تسلیم ورضا اعتراف بندگی اورتقوی و پرہیزگاری قربانی کی حقیقی روح ہیں۔ تقوی ہی وہ عظیم روحانی جذبہ ہے جو بندگی کاحاصل اور تمام اسلامی عبادات کا بنیادی جزو ہے۔تاریخی اورابدی حقیقت ہے کہ مقر بین بارگاہ الہی کے ساتھ اللہ تعالی کا معاملہ وہ نہیں ہوتا جو عام انسانوں کے ساتھ ہوتا ہے انہیں امتحان اور آزمائش کی سخت سے سخت منزلوں سے گزرنا پڑا اور قدم قدم پر جاں نثار اور تسلیم و رضا کا مظاہر ہ کرنا پڑتا ہے حضرت ابر اھیم علیہ السلام چونکہ اللہ کے جلیل القدر پیغمبراورنبی تھے اس لیے انہیں بھی مختلف امتحانات اورآزمائشوں سے دوچار ہونا پڑا وہ اپنی جلالت و عظمت کے لحاظ سے ہر مرتبہ امتحان اورآزمائش میں کامل و مکمل ثابت ہوئے۔قربانی ایک ایسا لفظ جو اپنے اندر وسیع تر مفہوم رکھتا ہے اگر قربانی کو ایک اصطلاح کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ انفرادی سے لے کر اجتماعیت تک اور اس کائنا ت کو ہنگاموں فتنہ فسادات سے بچائے رکھنے کا دارو مدار صرف ایک لفظ قربانی پر ہے مذہبی نقطہ نظر سے دیکھاجائے تو اسلام جو دین فطرت ہے اس کی ابتداء اور انتہا عظیم قربانیوں کی ان مٹ اور ناقابل فراموش داستانوں پر مشتمل ہے عہد حاضر میں دیکھا جائے تو ہم نے اپنی انفرادی و اجتماعی زندگیوں سے قربانی کو یکسر نکال دیا ہے ہوس بے حسی ، ذہنی آلودگی ، مایوسی ، ڈیپریشن ، لا دینیت ، افراتفری ،ذات پسندی اور عصرحاضر کی دیگر ذلت آمیز برائیوںنے نہ صرف معاشروں کی جڑوں کو کھوکھلا کردیا بلکہ دین اسلام کی بنیادیں بھی ہلاکر رکھ دی ہیں ۔ قربانی در حقیقت اس عہد کی تجدیدبھی ہے کہ ہمارا جینا اور مرنا سب کا سب اللہ کے لیے ہے ۔قربانی ایک ایسے جذبے اور عمل کا نام ہے جس کے ذریعے مومن روح کی پاکیزگی حاصل کرتا ہے جبکہ نفسانی خواہشات سے آزادی قربانی کے ذریعے ہی ممکن ہے تاہم بدقسمتی سے آج کے نفس پرست اور نام نہاد مسلمان نے عید قربان جیسے عظیم مذہبی فریضے اور تہوا ر کو دکھاوے اور نمو دو نمائش نفسانی خواہشات کی تکمیل اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی بھینٹ چڑھا دیا ۔عید الاضحی اللہ کے خلیل عظیم پیغمبر اور جدامجد حضرت ابر اہیم علیہ السلام کی سنت ہے ۔ حضرت خلیل اللہ اطاعت الہی کو پور اکرنے کے لیے شفقت پدری کو اپنے دل سے کھرچ ڈالتے ہیں اپنے محبو ب لخت جگر اور بڑھاپے کے سہارے کو قربان کرنے کرلیے اسکے سینے پر گھٹنا ٹیکتے ہیں اوراس کی نرم و نازک گردن پر چھری چلا نے لگتے ہیں کہ آد م کی وفاشعاری اور اطاعت کا یہ منظر دیکھ کر یکا یک رحمت الہی جوش میں آتی ہے ایک فرشتہ حکم الہی کے مطابق حضرت اسمعیل علیہ السلام کی جگہ جنتی مینڈھا حضرت خلیل اللہ کی چھری کے نیچے رکھ دیتا ہے اور وہ مینڈھے کے گلے پر چھری پھیر کر جاں نثاری اور وفاداری کے جذبات کی تسکین کرتے ہیں اللہ تعالی قرآن شریف میں ارشاد فرماتے ہیں ’’ اور ہم نے ندا دی کہ اے ابر ا ھیم ؑ تم نے اپنا خواب سچ کر دکھایا ہم وفادار بندوں کو ایسی جزادیتے ہیں یقینا یہ ایک کھلی آزمائش تھی (الصافات104'105)۔