معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے کہا ہے کہ وزیر اعظم عمران خاں اس موقف پر قائم ہیں کہ اسمبلی میں دہری شہریت والے نہ ہوں۔ معاون خصوصی صرف مشورے دیتا ہے۔ غیر منتخب ارکان کابینہ کے اجلاس میں نہیں بیٹھ سکتے ، صرف مدعو کئے جانے پر ہی کابینہ کے اجلاس میں شرکت کر سکتے ہیں۔ گزشتہ روز ایک نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم ٹیکنیکل لوگوں کو رکھ سکتے ہیں۔ ان کے بقول دہری شہریت نہ رکھنے کی شرط رکن پارلیمنٹ کے لئے ہے اور الیکٹرول ریفارمز کمیٹی میں اس پر بحث ہو چکی ہے۔
گزشتہ روز حکومت کے غیر منتخب مشیروں اور معاونین خصوصی کے اثاثوں اور ان کی دہری شہریت کا معاملہ منظرعام پر آیا تو اپوزیشن کی جانب سے وزیر اعظم سے دہری شہریت کے حامل مشیروں اور معاونین کو ان کے مناصب سے فارغ کرنے کا تقاضہ کیا گیا جس کے لئے وہ آئین و قانون کی متعلقہ دفعات کی بنیاد پر اور سپریم کورٹ کے دسمبر 2018ء کے فیصلہ کی روسے تقاضہ کرنے میں حق بجانب بھی ہیں۔ اس فیصلہ کے تحت عدالت عظمیٰ نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ہدایت کی تھی کہ وہ سول سروسز میں دہری شہریت کے حامل کسی بھی تشخص کو تعینات نہ رکھیں اور باقاعدہ قانون سازی کر کے ایک میعاد مقرر کریں جس کے اندر اندر دہری شہریت والے سرکاری ملازمین یا تو اپنی دہری شہریت ترک کر دیں یا ملازمت چھوڑ دیں۔ اس تناظر میں مشیر اور معاون خصوصی کا منصب بھی سپریم کورٹ کی ’’پبلک آفس‘‘ کے حوالے سے کی گئی تشریح کے زمرے میں آتا ہے جبکہ شہریت ایکٹ کی دفعہ 14 ، الف کے تحت دہری شہریت حاصل کرنے والے کسی شخص کی پاکستان کی شہریت ازخودختم ہو جاتی ہے۔ اس تناظر میں دہری شہریت کا حامل کوئی شخص پاکستان کے کسی بھی معاملہ میں شامل نہیں ہو سکتا۔ وزیراعظم عمران خاں خود بھی اس امر کے متقاضی رہے ہیں کہ دہری شہریت رکھنے والے کسی شخص کو پاکستان کے کسی منصب پر فائز ہونے کا کوئی حق حاصل نہیں۔ اس لئے بجائے اس کے کہ بیکار بحث میں اس معاملہ کو اُلجھانے کی کوشش کی جائے ، سپریم کورٹ کی ہدایات کی روشنی میں اور مروجہ آئین و قانون کے متعین کردہ پیرا میٹرز کی بنیاد پر دہری شہریت کے حامل مشیروں اور معاونین خصوصی کے بارے میں ٹھوس فیصلہ کر لیا جائے۔ اس سے ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی اور انصاف کی عملداری کا تصور ہی پختہ ہو گا۔
شہزاد اکبر کا دہری شہریت والے مشیروں اور معاونین خصوصی کا دفاع
Jul 21, 2020