اسلام آباد(وقائع نگار)ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ہمایوں دلاور کی عدالت میں زیر سماعت عمران کے خلاف توشہ خانہ فوجداری کاروائی کیس میں دونوں گواہوں کے بیانات قلمبند کرلیے گئے۔ دوران سماعت چیئرمین پی ٹی آئی کی حاضری سے استثنی درخواست دائرکی گئی، جس پر الیکشن کمیشن کے وکلاءنے اعتراض اٹھا دیا۔ الیکشن کمیشن کے وکیل کی جانب سے چیئرمین پی ٹی آئی کے وکالت نامہ کی فہرست پڑھی، امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہاکہ جمع کیے گئے وکالت نامے میں ایک بھی ایک بھی چیئرمین پی ٹی آئی کا وکیل پیش نہیں ہوا۔عدالت نے کیس کی سماعت میں ایک بار پھر وقفہ کردیا، جس کے بعد سماعت شروع ہونے پر خواجہ حارث ایڈووکیٹ کی جانب سے ڈاکٹر یاسر عمان پیش ہوئے اور بتایاکہ خواجہ حارث12 بجے پیش ہوں گے۔خواجہ حارث نے مو¿قف اختیار کیاکہ چیئرمین پی ٹی آئی نے لاہور ہائیکورٹ پیش ہونا ہے،چیئرمین پی ٹی آئی کی حاضری سے استثنی کی درخواست دائر کی۔ جج نے کہاکہ توشہ خانہ کیس مزید استثنی کی درخواستوں پر نہیں چل سکتا،توشہ خانہ کیس میں شہادتیں ریکارڈ کروا لیں، عدالت کس بنیاد پر حاضری سے استثنی منظور کرے۔ خواجہ حارث ایڈووکیٹ نے کہاکہ چیئرمین پی ٹی آئی کی موجودگی میں شہادتیں ریکارڈ ہونی چاہیں،قانون کے مطابق بھی ملزم کی موجودگی میں ہی شہادتیں ریکارڈ ہوتی ہیں۔نمائندہ مقرر کرنے پر کوئی اعتراض نہیں لیکن ملزم کی غیرموجودگی میں ایساہو نہیں سکتا۔ خواجہ حارث ایڈووکیٹ نے کہاکہ میں قانون کی بات کر رہاہوں،عدالت کے جج نے کہاکہ ملزم صرف ایک بار عدالت میں پیش ہوئے ہیں، عدالت میں دوسرے کیسز بھی زیر سماعت ہیں،عدالت نے الیکشن کمیشن وکلاءکو ہدایت کی کہ آپ شہادتیں ریکارڈ کرائیں،میں خواجہ حارث کو نمائندہ مقرر کر رہا ہوں،اس موقع پر خواجہ حارث ایڈووکیٹ نے کہاکہ اس فیصلہ پر میرا اعتراض آپ لکھ لیں،عدالت کے جج نے کہاکہ پہلے گواہ کو عدالت میں پیش کریں، دوسرے گواہ کو کمرے سے باہر بھیج دیں،چیئرمین پی ٹی آئی کی استثنی کی درخواست منظور کررہاہوں، عدالت نے غیرمتعلقہ افراد کو کمرہ عدالت سے باہر نکال دیا، جس کے بعد الیکشن کمیشن کے پہلے گواہ وقاص ملک کا بیان قلمبند کرنے سے قبل حلف لیاگیا، گواہ وقاص ملک نے بیان قلمبند کراتے ہوئے کہاکہ 2022ءمیں بطور ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر تعینات ہوا،مجھے الیکشن کمیشن نے 7 نومبر 2022 کو بذریعہ خط کو اختیار دیا،کہ چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف الیکشن کمیشن کی شق 190 کے تحت شکایت درج کراو¿ں، الیکشن کمیشن کے گوشوارے بطور ثبوت عدالت میں جمع کرائے گئے ہیں،سپیکر قومی اسمبلی نے الیکشن کمیشن کو ریفرنس بھیجا،خواجہ حارث ایڈووکیٹ نے اعتراض اٹھاتے ہوئے کہاکہ شکایت کنندہ کو ریفرنس نہیں بھیجا گیا،گواہ وقاص ملک نے کہاکہ الیکشن کمیشن نے سپیکر قومی اسمبلی کے ریفرنس پر کارروائی کی اور چیئرمین پی ٹی آئی کونوٹس جاری کیا،چیئرمین پی ٹی آئی نے نوٹس کا جواب الیکشن کمیشن میں دائر کیا،اختیار ملنے پر چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف