تب تو ہمارا گمان تھا کہ افغانستان کے مجاہدین کی دلیری اور امریکہ کی براستہ پاکستان دیدہ دلیری کی وجہ سے روس کو بصد رسوائی افغانستان سے اپنی افواج واپس بلانی پڑیں تھیں ۔ہم پاکستانی اسے اسلام، جہاد ، مجاہدین اور شوق شہادت کی فتح سمجھتے رہے ، جبکہ امریکہ اسے اپنی پچاس سالہ حکمت عملی اور اپنے ڈالر کی قوت خرید کی فتح سمجھ کر ایک طرف ہوا اور دیگر کاموں میں مصروف ہو گیا۔ہمارے یہاں خفت مٹانے کے لیے امریکہ کی بے وفائی اور سرد مہری کو سیاسی نعروں کی صورت عام کیا جاتا ہے ۔امریکی مطلب پرست ہیں،خود غرض ہیں ،وفا نہیں کرتے ،کام لے کر بھول جاتے ہیں ۔ہمارے ہاں سیاسی رویوں کی تشکیل کرنے والے سیاست کار،جنہیں ہدایت کار کہنا بھی درست ہو گا، امریکہ مخالف رویوں کو محض اس لیے رائج کرتے ہیں ، کہ امریکہ کی ہر خدمت کے لیے دستیاب رہنے کی خفت اور خجالت کو چھپایا جا سکے۔ اچھا امریکہ ہمارے جیسے ملکوں میں اپنے خلاف نعروں کا برا نہیں مانتا، الٹا خوش ہوتا ہے ،کیونکہ اسے ان باتوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وہ اسے محض اداکاری سمجھتے ہیں ۔ابھی تک اکیڈمی ایوارڈز میں مکار اور اداکار حکومتوں کو ایوارڈز دینے کا سلسلہ شروع نہیں کیا گیا،اگر کبھی ایسا ہوا تو ہم بڑی آسانی سے یہ ایوارڈ اپنے نام کر لیا کریں گے۔
اب پہلی بار امریکہ مخالف نعرے کو ایک سیاسی جماعت نے بھی استعمال کرنا شروع کیا ہے۔بظاہر دگر دانائے راز اس نعرے سے الگ ہیں ۔پر ستم ظریف کی شکی طبیعت اور پاکستانی فراست کہتی ہے کہ اب بھی وہی کچھ ہو رہا ہے جو ماضی میں ہوتا رہا ہے ۔امریکہ اس لیے موضوع سخن بنا رہتا ہے کہ پاکستانی ریاست اور سیاست کے نعرے تخلیق کرنے والوں کے لیے
اپنے افکار کی اشعار کی دنیا ہے یہی
جان مضموں ہے یہی شاہد معنی ہے یہی
والا معاملہ ہے۔ ستم ظریف اس کیفیت کو حسن طلب کی تمہید قرار دیتا ہے۔وہ کہتا ہے کہ دنیا کا کوئی ملک اتنی ایمانداری اور اس قدر راز داری سے لین دین نہیں کرتا، جس قدر امریکہ کرتا ہے ۔یہ وہی صورت ہے جس کی طرف نظیر اکبر آبادی نے اشارہ کیا تھا یعنی کیا خوب سودا نقد ہے اس ہات دے ،اس ہات لیہاں البتہ روس کا معاملہ دوسرا ہے ۔سب سے پہلی بات جو پاکستانی اچھی طرح سے سمجھتے ہیں وہ یہ ہے کہ روس امریکہ نہیں ہے۔آپ سوچیں گے کہ یہ کیا بات ہوئی۔تو میں کہوں گا کہ یہی اصل بات ہے۔ روسی ریاست سے معاملہ کرتے ہیں ،افراد سے نہیں۔وہ پاکستان کو اسٹیل مل کا تحفہ دے سکتے ہیں ،لیکن کسی کے خفیہ اکاونٹ میں پیسہ ڈالنے پر مائل نہیں ہوتے ۔ وہ اجناس اور اشیائ کی قیمتوں میں رعایت دے سکتے ہیں۔لیکن ظاہر ہے روسیوں کو علم ہے کہ ان کے ساتھ معاملات کرنے والا ملک امریکی عتاب کا بھی شکار ہو گا ۔تو اسی لیے وہ روسی زبان میں اشارتاً بتا دیتے ہیں کہ جس کو ہو دین و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں؟
ستم ظریف کا کہنا ہے کہ اس شعر کے پہلے مصرعے میں مراز غالب نے روس اور امریکہ دونوں کو لپیٹ کر پھر یہ مشورہ عام کیا تھا کہ اس کی گلی میں نہیں جانا چاہیئے ۔وہ اس شعر کے پہلے مصرعے کی طرف متوجہ کرتے ہوئے وضاحت کرتا ہے کہ ہاں وہ خدا پرست نہیں، جاو وہ بے وفا سہی .میں مصرعے کا پہلا حصہ روس کی طرف ، جبکہ دوسرا حصہ امریکہ کی طرف اشارہ کرتا دکھائی دیتا ہے ۔ستم ظریف جیسے غالب شناس شکر ہے کم ہیں، لیکن بہرحال ہیں تو سہی ۔دراصل یہ ہمارے جیسے ملکوں کے نادان فیصلہ سازوں کی ناکامی ہے جس نے یہاں آزاد ذہنی رویے اور پختہ سیاسی شعور کو پنپنے نہیں دیا۔نتیجتآ بطور قوم ہمیں چوک میں اشارے پر رکنے والی گاڑیوں کے شیشے کھٹکھٹانے کی عادت سی ہو گئی ہے۔جو بہرحال شرم کی بات ہے ۔ستم ظریف کہتا ہے کہ شرم جب چلی جائے تو پھر اسے آنے میں کافی سارا وقت لگتا ہے۔
