خالد بہزاد ہاشمی
سید سردار شاہ جن کی عمر 70 سال ہے۔ اسلام آباد میں مقیم ہیں اور نوائے وقت آفس کے نزدیک ان کا پرنٹنگ پریس ہے۔ ان کا گزشتہ روز بھی فون آیا اور وہ قبل ازیں بھی فون کر چکے تھے۔ اس گناہ گار کے اولیاءکرام پر آرٹیکلز کے حوالے سے بات اور پسندیدگی کا اظہار کیا کرتے ہیں۔ ان کا سوال تھا کہ آپ حضرت بابا فریدالدین گنج شکر اور حضرت محبوب الٰہی خواجہ نظام الدین اولیاءکے حوالے سے اتنا لکھتے ہیں مجھ یہ بتائیں کہ یہ جو حضرت بابا صاحب اور سلسلہ چشتیہ کے دیگر اولیا کرام کے عرس مبارک پر: ”اللہ محمد چار یار“ حاجی خواجہ قطب فرید کا نعرہ لگتا ہے۔ اس میں اللہ تبارک و تعالیٰ کے علاوہ پیارے نبی پاک اور چاروں خلفاءالمکرم کا تو معلوم ہوتا ہے۔ دوسرے نعرہ میں حاجی سے مراد کیا ہے؟ کیونکہ ”خواجہ“ سے مراد حضرت خواجہ غریب نواز معین الدین چشتی اجمیری، قطب حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی اور فرید حضرت بابا صاحب ہیں۔ سید سردار شاہ کا سوال اہم تھا۔ اس گناہ گار نے برادر محترم دیوان سید طاہر نظامی سجادہ نشین درگاہ حضرت محبوب الٰہی خواجہ نظام الدین اولیاءنئی دہلی سے رابطہ کیا تو انہوں نے فوراً اس کی وضاحت فرما دی کہ ”حاجی“ سے مراد حضرت بابا صاحب کے پڑدادا پیر حاجی شریف زندنی ہیں اور دیوان سید طاہر نظامی نے درگاہ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءپر نصب 1365ھ کا شجرہ حضرت محبوب الٰہی وٹس ایپ کیا جو 80 سال قبل مدراس کے سر محمد عثمان خادم خواجگان چشت نے پیرزادہ سید نثار علی نظامی کے ذریعے سے یہاں نصب کرایا تھا اس کے نیچے آخر میں دائیں جانب کندہ عبدالجبار اور بائیں جانب قطب روڈ دہلی درج ہے۔ برادر محترم دیوان سید طاہر نظامی اس طرح کی گتھیاں سلجھاتے رہتے ہیں۔ اس گناہ گار کے پاس کوئی وضاحت طلب روحانی مسئلہ آتا ہے تو انہی سے رجوع کرتا ہوں اور فوراً رہنمائی اور معلومات مل جایا کرتی ہیں۔ اس گناہ گار کو ”سفیر اولیائ“ کا لقب بھی تو انہی کا دیا ہوا ہے میں نے حضرت بابا صاحب کے پڑدادا پیر حضرت خواجہ حاجی شریف کی حیات مبارکہ کے بارے میں معلومات کے لئے اپنی ذاتی لائبریری خواجہ نظام الدین اولیاءسے رجوع کیا اور مختلف روحانی کتب سے ان کے بارے میں درج ذیل معلومات حاصل کیں جو نذر قارئین ہیں۔
حضرت خواجہ حاجی منیر الدین شریف زندنی اس قابل فخر والد کے صاحبزادے ہیں جنہیں دنیا حضرت خواجہ قطب الدین مودود چشتی کے نام سے جانتی ہے۔ زندنہ (بخارا) میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد محترم نے محض چھ سال کی عمر میں قرآن پاک حفظ کرنے کا شرف حاصل کر لیا۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ حضرت خواجہ حاجی منیرالدین شریف زندانی نے اپنے والد محترم سے خرقہ خلافت حاصل کیا جبکہ ان کے والد محترم حضرت خواجہ قطب الدین مودود چشتی نے اپنے والد محترم حضرت خواجہ ناصرالدین ابو یوسف چشتی سے خلافت حاصل کی اور وہ حضرت خواجہ محمد سمعان کے صاحبزادے تھے ان کا سلسلہ نسب حضرت امام زین العابدین سے ملتا ہے۔ حضرت خواجہ ناصر الدین نے بہت مختصر عرصہ میں قرآن پاک حفظ کیا۔ آپ کا مزار مبارک چشت میں ہے۔ آپ کے جانشین اور خلیفہ حضرت خواجہ قطب الدین مودود چشتی فاقہ کشی، مجاہدات و ریاضت میں زندگی بسر کرتے ان کا یہ قول بہت مشہور تھا کہ ”درویش کو فاقہ کشی سے کشائش حاصل ہوتی ہے“ آپ کے مشہور خلفاءکرام سے اولیاءکرام سے عقیدت رکھنے والے بخوبی آگاہ ہیں جن میں حضرت خواجہ حاجی شریف زندنی، حضرت شاہ سلمان، حضرت خواجہ عثمان رومی، حضرت خواجہ ابوالحسن، خرقانی، حضرت خواجہ حسن تبتی، حضرت خواجہ بدرالدین، حضرت خواجہ ابوالنصر شکیباں، حضرت خواجہ شیخ حسین، حضرت خواجہ سبزپوش اور حضرت خواجہ شام شامل ہیں۔
