اس وقت پوری دنیا میں مہنگائی کے اثر نے عوام کو بے حال کررکھا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ اس اثر کو مزید بڑھا رہا ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک تو خیر پہلے بھی ایک ایسے معاشی عدم استحکام کا شکار ہیں جس کا کوئی مستقل حل جلد نکلتا دکھائی نہیں دے رہا اور اس کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ ان ممالک میں حکومتیں کسی طویل مدتی پالیسی کو اختیار کر کے معیشت میں بہتری لانے کی بجائے اشرافیہ کو نوازتی جاتی ہیں اور غیر ملکی قرضوں کا بوجھ بڑھتا جاتا ہے۔ سری لنکا کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں عوام نے بدترین معاشی عدم استحکام سے تنگ آ کر اقتدار پر قابض خاندان کو اٹھا کر ایسا پٹخا کہ اب اس کے دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کے امکانات بھی معدوم ہوگئے ہیں۔ پاکستان میں حالات اتنے برے تو نہیں ہوئے لیکن ہر گزرتے دن کے ساتھ سیاسی عدم استحکام جیسے شکلیں بدل بدل کر حالات کو مزید الجھاتا جارہا ہے اور معاملات کسی بھی طرح حکومت کے ہاتھ میں آ ہی نہیں رہے اس سے یہی دکھائی دیتا ہے کہ یہاں بھی صورتحال مزید بگاڑ کا شکار ہوگی۔
’کیا پاکستان ہائپر انفلیشن کی طرف جارہا ہے؟‘ کے عنوان سے 4 نومبر 2021ء کو شائع ہونے والے اپنے کالم میں راقم نے یہ لکھا تھا کہ اگر پاکستان مسلسل پنجے گاڑتے ہوئے معاشی عدم استحکام پر قابو پانے کے لیے کوئی پالیسی نہ بنا پایا تو یہ طے ہے کہ جلد ہم انفلیشن (inflation) یعنی مہنگائی کی حد سے آگے بڑھ کر پہلے اقتصادی جمود یعنی سٹیگ فلیشن (stagflation) اور پھر بے قابو مہنگائی یعنی ہائپر انفلیشن (hyperinflation) کا شکار ہو جائیں گے۔ اقتصادی معاملات پر حکومت کا اختیار جس تیزی سے کم ہوتا جارہا ہے اس سے یہ واضح طور پر دکھائی دیتا ہے کہ ہم اقتصادی جمود کے مرحلے میں داخل ہوچکے ہیں۔ بے قابو مہنگائی یا ہائپر انفلیشن کا مرحلہ کسی بھی ملک کے کتنا خطرہ ہوتا ہے اور اس کے منفی اثرات ریاست کے تار و پود کو کیسے بکھیرتے ہیں اس کی کچھ مثالیں تو ہمارے سامنے موجود ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہم ان مثالوں سے کوئی سبق سیکھنے اور معاملات کو بہتری کی طرف لانے کے لیے پالیسی بنانے کی بجائے انفرادی اور گروہی مفادات کی جکڑ بندیوں میں الجھے ہوئے ہیں۔
اقتصادی جمود کی صورتحال کا سامنا اب سے تقریباً نصف صدی پہلے امریکا اور برطانیہ بھی کرچکے ہیں لیکن پھر وہاں کی حکومتوں نے ایسی پالیسیاں اختیار کیں جنھوں نے ان ممالک کو جلد ہی اس قابل بنا دیا کہ وہ اس صورتحال پر قابو پا کر معاشی استحکام کی طرف لوٹ آئے۔ امریکا میں حالیہ دنوں میں ایک بار پھر ایسی صورتحال پیدا ہوئی جس سے عوام کے مسائل میں اضافہ ہوگیا۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے نے عوام کی پریشانیوں میں مزید اضافہ کیا۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے امریکی صدر جوزف بائیڈن نے ایک غیر معمولی فیصلہ کیا۔ اس فیصلے کے تحت امریکا کے تیل کے تزویراتی ذخیرے (Strategic Petroleum Reserve (SPR)) میں سے روزانہ کی بنیاد پر دس لاکھ بیرل تیل دینے کا فیصلہ کیا گیا تاکہ رسد کے بڑھنے سے قیمتوں میں کمی لائی جاسکے۔ بڑھتی ہوئی قیمتوں پر قابو پانے کے لیے کیے جانے والے اس فیصلے کا ایک اثر یہ بھی ہوا کہ ہنگامی صورتحال کے لیے محفوظ کیا گیا امریکی تزیرواتی ذخیرہ گزشتہ مہینے 1986 ء کے بعد سے اب تک کم ترین سطح پر دکھائی دیا۔ اس صورتحال کی وجہ سے امریکی صدر کو ملک کے اندر تنقید کا نشانہ بھی بنایا جارہا ہے۔
مشرقِ وسطیٰ کے اپنے حالیہ دورے کے موقع پر صدر جو بائیڈن نے یہ کوشش بھی کی کہ وہ سعودی عرب کو اس بات پر آمادہ کریں کہ وہ اپنی تیل کی رسد بڑھائے تاکہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں پر قابو پانے میں مدد مل سکے لیکن اس سلسلے میں کوئی معاہدہ نہیں ہوسکا۔ سعودی عرب نے اس حوالے سے یہ اعلان تو کررکھا ہے کہ وہ 2027ء تک اپنی پیداوار میں دس لاکھ بیرل یومیہ اضافہ کر کے اسے بارہ ملین بیرل سے بڑھا کر تیرہ ملین تک لے جائے گا لیکن پیداوار اس سے زیادہ نہیں بڑھائی جائے گی۔ جدہ میں ہونے والے اجلاس میں سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ ہمارے پاس تیل کی یومیہ پیداوار کو تیرہ ملین بیرل سے زیادہ کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ امریکی صدر نے سعودی عرب پر دباؤ ڈال کر فوری طور پر تیل کی پیداوار بڑھانے کا مطالبہ کیا تھا جسے سعودی انتظامیہ نے مسترد کردیا۔ سعودی عرب تیل برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک (Organization of the Petroleum Exporting Countries) کا سربراہ ہے اور اس کے انکار کا مطلب یہ ہے کہ اس اتحاد میں شامل کوئی بھی ملک امریکی مطالبے پر اپنی پیداوار میں فوری اضافہ نہیں کرے گا۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ تیل کی پیداوار سے متعلق کسی امریکی مطالبے کو سعودی عرب یا اوپیک ممالک کی طرف سے رد کیا گیا ہے۔ چند برس پہلے جب پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں مسلسل گراوٹ کا شکار تھیں اس وقت اوپیک ممالک سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ اپنی تیل کی پیداوار میں کمی لائیں تاکہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں کو میں اضافہ ہو۔ اس وقت بھی اس مطالبے کو تسلیم نہیں کیا گیا کیونکہ 1980ء کی دہائی میں جب اوپیک ممالک نے تیل کی قیمتوں میں عالمی سطح پر استحکام پیدا کرنے کے لیے پیداوار میں کمی کی تھی اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکا نے منڈی میں اپنے لیے جگہ بنا لی تھی جس سے مذکورہ ممالک کو نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ اسی واقعے سے سبق سیکھ کر اوپیک ممالک نے نئی صدی کی پہلی دہائی میں تیل کی قیمتوں میں مسلسل کمی کے باوجود یہ فیصلہ کیا تھا کہ وہ اپنی پیداوار میں کمی نہیں کریں گے۔ اب امریکا اپنے تیل کے تزویراتی ذخیرے کو بچانے اور روس کی یوکرائن کے خلاف جنگ کے اثرات پر قابو پانے کے لیے ایک بار پھر اوپیک ممالک کو بلی کا بکرا بنانا چاہ رہا ہے جس سے انکار کا فیصلہ بہرطور دانش مندانہ ہے!