آج عید الاضحیٰ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کی قربانی کو قبول فرمائے، اس دوران ہونے والی غلطیوں کوتاہیوں اور خامیوں کو معاف فرمائے۔ دنیا بھر میں بسنے والے مسلمانوں کو عید الاضحیٰ مبارک ہو۔ خوشی کے اس موقع پر اللہ تعالیٰ ہمیں کمزور لوگوں کا خیال رکھنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ اللہ ہمیں قربانی کا جذبہ سمجھنے اور سارا سال اس پر عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔
خطبہ عیدین میں تکبیرات زیادہ سے زیادہ کہنا چاہیے،کھڑے ہوتے ہی پہلے نو دفعہ ’’اللہ اکبر‘‘ کہہ کر خطبہ شروع کرنا چاہیے، اور دوسرے خطبہ کے شروع میں سات تکبیریں کہہ کر خطبہ شروع کرنا چاہیے، اور اس کا اختتام چودہ تکبیروں سے کرنا چاہیے، یہ سنت ہے۔ اس سنت پر عمل کرنا چاہیے۔نیز اس بات کو بھی ملحوظ رکھنا چاہیے کہ عید الفطر کے مقابلے میں عید الاضحیٰ میں تکبیرات زیادہ کہنا چاہیے۔ امام شافعی نے’’کتاب الام‘‘میں اس کاذکر کیا ہے،چوں کہ یہاں "تکبیراتِ تشریق" کہی جاتی ہیں،اور اس میں چار مرتبہ اللہ اکبر کا کلمہ موجود ہے، اس لیے اگر پہلے خطبہ کے شروع میں دو مرتبہ تکبیر تشریق پڑھ کر ایک مرتبہ مزید اللہ اکبر کہہ دیا جائے اور دوسرے خطبہ کے شروع میں ایک مرتبہ تکبیر تشریق پڑھ کر تین مرتبہ مزید اللہ اکبر کا کلمہ پڑھاجائے اور دوسرے خطبہ کے اختتام پر تین مرتبہ تکبیر تشریق پڑھ کر دو مرتبہ مزید اللہ اکبر کہہ دیا جائے توآسانی کے ساتھ اس مستحسن طریقے پر عمل ہوجائے گا۔چنانچہ "کتاب الام" میں ہے۔
عیدین کے خطبے کے بعد دعا کرنا جائز ہے کیوں کہ عید کے دن دعا کا ذکر تو احادیث میں موجود ہے لیکن روایت میں یہ تصریح نہیں ہے کہ یہ دعا عید کی نماز کے بعد خطبہ سے پہلے ہوتی تھی یا خطبہ کے بعد اس لیے اس میں دونوں باتوں کا اختیار ہے کہ امام اور مقتدی مل کر کسی ایک موقع پر دعا مانگ لیں، خواہ نماز کے بعد یا خطبہ کے بعد، اور جس بھی موقع پر مانگیں اس کو دعا کے لیے مخصوص اور مسنون نہ سمجھیں، نماز کے بعد دعا مانگنے والے خطبہ کے بعد دعا مانگنے والوں کو ملامت نہ کریں اور نہ ہی خطبہ کے بعد دعا مانگنے والے نماز کے بعد دعا کرنے والوں پر طعن و تشنیع کریں۔
حلال جانور کو بہ نیتِ تقرب ذبح کرنے کی تارِیخ حضرت آدَم علیہ السلام کے دو بیٹوں ہابیل وقابیل کی قربانی سے ہی شروع ہوجاتی ہے، یہ سب سے پہلی قربانی تھی، حق تعالیٰ جلَّ شانْہ کا اِرشاد ہے:
ترجمہ:۔’’اور آپ اہلِ کتاب کو آدم کے دو بیٹوں کا واقعہ صحیح طور پر پڑھ کر سنا دیجیے، جب ان میں سے ہرایک نے اللہ کے لیے کچھ نیاز پیش کی تو ان میں سے ایک کی نیاز مقبول ہوگئی، اور دْوسرے کی قبول نہیں کی گئی‘‘۔
علامہ اِبن کثیر رحمہ اللہ نے اِس آیت کے تحت حضرت اِبن عباس رَضی اللہ عنہ سے رِوایت نقل کی ہے کہ ہابیل نے مینڈھے کی قربانی کی اور قابیل نے کھیت کی پیداوار میں سے کچھ غلہ صدقہ کرکے قربانی پیش کی، اْس زمانے کے دستور کے موافق آسمانی آگ نازل ہوئی اور ہابیل کے مینڈھے کو کھا لیا، قابیل کی قربانی کو چھوڑ دِیا۔اِس سے معلوم ہوا کہ قربانی کا عبادت ہونا حضرت آدَم علیہ السلام کے زمانے سے ہے اور اس کی حقیقت تقریباً ہرملت میں رہی ہے۔البتہ اس کی خاص شان اور پہچان حضرت اِبراہیم و حضرت اِسماعیل علیہ السلام کے واقعہ سے ہوئی، اور اسی کی یادگار کے طور پراْمتِ محمدیہ پر قربانی کو واجب قرار دیا گیا۔
قرآنِ کریم میں قربانی کی حقیقت ، حکمت اور فضیلت بیان کی گئی ہے۔ سورۃ حج میں ہے
