اسلام آ باد (نوائے وقت رپورٹ) سی پیک کی ترقی میں اب تک قابل ذکر کامیابی ملی جو دونوں ممالک کے مابین بڑھتی ہوئی معاشی و اقتصادی شراکت داری کی عکاسی کرتی ہے۔ پیرکو چائنہ اکنامک نیٹ نے خصوصی مبصر چنگ شی چونگ کے حوالے سے رپورٹ میں بتایا کہ اس کارنامے کو بنیادی طور پر تین پہلوؤں میں ظاہر کیا گیا ہے۔ پہلا ، چین اور پاکستان کی حکومتیں اور کاروباری ادارے اس پیشرفت سے بہت مطمئن ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ماضی میں راہداری کی تعمیر پر پاکستان میں طرح طرح کی آوازیں اٹھیں لیکن اب وفاقی حکومت سے لے کر لوکل گورنمنٹ تک اور سیاسی جماعتوں سے لیکر عوام تک ایک ہی صفحے پر ہیں۔ تیسرا راہداری منصوبوں کی تعمیر تیزی سے جاری ہے۔ تعمیر کا دوسرا مرحلہ شروع ہوچکا ہے۔ سی پیک اور خصوصی معاشی زون کی تعمیر پاکستان کی صنعت کاری کے لئے ایک عمل انگیز ہے۔ جو چین کی مینوفیکچرنگ انڈسٹری کی پاکستان منتقلی اور پاکستان کی ترقی کو تیز رفتار ی سے فروغ دے رہا ہے۔ پاکستانی حکومت نے حال ہی میں سی پیک فریم ورک کے تحت 1726 کلومیٹر لمبی ایم ایل ون ٹرنک ریلوے کے اپ گریڈ اور تعمیر نو کی منظوری دی ہے۔ 7.2 بلین ڈالر کا یہ منصو بہ پاکستان کی قومی آمد و رفت اور معاشی ترقی کیلئے ایک تزویراتی اہمیت کا حامل ہے۔ اس منصوبے کے مکمل ہونے کے بعد نیا ریلوے نظام سامان اور مسافروں کی آمدورفت میں اہم کردار ادا کرے گا۔ ہائی وے سے نقل و حمل نہ صرف بہت زیادہ مہنگی ہے بلکہ وقت بھی زیادہ لگتا ہے لیکن ریلوے کے ذریعے سماجی اور معاشی ترقی کو مزید موثر طریقے سے فروغ ملے گا اور معاشی سرگرمیاں ، خاص طور پر دور دراز علاقوں میں زرعی معاشی ترقی تیز ہو گی۔ اس وقت ، بڑے شہروں میںزرعی مصنوعات کی رسائی کے لئے ذرائعمحدود ہیں اور مناسب قیمتیں نہیں لی جاسکتی ہیں۔ ریلوے نظام کو اپ گریڈ کرنے سے کاشتکاروں کو زرعی مصنوعات سے بہتر معاشی فوائد حاصل ہوں گے۔گوادر پورٹ کی تعمیر میں نئی پیشرفت ہوئی ہے۔ حال ہی میں ایک جہاز 400 16 ٹن کھاد لے کر گوادر پورٹ پہنچا۔پاک افغانستان ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے کے مطابق یہ کھاد افغانستان نے آسٹریلیا سے خریدی تھی اور گوادر پورٹ پر اتاری اور سڑک کے ذریعے افغانستان منتقل کی گئی۔یہ پہلا موقع ہے جب افغان حکومت نے گوادر پورٹ کو اہم مواد درآمد کرنے کے لئے استعمال کیا ہے۔ سی پیک کی تکمیل کے بعد گوادر پورٹ نہ صرف صوبہ بلوچستان بلکہ پورے پاکستان کی معاشی ترقی کو فروغ د ے گی ، بلکہ افغانستان ، ازبکستان ، تاجکستان اور وسطی ایشیائ کے وہ ملک جن کے زمینی راستے نہیں ہیں کے لئے قریب ترین سمندری بندرگاہ بھی بن جائے کی ، ان ممالک کو سری لنکا ، بنگلہ دیش ، عمان ، متحدہ عرب امارات ، ایران اور عراق اور یہاں تک کہ چین کے سنکیانگ اور دیگر مغربی صوبوں کے ساتھ جوڑ ا جا سکے گا۔