شکایت درج کروائی،چیئرمین پی ٹی آئی نے 2018,19,20 اور 2021 کے گوشواروں میں اثاثوں کی تفصیلات فراہم کیں، الیکشن کمیشن نے گوشوارے گزٹ نوٹیفیکشن میں بھی شائع کیے،اگست 2022ء کو سپیکر قومی اسمبلی نے ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھیجا،الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ایکشن لیا اور ملزم کو نوٹس جاری کیا، نوٹس کے جواب میں ملزم نے الیکشن کمیشن میں جواب جمع کروایا،عدالت کے جج نے امجد پرویز ایڈووکیٹ کو ہدایت کی کہ آٹھ ماہ سے انہیں پڑھا رہے، گواہ کو بولنے دیں،وکیل خواجہ حارث نے بیان ریکارڈ کروانے کے طریقہ کار پر دوبارہ اعتراض اٹھاتے ہوئے کہاکہ الیکشن کمیشن کے وکیل گواہ کو خود بیان پڑھا رہے ہیں،دوران سماعت وکیل خواجہ حارث کی جانب سے الیکشن کمیشن کے وکیل کی گواہ کی رہنمائی پر اعتراض اٹھایا گیا اور کہاگیا کہ گواہ کو اب نہیں بتانا چاہیے کہ اب کیا بولنا ہے،بار بار گواہ کو کہہ رہے ہیں کہ تم یہ کہنا بھول گئے ہو،امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہاکہ کیس دستاویزات پر مبنی ہے، گواہ اپنی رائے نہیں دے رہا،گواہ وقاص ملک نے کہاکہ چیئرمین پی ٹی آئی کا توشہ خانہ کا ریکارڈ 16 صفحات پر مشتمل ہے،اس موقع پر امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہاکہ چیئرمین پی ٹی آئی کا ریکارڈ 16 نہیں 116 صفحات پر مشتمل ہے، وکیل خواجہ حارث نے کہاکہ پہلے 16 صفحات کا کہہ رہے تھے، اب 116 صفحات کہہ رہے ، گواہ وقاص ملک نے کہاکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ملزم کے اکاونٹس کی تفصیلات اور کیبنٹ ڈویژن سے توشہ خانہ کی تفصیلات کیلئے خط لکھے گئے،خواجہ حارث ایڈووکیٹ نے اعتراض اٹھاتے ہوئے کہاکہ الیکشن کمیشن نے جو ریکارڈ منگوایا وقاص ملک کے ذریعے نہیں منگوایا گیا،اس موقع پر الیکشن کمیشن کے وکیل کی جانب اثاتوں سے متعلق ریکارڈ دستاویزات کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنانے کی استدعا کی گئی،جس پر خواجہ حارث ایڈووکیٹ نے اعتراض کرتے ہوئے کہاکہ اب دستاویزات کو حصہ نہیں بنایا جا سکتا، گواہ وقاص ملک نے کہاکہ ملزم نے 2018,19 میں الیکشن کمیشن میں بتایا کہ چار تحائف توشہ خانہ سے لیے، ملزم کی جانب سے 21.5 ملین سے زائد کا چالان جمع کروایا گیا،توشہ خانہ کی جانب سے تحائف کی مالیت کا اندازہ 107 ملین سے زائد تھا،ملزم کی جانب سے موقف اپنایا گیا کہ وہ تحائف 58 ملین میں 2018,19 میں فروخت بھی کر چکے ہیں،چیئرمین پی ٹی آئی کے جواب کے مطابق تحائف سے وصول شدہ رقم بینک الفلاح میں جمع کرائی۔ خواجہ حارث ایڈووکیٹ نے اعتراض اٹھاتے ہوئے کہاکہ گواہ کی جانب سے بتائے گئے ریکارڈ کا ٹرائل سے کوئی تعلق نہیں،گواہ وقاص ملک نے کہاکہ چیئرمین پی ٹی آئی کےجواب کے مطابق توشہ خانہ تحائف بیچ دیے جس کے باعث فارم بی پر رقم اسی سال2019ءمیں درج نہیں کی،دوران سماعت پی ٹی آئی وکلاء اور الیکشن کمیشن وکیل امجدپرویز میں تلخ کلامی ہوگئی،اس موقع پرجج ہمایوں دلاور نے خواجہ حارث اور امجدپرویز کے علاوہ دیگر وکلاءکو سیٹ پر بیٹھنے کی ہدایت کردی، گواہ وقاص ملک نے کہاکہ الیکشن کمیشن نے چیئرمین پی ٹی کے بیان کو توشہ خانہ ریکارڈ اور بینک سٹیٹمنٹ کے ساتھ موازنہ کیا،ریکارڈ سے معلوم ہوا چیئرمین پی ٹی آئی نے توشہ خانہ تحائف خریدنے کا آخری چالان 22 جنوری 2019 کو جمع کروایا۔