ترجمہ:۔’’اور ہم نے تمہارے لیے قربانی کے اْونٹوں کو عبادتِ اِلٰہی کی نشانی اور یادگار مقرر کیا ہے، ان میں تمہارے لیے اور بھی فائدے ہیں، سو تم اْن کو نحر کرتے وقت قطار میں کھڑا کرکے اْن پر اللہ کا نام لیا کرو اور پھر جب وہ اپنے پہلو پر گر پڑیں تو اْن کے گوشت میں سے تم خود بھی کھانا چاہو تو کھائو اور فقیر کو بھی کھلائو، خواہ وہ صبر سے بیٹھنے والا ہو یا سوال کرتا پھرتا ہو، جس طرح ہم نے اِن جانوروں کی قربانی کا حال بیان کیا، اِسی طرح اْن کو تمہارا تابع دار بنایا؛ تاکہ تم شکر بجالائو! اللہ تعالیٰ کے پاس ان قربانیوں کا گوشت اور خون ہرگز نہیں پہنچتا؛ بلکہ اس کے پاس تمہاری پرہیزگاری پہنچتی ہے ، اللہ تعالیٰ نے ان جانوروں کو تمہارے لیے اِس طرح مسخر کردِیا ہے؛ تاکہ تم اس احسان پر اللہ تعالیٰ کی بڑائی کرو کہ اس نے تم کو قربانی کی صحیح راہ بتائی، اور اے پیغمبر! مخلصین کو خوش خبری سنا دیجیے‘‘۔
سورۃ حج ہی میں دوسرے مقام پر اسے شعائر اللہ میں سے قرار دیتے ہوئے اس کی عظمت بتائی گئی اورقربانی کی تعظیم کو دل میں پائے جانے والے تقویٰ خداوندی کا مظہر قرار دِیا ہے۔
ترجمہ:’’اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی نشانیوں اور یادگاروں کا پورا احترام قائم رَکھے تو ان شعائر کا یہ احترام دِلوں کی پرہیزگاری سے ہواکرتا ہے‘‘۔
پہلے انبیاء کرام علیہم السلام کی شریعتوں میں قربانی کا تسلسل حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بعثت تک پہنچتاہے، جس کا طریقہ یہ تھا کہ قربانی ذبح کی جاتی اور وقت کے نبی علیہ السلام دْعا مانگتے اور آسمان سے خاص کیفیت کی آگ اْترتی اور اْسے کھاجاتی جسے قبولیت کی علامت سمجھا جاتا تھا، قرآنِ کریم میں ہے۔
ترجمہ:۔’’یہ لوگ ایسے ہیں جو یوں کہتے ہیں کہ اللہ نے ہمیں حکم دے رکھاہے کہ ہم کسی رسول کی اْس وقت تک تصدیق نہ کریں؛ جب تک وہ ہمارے پاس ایسی قربانی نہ لائے کہ اْس کو آگ کھاجائے۔
قرآنِ کریم میں ہے
ترجمہ:۔’’اور آپ اہل کتاب کو آدَم کے دو بیٹوں کا واقعہ صحیح طور پر پڑھ کر سنا دیجئے، جب اْن میں سے ہرایک نے اللہ کے لیے کچھ نیاز پیش کی تو اْن میں سے ایک کی نیاز مقبول ہوگئی، اور دْوسرے کی قبول نہیں کی گئی۔قرآنِ کریم میں ہے
ترجمہ ’’نسک‘‘ سے مراد قربانی ہے؛اس لیے کہ اْس کا نام ’’نسک‘‘ بھی ہے، اِسی طرح ہر وہ جانور جو اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرنے کی نیت سے ذبح کیا جائے وہ ’’نسک‘‘ کہلاتا ہے، ا رشادِ بارِی تعالیٰ ہے،قربانی کے اس حکم کو اللہ تعالیٰ نے ایک اور انداز سے نماز کے تتمے کے طور پر یوں ذِکر فرمایا اِبن کثیر اِس آیت کے تحت رَقمطراز ہیںحضرت اِبن عباس رَضی اللہ عنہما، حضرت عطاء ، مجاہد، عکرمہ رحہمم اللہ سمیت متعدد مفسرین فرماتے ہیں کہ ’’وانحر‘‘ سے اْونٹ کا ’’نحر‘‘ ہی مطلوب ہے جو قربانی کے لیے جانے والے جانور میں سے بڑا جانور ہے‘‘۔اِس سے فقہاء نے مسئلہ بھی اخذ فرمایا ہے کہ عید الاضحی پڑھنے وَالے لوگوں پر لازم ہے کہ وہ نماز عید پہلے ادا کرلیں، اس کے بعد قربانی کریں، جن لوگوں پر عید کی نماز فرض ہے، اگر اْنہوں نے عید سے پہلے قربانی کردِی تو اْن کی قربانی نہیں ہوگی۔قرآنِ کریم میں ہے
ترجمہ:۔’’تاکہ یہ سب آنے وَالے اپنے اپنے فائدوں کی غرض سے پہنچ جائیں اور تاکہ قربانی کے مقررَہ دِنوں میں خدا کا نام لیں جو خدانے ان کو عطائ کیے ہیں، سوائے اْمت محمدیہ! تم ان قربانیوں میں سے خود بھی کھانا چاہو تو کھائو اور مصیبت زدہ محتاج کو کھلائو۔اِس آیت میں بھی قربانی ہی کا ذِکر ہے۔ ہرقوم میں نسک اور قربانی رَکھی گئی، جس کا بنیادِی مقصد خالق کائنات کی یاد، اس کے احکام کی بجاآورِی اس جذبے کے ساتھ کہ یہ سب کچھ اللہ کی عطا اور دین ہے، یہاں بھی اِنسان کی قلبی کیفیت کا ایسا اِنقلاب مقصود ہے کہ وہ مال ومتاع کو اپنا نہ سمجھے؛ بلکہ دِل وجان سے اس عقیدے کی مشق کرے کہ حق تعالیٰ ہی اس کا حقیقی مالک ہے، گویا قربانی کا عمل فتنہ مال سے حفاظت کا دَرس دیتا ہے۔قرآنِ کریم میں ہے