حضرت خواجہ حاجی شریف نے جب آنکھ کھولی تو خوش نصیبی اور خوش بختی یہ تھی کہ انہوں نے تصوف اور معرفت کے تمام ظاہر و باطنی علوم اپنے محترم والد حضرت خواجہ قطب الدین مودود چشتی کے سایہ عافیت میں حاصل کیے۔ انہیں دنیا کے شور و غوغا سے کوئی رغبت نہ تھی۔ تنہائی اور خلوت میں عبادت الٰہی میں مصروف رہتے اور 40 سال تک جنگل بیاباں میں زندگی گزاری اور عبادت و ریاضت اور مجاہدوں میں مصروف رہے۔ اس دوران فاقہ کشی میں درختوں کے پتے اور پھل کھا کر گزارا کر لیتے۔ ان کے روحانی کمالات کا یہ عالم کہ جو کوئی ان کا بچا ہوا کھا لیتا وہ مجذوب اور دنیا سے بے خبر ہو جاتا آپ کا چہرہ اتنا پرنور اور پرجلال تھا کہ لوگ انکی جانب دیکھنے سے اجتناب برتتے تمام زندگی دنیاوی آسائشوں اور لذتوں سے دور رہے یہی وجہ تھی کہ جب کوئی انہیں کوئی نقدی یا زر پیش کرتا تو آپ فرماتے ” بھئی آپ کو درویشوں سے کیا عداوت ہے کہ تم ان کے سامنے وہ چیز پیش کرتے ہو جو خدا کی دشمن ہے“۔
آپ کا وصال 6 رجب یا 6 شوال 584 ھجری کو ہوا۔ مزار مبارک ان کے وطن زندانہ (بخارا) اور شام میں ہونے کی روایات ہیں۔
سید سردار شاہ نے بتایا کہ ان کے جدامجد پیر سید حاجی شیخ احمد ولی تقریباً 6 سو سال قبل بغداد سے منڈی بہا¶الدین تشریف لائے تھے وہ مادر زاد ولی تھے وہ بغداد میں لکڑیاں چن کر لاتے اور ان کا لنگر جاری رہتا۔ وہ ان کی گیارہویں پشت سے ہیں۔ انہیں حضرت بابا فرید الدین گنج شکر سے بے حد عقیدت و انسیت تھی اور درگاہ پاکپتن شریف میں ان کے نام کا حجرہ بھی موجود تھا۔ ان کے والد پیر سید ولایت شاہ، تایا پیر سید شرف شاہ، چچا پیر ہدایت شاہ بھی حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر سے گہری عقیدت رکھتے تھے۔ سید سردار شاہ نے بتایا کہ ان کے خاندان میں چھ سو سال قبل جدِ امجد پیر سید حاجی شیخ احمد ولی کے دور سے یہ روایت چلی آرہی ہے کہ جب بھی خاندان میں کوئی بیٹا یا بیٹی پیدا ہوتی ہے تو اسے حضرت بابا فریدالدین گنج شکر کے نام نامی کی بڑے چمچے میں گڑ، گھی کی شیرنی سات مرتبہ کھلاتے ہیں اور اسے ”درود“ کی رسم کہتے ہیں۔ سید سردار شاہ نے اس گناہ گار سے اس رسم کی تحقیق کی استدعا کی تومیں نے دیوان سید احمد مسعود چشتی زیب سجادہ درگاہ حضرت بابا فرید الدین گنج شکر سے رابطہ کیا تو وہ حج پر گئے ہوئے تھے چنانچہ پاکپتن شریف برادر عزیز پیر امداد حسین سے دریافت کیا تو انہوں نے میجر (ر) جاوید نیازی کا نمبر دیا۔ میجر صاحب سے پرانی یاد اللہ ہے۔ آجکل اسلام آباد میں بچوں کے پاس مقیم ہیں درگاہ شریف کے حوالے سے تحقیق و جستجو کرتے رہتے ہیں کہنے لگے کہ ان کا مذہب یا شرع سے تو کوئی تعلق یا گنجائش نہیں ہا اپنے طور پر عقیدت میں اس طرح کی روایات چلی آرہی ہیں جنہیں کوئی ہاں منع نہیں کر سکتا۔ میجر جاوید نیازی کی بات درست بھی تھی۔ اس طرح کی روایات مختلف برگزیدہ ہستیوں کے حوالے سے صدیوں سے سینہ بہ سینہ چلی آرہی ہیں۔ آخر میں محترم سید سردار شاہ کا شکریہ جن کے حضرت بابا صاحب کے عرس مبارک کے موقع پر توجہ دلانے پر اس گناہ گار کو حضرت بابا صاحب کے پڑدادا پیر و مرشد حضرت خواجہ حاجی منیر الدین شریف زندنی کی حیات مبارکہ اور شہرہ آفاق نعرہ ”حاجی خواجہ قطب فرید میں ”حاجی“ کی وجہ¿ تسمیہ کے بارے میں لکھنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ اللہ تعالیٰ انہیں صحت و زندگی عطا کرے۔ آمین