خواجہ حارث ایڈووکیٹ نے پھر اعتراض اٹھایاکہ وکیل الیکشن کمیشن امجدپرویز گواہ کے منہ میں باتیں ڈال رہے ہیں۔ گواہ وقاص ملک نے کہاکہ حقائق سے معلوم ہوا، چیئرمین پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کے سامنے جھوٹ پر مبنی بیان دیا،گواہ وقاص ملک کا بیان جاری رہا اور عدالت کے جج ہمایوں دلاور نے سماعت میں وقفہ کردیا،اس موقع پر امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہاکہ خواجہ حارث ہمیں چائے پلائیں تو تیس منٹ کا وقفہ کردیں،جس پر عدالت کے جج نے ریمارکس دیے کہ ہم آپ کو یہیں چائے پلا دیتے ہیں،عدالت نے سماعت میں 30 منٹ کا وقفہ کردیا، جس کے بعد سماعت شروع ہونے پر الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز نے کہاکہ خواجہ حارث نے دوران وقفہ چائے آفر نہیں کی، جس پر عدالت کے جج ہمایوں دلاور نے کہامک اس ترازو کا ہم ابھی بیلنس کرلیتے ہیں، جس کے بعد گواہ وقاص ملک نے دوبارہ بیان قلمبند کرانا شروع کیا اور کہاکہ چیئرمین پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کوبتایاکہ توشہ خانہ سے2020-21میں5قیمتی تحائف لیے،چیئرمین پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کے فارم بی میں پانچوں تحائف کوبطورقیمتی تحائف ظاہرکیا،چیئرمین پی ٹی آئی نے تحائف کے نام اور تفصیلات الیکشن کمیشن کےفارم بی میں ظاہر نہیں کیں،چیئرمین پی ٹی آئی نے فارم بی میں ظاہر نہیں کیا کہ تحائف کی نوعیت کیاتھی،دوران سماعت جج ہمایوں دلاور نے الیکشن کمیشن کے وکیل امجدپرویز کوچائے منگوا دی۔ دوران پی ٹی آئی وکلاءکے بار بار بولنے پر جج ہمایوں دلاور نے برہمی کا اظہارِ کرتے ہوئے پی ٹی آئی وکلاءسے کہاکہ آپ عدالت کو کنڈکٹ نہ سکھائیں، اپنا رویہ دیکھیں،عدالت نے استفسار کیاکہ توشہ خانہ کیس کا دوسرا گواہ کدھر ہے؟ جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے بتایاکہ دوسرا گواہ عدالت کے باہرموجود ہے۔ عدالت نے توشہ خانہ کیس کے دوسرے گواہ کو کمرہ عدالت طلب کرلیا،جس پر توشہ خانہ کیس کے دوسرے گواہ ڈپٹی ڈائریکٹر کانفیڈینشل ای سی پی مصدق انور کمرہ عدالت پہنچ گئے، اس موقع پروکیل خواجہ حارث نے دوسرے گواہ مصدق انور کے عہدے پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہاکہ دوسرے گواہ کا عہدہ ہی دستاویزات میں تحریر نہیں،دستاویزات میں کانفیڈینشل کی بجائے ای سی پی فنانس ونگ لکھا ہواہے،گواہ مصدق انور نے بیان قلمبند کراتے ہوئے کہاکہ میں نے الیکشن کمیشن کی جانب سے چیئرمین پی ٹی آئی کےبینک اسٹیٹمنٹس کوجانچا،میں نے 231 صفحات پر مشتمل چیئرمین پی ٹی آئی کےبینک سٹیٹمنٹس کوجانچا، اس موقع پر وکیل خواجہ حارث نے اعتراض کیاکہ چیئرمین پی ٹی آئی کی موجودگی میں بینک سٹیٹمنٹس نہیں تشکیل دیں،گواہ مصدق انور نے کہاکہ میں چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سےدائر گوشواروں کی نگرانی کرتاہوں،میں نے چیئرمین پی ٹی آئی کے 2018-2019, 2019-2020 اور 2020-21 کے گوشواروں کی نگرانی کی،میں عدالت میں گوشواروں کے اصلی دستاویزات ہمراہ لایاہوں،توشہ خانہ کیس کے دوسرے گواہ مصدق انور کا بیان قلمبند ہوجانے پر عدالت کے جج نے کہاکہ جرح کریں آج ؟ میں تو کہتاہوں آج جرح کریں، جس پر خواجہ حارث ایڈووکیٹ نے کہاکہ پیر کو جرح کرلیں، ہم چاہتے ہیں تازہ دم ہو کر آئیں،اس موقع پر جج ہمایوں دلاور نے ٹائپسٹ کو دونوں گواہوں کے بیانات کا پرنٹ نکالنے کو کہا، جس پرٹائپسٹ نے گواہان کا بیان دینے کی بجائے کازلسٹ جج کو تھما دی،اس پر عدالت کے جج نے ٹائپسٹ پر برہمی کااظہار کرتے ہوئے کہاکہ بھائی میں نے گواہان کا پرنٹ مانگاہے، کاز لسٹ کیا کرنی ہے۔ چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث نے گواہوں کے بیانات کے ساتھ اپنے تمام اعتراضات بھی درج کرائے اور کہاکہ الیکشن کمیشن کے ہر وکیل نے بار بار گواہان کی رہنمائی کی، جس کے بعد وکیل الیکشن کمیشن امجدپرویز نے بھی اپنے اعتراضات عدالت میں درج کروائے اور کہاکہ توشہ خانہ کیس میں گواہوں نے اپنی مرضی سے بیانات قلمبند کروائے،گواہان پر کسی قسم کا دباو¿ نہیں تھا۔ادھر سول جج قدرت اللہ کی عدالت میں زیرسماعت چیئرمین پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی مبینہ غیر شرعی نکاح سے متعلق کیس میں استثنیٰ درخواستیں منظور کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر دلائل طلب کر لئے گئے۔ وکیل شیر افضل مروت کی جان سسے وکالت نامہ بھی جمع کرواے ہوئے کہا گیا کہ سیشن جج کے فیصلہ کو اسلام باد ہائیکورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے۔ ایک درخواست دائر کرنا چاہتاہوں ۔ عدت کیس بے بنیاد اور سیاسی مقاصد کیلئے بنایاگیا جس پر عدالت کے جج نے کہا کہ آپ درخواست دائر کر دیں نوٹس کے درخواست کا موقف جانا ضروری ہے۔ سماعت 24 جولائی تک کیلئے ملتوی کر دی گئی۔ انسداد دہشت گردی عدالت کے جج ابو الحسناب ذولقرنین کی عدالت میں زیرسماعت تھانہ سی ٹی ڈی میں درج توڑپھوڑ اور ہنگامہ آرائی کیس میں چیئرمین پی آئی کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظور کر لی۔اسلام آباد ہائیکورٹ نے توشہ خانہ فوجداری کیس قابل سماعت قرار دینے کے ٹرائل کورٹ فیصلہ کیخلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست پرسماعت کا تحریری حکمنامہ جاری کردیا۔چیف جسٹس عامر فاروق کی عدالت سے جاری حکم نامہ میں عدالت کاکہنا ہے کہ درخواست گزار کے وکیل نے دلائل میں کہا کہ یہ نظرثانی کا دوسرا راو¿نڈ ہے، پہلے مرحلے میں اس معزز عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست کو منظور کیا،درخواست گزار کے وکیل کے مطابق معزز عدالت نے آٹھ قانونی سوالات کیساتھ معاملہ واپس ٹرائل کورٹ کو بھجوایا،درخواست گزار کا موقف ہے کہ ٹرائل کورٹ نے اس عدالت کی طرف سے دیے گئے وقت سے پہلے ہی فیصلہ سنادیا۔
گواہ بیان
توشہ خانہ کیس ”عمران نے الیکشن کمشن کے سامنے جھوٹ بولا“ دو گواہوں کا بیان قلمبند
Jul 21, 2023