گزشتہ دنوں سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی کی وزیراعظم پاکستان عمران خان کے ساتھ ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات میں گزشتہ روز حلف اٹھانے والے وفاقی وزیر چودھری مونس الٰہی اور وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ بھی تھے۔ وزیراعظم نے بھی اپنی جماعت کے تین وزراء شاہ محمود قریشی، اسد عمر اور شفقت محمود کو ان تینوں کے سامنے بٹھا کر خود اپنے کرکٹ کے محبوب خیال اور پھر اسکے حاصل یعنی نیوٹرل امپائر کی پوزیشن سنبھال لی۔ آگے خبر میں وزیراعظم کی طرف سے پنجاب اسمبلی کی عمارت بنانے، بجٹ سیشن کو پرامن رکھنے اور پنجاب کے متعلق گفتگو سبھی چینلوں اور اخبارات کا مرکزی نقطہ تھا جس میں کوئی انہونی بات نہ تھی۔
مانا کہ چودھری پرویز الٰہی نے عمران حکومت کا اتحادی ہونے کے ناطے وزیراعظم سے بہت ہی کم ملاقاتیں کی ہیں اور وہ بھی زیادہ تر تحفظات کے اظہار تک ہی محدود رہیں۔ بطور سپیکر انکی یا کسی بھی اسمبلی کے سپیکر (سوائے قومی اسمبلی) کی وزیراعظم سے شاید کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔ حالانکہ چودھری پرویز الٰہی نے بطور سپیکر پنجاب اسمبلی ایسے ایسے کام کر دکھائے کہ ایک ایک پر انہیں مبارک باد دی جانی چاہیے۔ جن دنوں سینٹ کی دو نشستوں میں فرزند جاوید اقبال اور وزیراعظم کے سابقہ جگری یار جہانگیر ترین کی ہمشیرہ اُمیدوار تھیں اگر چودھری پرویز الٰہی اپنی سیاسی بصیرت، تدبر اور معاملہ فہمی کو بروئے کار نہ لاتے تو یہ دونوں نشستیں حکمران تحریک انصاف کبھی نہ جیت سکتی مگر وزیراعظم نے اس کا کریڈٹ اپنے اتحادی جماعت کے سپیکر کو دینے میں بڑی تھڑدلی کا مظاہرہ کیا۔ سینٹ کے بڑے معرکہ میں جب ساری اسمبلیوں میں ہارس ٹریڈنگ زور پر تھی، بولیاں لگ رہی تھیں۔ ووٹروں کی خرید و فروخت ہو رہی تھی سیاسی مخالفت میں ہر اخلاقی قدر نظرانداز کی جا رہی تھی۔ چودھری پرویز الٰہی نے اپنی اسمبلی کے ارکان کو اعتماد میں لیا اور تمام نشستیں بلامقابلہ کروا کر سیاسی بدنظمی ، ہلڑ بازی اور ہارس ٹریڈنگ کا دروازہ بند کر دیا۔
پچھلے دنوں پیپلز پارٹی کے صدر آصف علی زرداری سے لاہور میں ایک ملاقات پر خیالی گھوڑے دوڑانے والے اینکروں اور اس ملاقات میں سازشیں تلاش کرنے والے صحافیوں کو بے مغز کہانیاں گھڑنے کی تکلیف سے بچانے کیلئے چودھری پرویز الٰہی نے ایک انٹرویو میں بتا دیا کہ وہ صرف آصف علی زرداری کا شکریہ ادا کرنے گئے تھے کیونکہ جب سینٹ کے انتخابات سے پہلے وہ یہ کوشش کر رہے تھے اور اس میں کامیاب ہو گئے کہ جس جماعت کا جو حصہ بنتا ہے وہ لیکر انتخابات کے جھنجھٹ سے بھی بچیں اور اپنے سیاسی تدبر کا پیغام بھی دیں۔
چودھری پرویز الٰہی کی اس مخلصانہ کوشش کو جب حکومت اور ن لیگ دونوں نے قبول کر لیا تو صرف پیپلز پارٹی کا امیدوار باقی رہ گیا اگر وہ کھڑا رہے تو سب کے بلامقابلہ کرانے کی کوششیں بے سود ہو جائیں گی۔ چنانچہ بقول چودھری صاحب میاں صاحب نے لندن سے یہ پیغام بھجوایا کہ اگر چودھری پرویز الٰہی خود آصف علی زرداری سے بات کریں تو وہ اپنا اُمیدوار بٹھا دینگے۔ چودھری صاحب کے فون پر زرداری صاحب نے محبت سے جواب دیا اور اپنا اُمیدوار بٹھا کر سپیکر پنجاب اسمبلی کی مساعی کو نتیجہ خیز بنا دیا جس پر انکے لاہور آنے پر چودھری صاحب زرداری صاحب کا شکریہ ادا کرنے گئے اور ان پر بھی یہ بات واضح کر دی کہ اس ملاقات کے بارے میں کسی قسم کے شک و شبہ کو دور کرنے اور افواہ سازی کو روکنے کیلئے وہ اپنے اتحادی وزیراعظم عمران خان کو آگاہ کر کے آئے ہیں۔ چودھری پرویز الٰہی اپنی کوئی سیاسی چال چھپانا چاہیں تو یہ ان کا حق بھی ہے اور اس ہنر میں بھی وہ اگر یکتا نہیں تو بھی پاکستان کے محدودے چند سیاست دانوں میں سے ہیں۔
اس ضمن میں مجھے سابق وزیراعظم پاکستان ظفر اللہ جمالی کی وہ بات کبھی نہیں بھولتی جب کراچی میں پیر پگاڑا کے گھر کھانے پر چودھری پرویز الٰہی بطور ڈپٹی پرائم منسٹر پہنچے۔ کچھ اینکروں اور رپورٹروں نے ایک دو تیکھے سوال کیے چودھری صاحب نے انہیں قہقہے میں اڑا دیا تو جمالی صاحب رپورٹروں سے کہنے لگے آپ چودھری صاحب سے بات اُگلوا لیں گے ایں خیال است و محال است۔ انہوں نے تو مجھے وزیراعظم بنانے کا جب فیصلہ کیا واللہ میں نہیں جان سکا بس مجھے ساتھ لیا اور میڈیا کے سامنے لا بٹھایا اور اعلان کر دیا جمالی صاحب ہمارے وزیراعظم ہیں۔
بخدا نہ میری جنرل مشرف سے کوئی بات ہوئی اور نہ اس حوالے سے چودھری برادران نے اعتماد میں لیا۔ البتہ مجھ پر بڑا اعتماد کیا۔ یہ تو سخن گسترانہ آ گئی وگرنہ مقصد یہ ہے کہ چودھری پرویز الٰہی نے نہ کبھی دو نمبری سیاست کی اور نہ ہی ’’ایہہ یاراں دا ای کم اے‘‘ کہہ کر کسی بات کا کریڈٹ لینا چاہا جو انہوں نے نہ کی ہو۔
پنجاب اسمبلی کی عمارت کی تعمیر چودھری پرویز الٰہی کا خواب تھا اسی لیے سپیکر بنتے ہی انہوں نے سیکرٹری اسمبلی محمد خاں بھٹی کو حکم دیا کہ اس رُکے ہوئے منصوبہ پر فوراً کام شروع کروانے کیلئے قواعد و ضوابط کے مطابق کام کریں۔ محمد خاں بھٹی جو چند دن پہلے ہی کسی جرم کے بغیر محض شہباز حکومت کے انتقام کی دس سالہ جبری چھٹی کی سزا کاٹ کے انکی جماعت کے سپیکر رانا اقبال کے ہاتھوں اپنی جائننگ رپورٹ پر دستخط کرا کر پورے میڈیا پر چھائے ہوئے تھے۔ دس سال کی جبری رُخصت پر بھیجنے اور اسکے خلاف انکوائری کی فائلیں کھولنے والے شہباز شریف اور انکے وزیر قانون رانا ثناء اللہ کو کچھ ہاتھ نہ آیا پھر بھی سیکرٹری کی بحالی انہیں منظور نہ تھی۔ وہ انہیں چودھری پرویز الٰہی کا خاص آدمی سمجھتے تھے۔ محمد خاں بھٹی نے یہ طویل عرصہ بڑے وقار سے گزارا اور اس سے زیادہ وقار سے اپنی پوزیشن پر واپس آئے انہیں اپنے علاقے کے مستحق افراد اور غریب عوام کی مدد کرنے پر اللہ نے نوازا۔ کئی اللہ والوں کی دُعائیں اس شخص کیلئے تھیں جو اس کی مخلوق کی بے لوث خدمت کرتا رہا وہ آج بحال ہو کر بس اللہ کا شکر ادا کر رہا تھا۔ انہیں سپریم کورٹ نے اس منصب پر بحال کیا تھا۔
محمد خاں بھٹی نے اپنی جائننگ اور چودھری پرویز الٰہی کے سپیکر کا حلف اُٹھانے کے درمیانی عرصہ میں وہ کام مکمل کر لیا تھا جس کی سپیکر صاحب نے ہدایت کرنا تھی۔ چنانچہ بطور وزیراعلیٰ چودھری پرویز الٰہی نے جس اسمبلی کی عمارت کا سنگ بنیاد 2005ء میں رکھا تھا۔ وہ 13 سال فائلوں میں دبی رہنے کے بعد نہ صرف فائلوں میں بحال ہو چکی تھی بلکہ زمین پر بھی اس پر کام شروع ہو گیا۔ پنجاب اسمبلی کی تعمیر میں چودھری پرویز الٰہی کی اس قدر دلچسپی کی وجہ محض ایک عمارت کی تعمیر نہ تھی اس کی وجہ میں بعد میں بتائوں گا۔ وہ بطور وزیراعلیٰ اس شہر میں وزیراعلیٰ ہائوس کی تعمیر میں’’ایک چھت کے نیچے‘‘ کے جدید تصور کو عملی جامہ پہنا چکے تھے۔ پنجاب اسمبلی کی عمارت اس لیے اہم تھی کہ قانون سازی کیلئے استعمال ہونیوالی اس عمارت کو تعمیر کر کے وہ اپنی ساری نظریاتی وابستگی کا ابلاغ کرانا چاہتے ہیں۔ قانون سازی کرنیوالے ارکان اسمبلی اور سیکرٹری اسمبلی سمیت سارے عملہ کو یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ یہاں کس قسم کی قانون سازی ہو سکتی ہے یا ہونا چاہیے۔ اس ملک کے قیام اور اسکے عالمی دنیا میں احترام کا نسخہ دینا چاہتے تھے جو پوری دنیا میں کسی بھی قانون سازی کرنے والے ادارے کا مقدر نہ بنا ہو۔ جسے نہ بھلایا جا سکے نہ یاد کرنا پڑے جو ہر وقت ذہنوں میں موجود رہے۔
آقائے نامدار خاتم المرسلین حضرت محمد مصطفی ﷺسے محبت کا سبق آپ کی ختم نبوت پر ایمان کا سبق اور اس ایمان افروز فیصلے سے مرتب ہونیوالے دائمی اثرات کا سبق لانبی بعدی یعنی میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا، کے فیصلہ کن حکم کے اثرات کا سبق اس حدیث مبارکہ کو اسمبلی ہال میں لکھوا کر چودھری پرویز الٰہی نے اپنی آخرت، دنیا، دین سبھی سنوار لیے اور پہلے ہی اجلاس میں مظفر وارثی مرحوم کی یہ نعت پڑھوا کر سارے ارکان اور عملہ کے ایمان کو ایسا تازہ کر دیا کہ ان کی ساری مساعی قبول ہو گئی۔
خود میرے نبی نے بات یہ بتا دی لا نبی بعدی
ہر زمانہ سن لے یہ نوائے ہادی لا نبی بعدی
اس اسمبلی سے بجٹ کی منظوری بے شک ان حالات میں جب قومی اسمبلی میں ن لیگ اور تحریک انصاف کے ارکان ایک دوسرے پر کتابیں پھینک رہے تھے، گالیاں دے رہے تھے۔جہاں پر اسمبلی بجٹ پر فِش مارکیٹ بنی ہو وہاں پنجاب اسمبلی میں اس قدر وقار اس حد تک احترام، ایسی برداشت اور ایسی رواداری جو نہ کسی نے پہلے دیکھی نہ سنی۔ یقینا چودھری پرویز الٰہی کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔ یہ نہ تو اسمبلی کی نئی عمارت کی خوشبو تھی اور نہ ہی کسی سیاسی حادثے نے سیاسی مخالفین کو یہ طرزِ عمل اختیار کرنے کی ترغیب دی تھی۔ یہ سپیکر پنجاب اسمبلی کی اپنے ممبران سے محبت تھی اور ممبران کا اپنے سپیکر کا احترام تھا۔ عمارت کی تعمیر چودھری پرویز الٰہی کی دنیا، دین اور آخرت سبھی کو سنوار گئی ہے۔ انہوں نے اپنے اتحادی وزیراعظم کے اس ریاست مدینہ کے تصور کو جو ہادی برحق ؐسے جڑا ہے جو انسانیت کی کامیابی کی ضمانت ہے جو اللہ کا پسندیدہ ہے اس تصور کے بھی کلیدی تصور یعنی ختم نبوت سے یہ بلڈنگ منسلک کر دی۔ عمارت میں داخل ہونے کے بعد خاتم النبیین آنحضرتﷺ کی اس حدیث مبارک کو ’’لا نبی بعدی‘‘ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا پڑھے بغیر اور اپنے ایمان کو تازہ اور پختہ کیے بغیر کوئی اس عمارت میں آگے نہیں بڑھ سکتا اور پھر اسمبلی کے پہلے اجلاس میں تلاوت قرآن کریم کے بعد سپیکر نے جب اعلان کیا کہ میری خواہش ہے کہ مظفر وارثی کی یہ نعت پڑھی جائے۔ جب یہ نعت پڑھی گئی ایسی پاکیزگی ، ایسا نور اور ایسی طمانیت و سکون دیکھنے والوں نے دیکھا کہ جسے مثالوں میں بھی بیان نہ کیا جا سکے۔ جو تاریخ بن گیا تاریخ بنا گیا۔
اس سچے عاشق رسول کی عظمت کو سلام۔
=…=…=