ترجمہ: اور ہم نے ہر اْمت کے لیے اس غرض سے قربانی کرنا مقرر کیا تھا کہ وہ ان چوپایوں کی قسم کے مخصوص جانوروں کو قربان کرتے وَقت اللہ کا نام لیا کریں، جو اللہ نے ان کو عطا کیے تھے۔حضرت عائشہ رَضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: اِبن آدم (اِنسان) نے قربانی کے دِن کوئی ایسا عمل نہیں کیا، جو اللہ کے نزدِیک خون بہانے (یعنی قربانی کرنے) سے زیادَہ پسندیدہ ہو، اور قیامت کے دِن وہ ذبح کیا ہوا جانور اپنے سینگوں، بالوں اور کھروں کے ساتھ آئے گا، اورقربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے ہاں قبول ہوجاتا ہے، لہٰذا تم اس کی وَجہ سے (قربانی کرکے) اپنے دِلوں کو خوش کرو۔ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ راوِی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رَضی اللہ عنہم نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ! یہ قربانی کیا ہے؟ فرمایا: تمہارے باپ اِبراہیم علیہ السلام کا طریقہ (یعنی اْن کی سنت) ہے، صحابہ نے عرض کیا کہ پھر اس میں ہمارے لیے کیا (اجر وثواب) ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وَسلم نے فرمایا: (جانور کے) ہر بال کے بدلے ایک نیکی، اْنہوں نے عرض کیا کہ (دْنبہ وَغیرہ اگر ذبح کریں تو اْن کی) اْون (میں کیا ثواب ہے؟) فرمایا: کہ اْون کے ہربال کے بدلے ایک نیکی۔حضرت اِبن عباس رضی اللہ عنہ سے رِوَایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وَسلم نے عید الاضحی کے دِن اِرشاد فرمایا: آج کے دِن کسی آدمی نے خون بہانے سے زیادَہ افضل عمل نہیں کیا، ہاں! اگر کسی رِشتہ دار کے ساتھ حسن سلوک اس سے بڑھ کر ہو تو ہو۔ حضرت ابو سعید رَضی اللہ عنہ سے رِوَایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (اپنی بیٹی حضرت سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے) فرمایا: اے فاطمہ! اْٹھو اور اپنی قربانی کے پاس رہو (یعنی اپنی قربانی کے ذبح ہوتے وقت قریب موجود رہو) یہ قربانی کا جانور قیامت کے دِن اپنے گوشت اور خون کے ساتھ لایا جائے گا اور تمہارے ترازو میں ستر گنا (زیادہ) کرکے رَکھا جائے گا، حضرت ابوسعید نے عرض کیا اللہ کے رسول! یہ فضیلت خاندانِ نبوت کے ساتھ خاص ہے جو کسی بھی خیر کے ساتھ مخصوص ہونے کے حق دار ہیں یا تمام مسلمانوں کے لیے ہے؟ فرمایا یہ فضیلت آلِ محمد کے لیے خصوصاً اور عموماً تمام مسلمانوں کے لیے بھی ہے۔حضرت علی رَضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہِ وآلہ وسلم نے فرمایا اے لوگو! تم قربانی کرو اور ان قربانیوں کے خون پر اجر وثواب کی اْمید رَکھو؛ اِس لیے کہ (اْن کا) خون اگرچہ زمین پر گرتا ہے؛ لیکن وہ اللہ کے حفظ وامان میں چلاجاتاہے‘‘۔
عید الاضحیٰ کے موقع پر دین اسلام کی خدمت کرنے والے ہر شخص، ہر ادارے کے لیے بھی دعا کریں، تبلیغی جماعت، دارالعلوم دیو بند، دعوت اسلامی، جماعت اہلحدیث سمیت انفرادی و اجتماعی طور پر دین کی خدمت کے والوں کے لیے ڈھیروں دعائیں ہیں اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی خدمت کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین