کہ آپ کی عبادت گاہیں آپ کے پاس رہیں گی۔ لیکن دوسری شق کو سب نے بھلا دیا۔ مسیحی بادشاہ کے معاہدے کی دوسری شق یہ تھی کہ یہودیوں کو اس شہر میں آباد نہیں ہونے دیاجائے گا۔ مسیحیوں اور مسلمانوں میں ہونے والے اس معاہدے کی شق دو کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہوئے صیہونی ریاست قائم کردی گئی۔ اس پر زبانوں کو تالے کیوں لگے ہوئے ہیں؟؟
73 فیصد ترک آبادی نے آیا صوفیہ کو مسجد میں تبدیل کرنے کے فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے۔ یہ معقول اور مقبول مطالبہ تھا جس کے حق میں مظاہرے ہوئے۔ طیب اردگان ریلی سے خطاب کررہے تھے کہ لوگوں نے نعروں کی صورت میں یہ مطالبہ بلند کیا کہ ’’ہمیں آیا صوفیہ میں نماز پڑھنے کی اجازت دی جائے۔‘‘ صدر اردگان نے عوام سے کہاکہ نیلی مسجد کو نمازیوں سے بھردو، میں آیا صوفیہ مسجد بنادوں گا۔ اردگان نے کمال اتا ترک کے سیکولر ازم کو اٹھا کر سمندر میں پھینک دیا۔ عوام سے کہا کہ نماز قائم کرو۔ ہمارے دیسی ‘‘لبریٹو ‘‘ اصل تکلیف یہ ہے ان کی نام نہاد روشن خیالی کا جنازہ نکل رہا ہے۔
نیوزی لینڈ میں جنونی دشت گرد نے مسجد پر حملہ کیا۔ گولیاں برسائیں۔ مسلمانوں کو شہید کیا۔ اس کے ایجنڈے میں کیا لکھاتھا؟؟ اس کے منشور میں لکھا تھا کہ ’’ہم قسطنطنیہ فتح کریں گے، مساجد گرادیں گے، آیا صوفیہ کو چرچ میں بدل دیں گے۔‘‘ پاکستان میں اسلام کے خلاف ذہن سازی کرنے والے لبرلز ان دنوں اور بھی زیادہ اذیت میں ہیں۔ اذیت ان کے دماغ اور دل کے فتور کی وجہ سے ہے۔ آیا صوفیہ کے معاملے پر بھی ان کی جدیدیت اور ترقی پسندی بے لباس ہوگئی ہے۔ ترکی کے ترقی پسندوں کو تکلیف نہیں ہوئی، لیکن یہاں سوگ برپا ہے۔
منفرد اسلوب نگار برادرم فاروق عادل نے آیاصوفیہ میں اپنی پہلی حاضری کا احوال کچھ یوں بیان کیا ہے کہ نور کے موتیوں کی لڑی بن گئی ہے ۔بتاتے ہیں کہ آیا صوفیہ کے مرکزی دروازے کی تعمیر میں وہی لکڑی استعمال کی گئی ہے جس سے حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی کشتی تیار کی تھی۔معبد کے عین وسط میں جہاں عقیدت کے آنسوئوں سے بھیگی ہوئی بیبیاں اشک مریم ؑ سے دامن مراد بھرنے کی کوشش میں بے چین ہوئی جاتی ہیں۔
روایت ہے کہ کسی اذیت اورتکلیف کی وجہ سے حضرت مریم ؑ کے آنسو بے اختیار بہہ کر اس مقام پر گرے جس کی نمی آج تک محسوس کی جاتی ہے۔ جس خوش نصیب کی انگلیاں اس آب ِپاکیزہ سے نم ہو جائیں، اس کی گودہری ہو جاتی ہے، بیماریوں سے نجات مل جاتی ہے اور دل میں انگڑائیاں لیتی ہوئی آرزوئیں پوری ہوجاتی ہیں۔ جانے یہ نمی کہاں سے آتی ہے جو دُکھے ہوئے دلوں پر اطمینا ن کی بارش برسا دیتی ہے؟ آیا صوفیہ کی جناب رسالت مآب (صلعم)سے منسوب روایت کا ذکر ‘مؤرخ ہنری میتھیوز نے اپنی کتاب’’ Hega Sophia‘‘
میں کیا ہے کہ آیا صوفیہ کا ایک گنبد پراسرار طور پر منہدم ہو گیا تھا ، صدیوں جس کی تعمیر ممکن نہ ہو سکی،
یہ مسئلہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیاگیا جس پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسم نے اپنا لعاب دہن خاکِ مکہ میں ملا کر کئی اونٹوں پر لدوا کر بھجوائی اور ہدایت فرمائی کہ اگر ان کے بتائے ہوئے طریقے پر عمل کیا گیا تو گرے ہوئے گنبد کی تعمیر ممکن ہو جائے گی۔ کیا کیا مقدس روایات کی امین ہے آیاصوفیہ ؟؟
پاکستانی قوم اردگان کو مبارک پیش کر رہی ہے کہ’’باعزت حکمراں طیب اردگان جیسے ہوتے ہیں جو اپنی اسلامی روایات اور اقدار پر کوئی بیرونی دبائو قبول نہیں کرتے۔‘‘ بڑے بڑے رہنمائوں نے خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ خوف کا یہ عالم ہے۔ ارطغرل ڈرامے دیکھنے اور چلانے سے نہیں، تبدیلی رجب طیب اردگان بننے سے آتی ہے۔ ارطغرل جذبہ ابھارتا ہے، اسلام کی عظمت رفتہ کا پرشکوہ دور یاد دلاتا ہے لیکن اس جذبے کو سنبھالنے اور منزل تک پہنچانے کے لئے اردگان کا دل اور سوچ درکار ہے، وہ عمل مطلوب ہے۔ آیا صوفیا بیت المقدس کی یاد دلاتی ہے۔ یہ بھی انسانیت کا مشترکہ ورثہ ہے‘‘ اور وہاں مدتوں بعد اللہ کی کبریائی کی صدائیں بلند ہوں گی اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر۔ (ختم شد)