حضرت ابراھیم علیہ السلام کی قربانی انسانی تاریخ میں ایک منفرد بلند مقام رکھتی ہے تاریخ کے اور اق اس عظیم قربانی کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہیں قرآن کریم نے،، وفدیناہ بذبح عظیم ،،ہم نے اسمعیلٰ علیہ السلام کا فدیہ ایک عظیم قربانی بنا دیا ارشاد فرما کر اس قربانی کی عظمت اور قبولیت کا اعلان کیا اسے عبادت اور قرب الہی کا ذریعہ قرار دیا خاتم الانبیاء سرور کائنات حضرت محمد ﷺ کی امت میں بھی ہم عظیم جذبے اور حضرت ابر اھیم کی سنت کو عبادت کا درجہ عطا کیا گیا چنا نچہ صحابی رسول ﷺ حضرت زید بن ارقم ؓ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ ﷺ سے بعض صحابہ اکرام نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ ان قربانیوں کی حقیقت اورتاریخ کیا ہے آپ ﷺ نے فرمایا یہ تمہارے روحانی اور نسلی مورث حضرت ابراھیم علیہ السلام کی سنت ہے صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا یا رسو ل اللہ ﷺ ان قربانیوں میں ہمارے لیے کیااجر ہے رسول اکرم ﷺ نے فرمایا ’’قربانی کے ہر جانور کے بال کے عوض ایک نیکی ہے ‘‘ (مسند احمد ،سنن ابن ماجہ ) ۔نبی کریم ﷺ نے عید الاضحی کے روز قربانی کی فضیلت بیان فرماتے ہوئے ارشا دفرمایا :یوم النحریعنی عید کے روزابن آدم جوبھی کام کرتا ہے اس میں سب سے زیاد ہ پسندیدہ عمل اللہ کے نزدیک (قربانی کا ) خون بہانا ہے اور قیامت کے روز وہ شخص اس حال میں آئے گا کہ اس کے اعمال نامے میں قربانی کے جانور کے سینگ اس کے بال اور اس کے کھر بھی شمار ہوں گے اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے ہی اللہ کے ہاں قبول ہوجاتا ہے اس لیے تم بطیب خاطر قربانی کیا کرو اس حدیث شریف میں ہر اس مسلمان کے لیے خوش خبری ہے جو قربانی کرنے کی استطاعت وارادہ رکھتاہو صحابہ کرام ؓ نے حضورﷺ سے سوال کیا یا رسو ل اللہ ﷺ قربانی کی حقیقت کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ’’یہ تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کا طریقہ ہے یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کاطریقہ اورسنت ہے جس پر چلنے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے اللہ تعالی کا فرمان ہے ’’ پھر حکم بھیجا ہم نے آپ کی طرف کہ ابراہیم کے دین پر چلیں جو ایک سیدھا دین تھا ۔ قربانی ان اسلامی شعائر میں سے ہے جب سے حضرت آدم علیہ السلام اس دنیامیں تشریف لائے اور دنیا آباد ہوئی اورپھر امت محمد یہ تک تقریباً ہر ملت و مذہب والے اس پر عمل پیرا رہے ہیں اس کی تصریح خود قرآن کریم نے کردی ہے چنانچہ سورۃ المائدہ میں ہابیل و قابیل کا مشہور واقعہ ذکر کر کے حضرت آدم علیہ السلا م کے زمانے سے اس کی مشروعیت کی طرف اشارہ کیاگیااورپھر ہر امت کے اس پر عمل پیرارہنے کی تصریح سورۃالحج میں کردی گئی چنا نچہ ارشاد باری تعالی ہے ’’ ہم نے ہرامت کے لیے قربانی مقرر کی ہے تاکہ وہ لوگ اللہ کانام لیں ان چو پائے جانوروں پر جواس نے انہیں دیے ہیں ‘‘ اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ ہر امت میں اللہ کے نام پر قربانی کرنا مشروع رہا ہے البتہ سابقہ امتوں کی قربانی قبول ہونے کی علامت یہ تھی کہ آسمانی آگ اسے کھا جاتی تھی قربانی کا گوشت کھانے کی اجازت نہیں تھی جب کہ امت محمد ی کو اللہ تعالی کی طرف سے یہ خصوصی انعام حاصل ہے کہ ان کے لیے قربانی کا گوشت حلال کردیا او ر اس کے کھانے کی اجازت دے دی گئی۔عید الا ضحی حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اسی عظیم اوربے مثال قربانی کی یاد تازہ کرنے کے لیے تمام عالم اسلام میں10 ذی الحجہ کو بڑے جوش و جذبے سے منائی جاتی ہے۔اللہ پاک صحیح معنوں میں اس فریضہ قربانی پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