اسلام آباد(وقائع نگار )اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل ڈویژن بینچ نے شوگر انکوائری کمیشن کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پردرخواست گزار وکیل مخدوم علی خان کے دلائل جاری، عدالت نے سماعت آج تک کیلئے ملتوی کردی۔گذشتہ روزسماعت کے دوران شوگر ملز ایسوسی ایشن کی جانب سے وکیل مخدوم علی خان جبکہ وفاق کی جانب سے اٹارنی جنرل آف پاکستان خالد جاوید خان اور ایڈیشنل اٹارنی قجنرل طارق کھوکھر عدالت میں پیش ہوئے، شوگر ملز ایسوسی ایشن کے وکیل مخدوم علی خان کے دلائل جاری رکھتے ہوئے اور سپریم کورٹ فیصلوں کے مختلف حوالے دیتے ہوئے کہاکہ انکوائری کمیشن کے لیے دوسرا نوٹیفکیشن 25 مارچ کو جاری کیا،نوٹیفکیشن جاری کئے مگر گزٹ آف پاکستان میں پبلش نہیں ہوئے،سنگل بنچ میں دوران سماعت دوسرا نوٹیفکیشن پبلش کیا گیا،سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق گزٹ بک میں شائع نہ ہونے سے پہلے نوٹیفکیشن کی قانونی حیثیت نہیں،پہلا نوٹیفکیشن 16 مارچ کو 6 ممبران کے لیے شائع کیا گیا،25 مارچ کو دوسرا نوٹیفکیشن 7 ممبران کے لیے جاری کیا گیا، گزٹ بک میں شائع ہونے سے پہلے کمیشن کی قانونی حیثیت نہیں تھی،1 ممبر پورے 9 دنوں کے لیے کمیشن سے غائب تھا، جس پر جسٹس عامرفاروق نے کہاکہ یہ کیس کسی ممبر کے حاضر یا غیر حاضر ہونے کا نہیں،مخدوم علی خان نے کہاکہ سپریم کورٹ کے احکامات کے بعد سمری تیار کرکے پبلیکیشن کے لیے گئی، سپریم کورٹ کے وضع کردہ قانون کیمطابق اس کمیشن کی حیثیت ہی نہیں تھی ،سنگل بنچ کو بتایا تھا کہ 16 مارچ والے نوٹیفکیشن میں کمیشن کے 6 ممبران تھے،جب کمیشن کی رپورٹ آئی تو اس پر سات ممبران کے دستخط تھے ،ایک رکنی بنچ نے ہمارا اعتراض اس بنیاد پر مسترد کیا کہ کمیشن خالی نشست پر کبھی بھی نیا رکن رکھ سکتا ہے،یہ خالی نشست کا کیس نہیں تھا ، یہاں ایک نیا رکن ساتویں ممبر کے طور پر شامل کیا گیا، انکوائری کمیشن کی تشکیل ہونے کے بعد حکومت خود اس میں تبدیلی نہیں کر سکتی، انکوائری کمیشن کے پاس تقریبا تمام جوڈیشل اختیارات موجود تھے،جوڈیشل کمیشن میں حکومت خود ترمیم نہیں کر سکتے تو انکوائری کمیشن میں بھی نہیں، کمیشن کے پاس کسی کو طلب کرنے، کہیں بھی تلاشی لینے کے اختیارات تھے ،کمیشن کے پاس کسی کے خلاف توہین کی کارروائی کرنے کا اختیار بھی موجود ہوتا ہے، انکوائری کمیشن کے پاس اختیارات جوڈیشل ہوں تو اس پر اصول بھی وہی لاگو ہوں گے، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہاکہ وہ سمری پبلیکیشن کے لیے کب گئی، جس پر درخواست گزار وکیل نے کہاکہ میرے ذرائع کے مطابق وہ سمری 2 جولائی کو پرنٹنگ پریس گئی تھی،ہم نے پبلیکیشن کی کاپی کے لیے پرنٹنگ پریس آف پاکستان کو درخواست دی تھی،ہمیں پرنٹنگ پریس آف پاکستان کی جانب سے نوٹیفکیشن کی کاپی دینے سے انکار کیا گیا،وفاقی حکومت سپریم کورٹ کے فیصلوں سے لاعلم ہیں،نوٹیفکیشن کے بغیر کمیشن ممبران کیسے کام کرسکتے ہیں؟حکومت نے فیصلہ کیا کہ انکوائری کمیشن بنایا جائے،حکومت نے شوگر انکوائری کے لئے کمیشن بنائی،جسٹس عامرفاروق نے استفسار کیاکہ کیا آپ کہنا چاہتے ہیں کہ حکومت کمیشن دوبارہ بنائے؟جس پر مخدوم علی خان ایڈووکیٹ نے کہاکہ حکومت دوبارہ کمیشن بنائے اور انکوائری کریں،جسٹس عامرفاروق نے کہاکہ کمیشن اٹانومس باڈی ہوگی، اور ان کے پاس انکوائری کے اختیارات ہونگے؟ درخواست گزار وکیل نے کہاکہ جی بالکل کمشین اٹانومس ہونا چاہیے،سیکشن 10 کے تحت حکومت کے پاس اختیار ہے کہ وہ ایڈیشنل اختیارات دے،شوگر ملز کے بارے میں بہت ساری باتیں کی گئی، کچھ مخصوص کمپنیوں کے حوالے سے انکوائری کی گئی، جسٹس عامرفاروق نے کہاکہ اگر کسی کے خلاف زاتی طور پر فائنڈنگ آجاتی ہے تو وہ اس سے متاثر ہوسکتے ہیں؟ مخدوم علی خان ایڈووکیٹ نے کہاکہ سپریم کورٹ کا کرکٹر سلیم ملک کیس میں واضح احکامات ہیں، انکوائری کمیشن رپورٹ سے ریپوٹیشن خراب ہوگئی،جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہاکہ آپ جس انڈین کورٹس کے فیصلوں کا حوالہ دے رہے ہیں، اس میں حکومت کو کسی انکوائری سے منع نہیں کیا گیا، قجس پر درخواست گزار وکیل نے کہاکہ کیا ہم اس قسم کے کمیشن رپورٹ کو چیلنج کرسکتے ہیں؟پبلک انٹرسٹ کے خلاف ہر قسم کی انکوائری یا ایگزیکٹو معاملات کو چیلنج کیا جاسکتا ہے،کمیٹی نے 9 مارچ کو خط لکھا اور 16 مارچ کو نوٹیفکیشن اگیا،کمیٹی نے 4 اپریل کو رپورٹ جاری کیا، کمیٹی رپورٹ میں کہا گیا کہ کچھ شوگر ملز نے شوگر بحران کے زمہ دار ہیں،کہا گیا کہ شوگر ملز قیمتوں میں اضافے کے زمہ دار ہیں،کہا گیا کہ رمضان میں سٹہ ڈیلرز نے غیر قانونی طور پر سٹہ کے زریعے قیمتوں میں اضافہ کیا،جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہاکہ یہ تو سب جنرالائزیشن ہے، جس پر درخواست گزار وکیل نے کہاکہ شوگر ملز مالکان کو سٹہ باز، مافیاز کہا گیا،شوگر انکوائری کے لئے وفاقی حکومت نے کمیشن بنایا،رپورٹ میں کہا گیا کہ کمیشن نے حکومتی احکامات کے بعد چینی بحران پر کام شروع کیا،انکوائری کمیشن رپورٹ سے شوگر ملز پر سنگین الزامات لگائے گئے،پہلے وزیراعظم کی بنائی گئی ایڈہاک کمیٹی نے اپنی رائے دی اور کمیشن بنانے کی سفارش کی،رپورٹ میں کہہ دیا گیا سٹے کے ذریعے غیر قانونی طور پر قیمتیں بڑھائی جا رہی ہیں،جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہاکہ یہ تو ایک مجموعی بات کی گئی تھی اس میں کسی کا نام نہیں لیا گیا،ایک مجموعی بات لکھنے سے کسی کی شہرت کو کیسے نقصان ہو سکتا ہے؟