اب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف ۔روس ایک بڑی عالمی فوجی طاقت ہے۔ افغانستان میں اس کی ہزیمت کے کئی جواز تراشے گئیے کہ میدان جنگ بہت دور تھا، جنگ کے گوریلا جنگ بننے سے نقصانات بڑھتے گئیے۔فوجیوں میں بددلی پھیلنے لگی تھی ۔کیونکہ انہیں افغانستان میں اپنی کارروائیوں کا اخلاقی جواز نظر نہیں آتا تھا۔ اس لیے جب کندھے پر رکھ چلانے والا اسٹنگر میزائل مجاہدین کے حوالے کیا گیا ، تو بازی پلٹ گئی ،اور روسی ہیلی کاپٹر دھڑام سے نیچے گرنے لگے۔
چلیئے یہاں تک تو بات سمجھ میں آتی ہے ۔لیکن اکیسویں صدی میں روسی سرحد سے متصل ملک ، جو طویل عرصہ روسی ریاست کے جسد خاکی کا حصہ بھی رہ چکا تھا۔اور جس کے دو صوبوں نے روس کے اشارے پر یوکرین سے آزادی کا اعلان بھی کر دیا تھا، تقریباً نصف سال گزرنے کے باوجود ابھی تک روسی افواج اس ملک پر قبضہ نہیں کر سکی ہیں ۔اس سے ایک راز کی عقدہ کشائی ہوتی ہے اور وہ راز یہ ہے کہ بڑی ریاستیں جنگیں جیتنے یا ہارنے کے لیے نہیں ، جنگ کے فوائد سمیٹنے کے لیے شروع کرتی ہیں۔ ستم ظریف کہتا ہے کہ روسی جرنیلوں کو جنگ شروع کرنے کی تربیت تو دی جاتی ہے ،لیکن جنگ جینے کی مشق نہیں کروائی جاتی ۔سویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد روس نے سوائے چیچنیا کے راہنما داودف جوہر کو اس کے سیل فون کی ڈائریکشن پر میزائل مار کر شہید کرنے اور چیچنیا کو آزاد ریاست بننے سے روکنے کے علاؤہ اور کوئی قابل ذکر فتح حاصل نہیں کی۔یہاں یوکرین میں تو لگتا تھا کہ روسی جرنیلوں کے لیے دو چار روز کا مشن ہو گا۔اور اس کے بعد روس اس ملک کی من مرضی کی شکل وصورت بنا کر امریکہ اور نیٹو کی پیش دستیوں کا خاکہ اڑایا کرے گا۔ایسا اس لیے ذہن میں آتا تھا کہ اب روس میں نہ تو بریڑنیف حکمران تھا اور نہ ہی گوربا چوف، اب ایک مرد آہن ولادیمیر پوٹن روس کا صدر تھا جس نے امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ،انکھیں جھپکنا چھوڑ رکھا تھا۔ دوسری طرف ایک سابق اداکار یوکرین کا منتخب صدر تھا۔اسے پوٹن جیسی بصیرت اور تجربہ کہاں؟ پر یہی سابق اداکار روس کو ناکوں چنے چبوا رہا ہے۔ٹھیک ہے کہ امریکہ کی مادی مدد اور نیٹو کی اعانت اسے میسر ہے ،لیکن جب ایک سپر پاور اپنی سرحد سے متصل ایک ایسے ملک پر حملہ کرتی ہے کہ جس کے ایک ایک انچ سے وہ واقف ہو یوکرین پر ابھی تک ایک بے نتیجہ حملے کے پانچ ماہ بعد صدر پوٹن کا یوکرین کو دھمکی دینا مجھے اعتراف شکست جیسی کوئی چیز لگتی ہے ۔حربی معاملات میں دھمکی ایک مؤثر ہتھیار شمار ہوتا ہے اور اکثر کام دھمکی ہی سے نکل آتے ہیں ۔لیکن اپنے سے کمزور ملک پر زوردار حملہ کرنے کے پانچ ماہ بعد یہ دھمکی دینا کہ یوکرین ہماری شرائط مان لے ،ورنہ پھر مزید برے حالات و واقعات کے لیے تیار رہے ،ایک حماقت آمیز اعتراف شکست نظر آتا ہے۔
روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے لیے چند مشورے
Jul 21, 2022