حجاب پر اعتراض صرف امریکہ ہی نہیں بلکہ کئی یورپی ممالک بھی اس معاملے میں تعصب پسندی کا شکار ہیں۔ ایک طرف یہ ممالک آزادی اظہار رائے کے قوانین کو بنیاد بنا کر مذہبی جنگ کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ ایسے قوانین کا سہارا لے کر دنیا بھر کے مسلمانوں کے دلوں پر حملے کرتے رہتے ہیں تو دوسری طرف حجاب کے معاملے میں مغربی ممالک کی مسلم خواتین کی یہی آزادی ختم کرنے کی ہر ممکن کوششیں بھی کرتے رہتے ہیں۔ امریکہ نے ایک مرتبہ پھر ایران کو حجاب کے معاملے میں سختی پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ترجمان امریکی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ "یقین رکھتے ہیںکہیں بھی خواتین اور بچیوں کو مرضی سے حجاب پہننے کی اجازت ہونی چاہیے۔امریکا نے ایرانی پولیس کی رپورٹس پر اظہار تشویش کرتے ہوئے کہا ہے کہ حجاب پہننے کیلئے زبردستی پابند کیا جا رہا ہے، لگتا ہے ایرانی حکومت نے حالیہ احتجاج سے کچھ نہیں سیکھا۔" کسی بھی ملک کے اپنے قوانین اور روایات ہیں جیسے کہ امریکہ اور یورپ کے ہیں۔ وہاں ان کا اپنا لباس ہے وہ کم کپڑے پہنیں یا زیادہ، وہ جیسا بھی لباس پہنیں ایران یا کوئی بھی ملک انہیں پابند نہیں بناتا یا ان کے رہن سہن کو نشانہ بنانے کی سوچ نہیں رکھتا اسی طرح امریکہ یا دنیا کے کسی بھی ملک کو یہ حق اور اختیار نہیں ہے کہ وہ حجاب کے معاملے میں ایران پر تنقید کرے یا انہیں ایسے کسی بھی معاملے میں پابند بنانے کی کوشش کرے۔ یہ واضح طور پر ایران کے اندرونی معاملات میں مداخلت ہے۔ ایران کو ایرانی پولیس کا حجاب کے معاملے میں گشت تو نظر آ گیا لیکن حیران کن بات ہے کہ جدید اسلحہ سے لیس اسرائیلی فوج کا فلسطین میں اور بھارتی فوج کا کشمیر میں ظلم نظر نہیں آتا وہاں خواتین کی عصمت دری ہوتی ہے، اجتماعی زیادتی ہوتی ہے ، خواتین کو قید کیا جاتا ہے انہیں ان کے معصوم بچوں کے سامنے ظلم و بربریت کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن امریکہ خاموش رہتا ہے۔ کیا حجاب پہننا خواتین کی عزت کو تار تار کرنے سے بھی بڑا جرم ہے۔ یہ امریکہ اور یورپ کے نام نہاد انصاف کے منہ پر طمانچہ ہے۔ یہ وہ زناٹے دار تھپڑ ہے جس کی گونج برسوں سنائی دیتی رہے گی۔ امریکہ اور یورپی ممالک کے پاس اس دوہرے معیار کا کوئی جواب اور وضاحت نہیں ہو گی۔ گذشتہ دنوں گجرات کا قصائی، کشمیر کے لاکھوں مسلمانوں کے گھروں کو جیل میں بدلنے والا بھارت کا وزیراعظم نریندرا مودی امریکہ کے دورے پر جاتا ہے تو امریکی صدر جو بائیڈن اس کے ساتھ مل کر ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کرتے ہیں جس کا مقصد پاکستان کو نشانہ بنانا ہے۔ جو بائیڈن کو نریندرا مودی سے ملاقات کے وقت کشمیر میں ہونے والے ظلم و ستم کا خیال کیوں نہیں آیا۔ اگر وہ اتنے ہی انصاف پسند ہیں تو کشمیر میں بہنے والے خون پر خاموشی کیوں اختیار کی۔ اب تو معاملہ صرف کشمیر کا نہیں رہا بلکہ بھارت میں جس شدت کے ساتھ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں وہ طاقتور ممالک کے دوہرے معیار کو بے نقاب کر رہی ہیں۔ ایرانی میں حجاب کی سختی امریکہ کو پریشان ضرور کرتی ہے لیکن مظلوم انسانوں کا خون اور چیخیں ظالم کے ساتھیوں کو سنائی نہیں دیتیں۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی فرانس میں حجاب پہننے والی خواتین کی آزادی کا خیال کیوں نہیں رکھا جاتا۔ جب فرانس میں کوئی خاتون حجاب پہننے کی بات کرتی ہے تو قانون اسے کیوں روکتا ہے۔ کیا یہ پابندی خواتین کی آزادی کے خلاف نہیں وہاں تو باقاعدہ طور پر قانون سازی کر کے حجاب پہننے والی خواتین کو فٹبال کھیلنے سے بھی محروم کر دیا گیا۔ اگر ایران میں حجاب پہننے کی سختی ہے تو فرانس میں حجاب کا استعمال روکنے کے حوالے سے وہی رویہ اختیار کیا جاتا ہے۔ دوہرے معیار کی اس سے بڑی مثال کیا ہو گی۔ یاد رہے فرانس کے ایوان بالا نے اٹھارہ فروری 2022 کو ایک آئینی ترمیم کے ذریعے کھیل کے مقابلوں میں کسی بھی قسم کا مذہبی نشان پہن کر شرکت کرنے پر پابندی عائد کر دی تھی۔ اس آئینی ترمیم کے لیے یہ جواز اختیار کیا گیا تھا کہ کھیل کے میدان میں غیر جانبداری کا اظہار ضروری ہے۔ اس متنازع آئینی ترمیم کے حق میں ایک سو ساٹھ جب کہ مخالفت میں ایک سو تینتالیس ووٹ پڑے تھے۔ فرانس کا ایوان بالا تین سو اڑتالیس اراکین پر مشتمل ہے۔ کیا امریکہ کو یہ قانون نظر نہیں آتا کیا یہ خواتین کے ساتھ زبردستی نہیں ہے ۔ اس پابندی کے حوالے سے خاتون فٹ بالر اور سٹیزن الائنس کی شریک صدر فونے دیوارا نے کہا تھا وہ ہزاروں خواتین جو حجاب پہنتی ہیں فٹ بال کھیلتی ہیں۔ وہ پیچھے رہ گئی ہیں۔ حالانکہ فٹ بال کی بنیادی اقدار اتحاد اور ساتھ رہنے کی ہیں۔ہم سمجھنے سے قاصر ہیں کہ حجاب کیوں اتاریں۔ قانون میں ایسا کچھ نہیں کہ حجاب پہننا کھیلوں کی اقدار کے خلاف ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آتا کہ ہمیں حجاب اتارنے پر کیوں مجبور کیا جاتا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ حجاب پہننا ایک ذاتی چیز ہے۔ کسی کو بھی کوئی حق نہیں پہنچتا کہ ہمیں حجاب اتارنے کے لیے کہے۔"کیا امریکہ اور عالمی انصاف کے نام نہاد علمبرداروں کو یہ شدت پسندی نظر نہیں آتی۔ کیا کبھی امریکہ ایسے اقدامات کی مذمت کرتا ہے یا کبھی اس پر عالمی ضمیر جاگے گا۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ امریکہ ایران یا کسی بھی ملک کو ہدایات جاری کرنے اور تشویش کا اظہار کرنے سے پہلے اس ناانصافی پر توجہ دے۔
آخر میں خاموش غازی پوری کا کلام
عمر جلووں میں بسر ہو یہ ضروری تو نہیں
ہر شب غم کی سحر ہو یہ ضروری تو نہیں
چشم ساقی سے پیو یا لب ساغر سے پیو
بے خودی آٹھوں پہر ہو یہ ضروری تو نہیں
نیند تو درد کے بستر پہ بھی آ سکتی ہے
ان کی آغوش میں سر ہو یہ ضروری تو نہیں
شیخ کرتا تو ہے مسجد میں خدا کو سجدے
اس کے سجدوں میں اثر ہو یہ ضروری تو نہیں
سب کی نظروں میں ہو ساقی یہ ضروری ہے مگر
سب پہ ساقی کی نظر ہو یہ ضروری تو نہیں
مے کشی کے لیے خاموش بھری محفل میں
صرف خیام کا گھر ہو یہ ضروری تو نہیں