درخواست گزار وکیل نے کہاکہ پوری شوگر انڈسٹری پر یہ الزام لگایا تھا ، ایڈہاک کمیٹی نے کئی معاملات پر اپنی رائے دیکر کہا کہ اس پر کمیشن بنائیں،انکوائری کمیشن نے ایڈہاک کمیٹی کی قائم کردہ رائے پر متعصبانہ کارروائی کی، شوگر انکوائری کمیشن نے جانبدارانہ رپورٹ تیار کرلی، جسٹس عامرفاروق نے کہاکہ آپ کہہ رہے ہیں کہ کمیشن غیر آئینی ہے؟ جس پر وکیل درخواست گزار نے کہاکہ کمشین نے جو بھی کام کیا سارا غیر قانونی کام ہے،کمیشن ممبران کا نوٹیفکیشن 25 مارچ کو جاری ہوا جبکہ کام پہلے کیا گیا، کمیشن کے 7 ممبران کا نوٹیفکیشن 25 مارچ کو ہوا،ملک بھر میں کل 82 شوگر ملز ہیں، مگر سب کو نوٹسسز جاری نہیں ہوئے،جسٹس عامرفاروق نے استفسار کیاکہ کمیشن نے کتنے شوگر ملز کو نوٹس کیا ؟ مخدوم علی خان ایڈووکیٹ نے کہاکہ کمیشن نے کل 10 شوگر ملز کو نوٹس کیا،جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہاکہ انکوائری رپورٹ کسی ادارے پر بائنڈنگ تو نہیں کہ وہ اسی پر کارروائی کرے،سنگل بنچ نے بھی اپنے فیصلے میں اس بات کی نشاندہی کی ہے،نیب اور دیگر ادارے تو خود بھی کسی معاملے پر انکوائری کے مجاز ہیں ،کل کوئی ادارہ خود چینی اسکینڈل پر تحقیقات شروع کر دے تو آپ کس کو الزام دیں گے، اس رپورٹ کو ختم بھی کر دیا جائے تو اداروں کا کارروائی کا اختیار تو ختم نہیں ہو گا، جس پر درخواست گزار وکیل نے کہاکہ جب کابینہ یہ رپورٹ اداروں کو بھیجے گی تو وہ اداروں پر اثر انداز ہو گی،ہمارا بنیادی اعتراض یہ ہے کہ یہ رپورٹ ہماری شہرت کو خراب کر رہی ہے،جسٹس عامرفاروق نے استفسار کیاکہ کیا چینی انکوائری کمشین نے ایسوسی ایشن کو بلایا تھا؟ جس پر وکیل نے کہاکہ جی کمیشن نے شوگر ملز ایسوسی ایشن کو بھی نوٹس کرکے بلایا تھا،انکوائری کمیشن نے رپورٹ میں کچھ شوگر ملز کے خلاف صرف الزامات لگائے،جسٹس عامرفاروق نے کہاکہ کمیشن نے کہا ہے کہ ٹیکس آڈٹ کریں، اور ٹیکس آڈٹ غلط تو نہیں ہے، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہاکہ یہ رپورٹ کسی کے غلط اقدامات کا کوئی ثبوت تو نہیں ہے،وکیل شوگر ملز نیکہاکہ اس کمیشن رپورٹ سے شوگر ملز کی رپوٹیشن خراب ہوئی،اس رپورٹ کو جب کابینہ میں جمع کیا تو کابینہ نے اس پر عملدرآمد کا کہا،ہم انکم ٹیکس، سیلز ٹیکس اور ایس ای سی سی پی کے ساتھ ہیں اور سیکورٹی کی زمہ داری انکی ہے، ہم نے کمیشن ممبران پر اعتراض نہیں کیا مگر ہمیں طریقہ کار پر اعتراض ہے،کمشین رپورٹ میں کس قسم کی زبان استعمال کی گئی، جسٹس عامرفاروق نے استفسارکیاکہ اٹارنی جنرل صاحب کیا آپ کل ہونگے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہاکہ کل لارجر بینچ کیس ہے اور میں اسی میں مصروف ہونگا،مخدوم علی خان ایڈووکیٹ نے کہاکہ میں اپنے دلائل کو کل مکمل کرونگا،عدالت کا وکیل شوگر ملز مالکان سلمان اکرم راجہ کو بھی کل ہی دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کی اور اٹارنی جنرل سے کہاکی جمعے کو آپ اپنے دلائل مکمل دے، عدالت نے کیس کی سماعت آج تک ملتوی کردی۔