مضاربت بیروزگاری کے خاتمے کا بہترین ذریعہ

Jul 21, 2023

مولا نا حافظ زبیر حسن

مولانا زبیر حسن


شریعت اسلامیہ نے حلال روزی کمانے کے جو طریقے جائز قرار دیئے ہیں ان میں سے ایک مضاربت بھی ہے۔ شریعت اسلامی میں مضاربت کا مفہوم یہ ہے کہ ایک شخص کا مال ہو اور دوسرا شخص محنت کرے اور منافع دونوں کے درمیان تقسیم ہو جائے لفظ مضاربت اصل میں لفظ ضرب سے بنا ہے جس کا معنی ہے سفر کرنا۔ چونکہ تجارتی معاملات میں عموماً سفر کرنا پڑتا ہے اس لیے اس کا نام مضاربت رکھ دیا گیا۔
مضاربت کا معاملہ عہد جاہلیت میں بھی جانا پہچانا تھا۔ اسلام نے اسے جاری رکھا کیونکہ اس طریقہ سے معاملات کو اچھے طریقے سے طے کیا جا سکتا ہے۔ اسلام ہمیشہ ہر کام میں اصلاح سے کام لیتا رہا ہے اگر کسی معاملہ میں برائی ہے تو اسلام نے اس سے منع کیا اور اگر تجارت کا کوئی طریقہ زمانہ اسلام سے پہلے جاری تھا تو اسلام نے صرف اس لیے اس معاملہ سے منع نہیں کیا کہ یہ زمانہ جاہلیت کا طریقہ تھا بلکہ اسلام نے ایسے معاملات کو اس طرح پرکھا کہ کیا لوگ اس سے برائی میں مبتلا تو نہیں ہو جائیں گے کیا اس طریقہ سے لوگوں کے درمیان معاملات کی خرابیاں تو پیدا نہیں ہوں گی۔ کیا یہ طریقہ احکام اسلام کے خلاف تو نہیں اگر اس قسم کی برائیاں اس معاملہ میں موجود نہ ہوں تو اسلام نے کھلے دل سے اس کی اجازت دی۔
معاملہ مضاربت یعنی ایک کا مال دوسرے کی محنت اور منافع دونوں میں تقسیم ہو جائے اس معاملہ کا ثبوت اجماع سے ملتا ہے درحقیقت مضاربت کے جائز ہونے پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے اور کسی نے بھی اس کی مخالفت نہیں کی پہلی مثال حضرت عمرؓ کے دو صاحبزادوں عبداللہ اور عبید اللہ کا واقعہ ہے۔ علامہ عبدالرحمن الجزیری نے کتاب الفقہ جلد دوم میں ایک واقعہ نقل کیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ عبداللہ اور ان کے بھائی عراقی فوج کے ساتھ روانہ ہوئے۔ ان دنوں حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ بصرہ کے گورنر تھے۔ یہ دونوں بھائی ان کے پاس ٹھہرے ابو موسیٰ اشعری نے ان سے کہا میں کچھ مال امیرالمو¿منین کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں تم یہ مال لے لو اور عراق سے مال تجارت خرید کر مدینہ میں جا کر فروخت کر دینا اور منافع تقسیم کر لینا۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا اور امیرالمو¿منین حضرت عمر ؓ نے اسے قبول کر لیا۔
اگر آج بھی ہمارے معاشرہ میں مضاربت عام ہو جائے تو پھر چھپا ہوا سرمایہ بھی گردش کرنے لگے گا اور بے روز گاری پر قابو پا یا جا سکے گا۔ اور وہ اس طرح کہ ہم اپنے معاشرے میں بہت سے لوگ دیکھ سکتے ہیں جن کے پاس تعلیم کا زیور ہے یا تجارتی تجربہ خوب ہے لیکن سرمائے کے نہ ہونے کی وجہ سے بے روزگاری میں مبتلا ہیں اب ایسے لوگ سامنے آئیں جن کے پاس پیسہ تو ہے لیکن ان کے پاس کام کرنے کا وقت نہیں یا انہیں تجربہ نہیں۔ تو پھر ایسے لوگ اپنا پیسہ باہر نکالیں اور کام کے کریں اور اس طرح منافع بھی ملے گا اور دوسرے مسلمان بھائی کی بے روزگاری بھی دور ہو جائے گی۔
لیکن اس معاملہءمضاربت کے بھی چند آداب اسلام نے مقرر کیے ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ایک آدمی صرف مال دے گا اور دوسرا آدمی صرف محنت کرے گا۔ اور دونوں آپس میں منافع طے کریں کہ کل منافع کا کتنا مالکِ مال کو ملے گا اور کتنا محنت کرنے والے کو۔ اب اگر کاروبار میں نقصان ہوا تو نقصان صرف مال کے مالک کا ہو گا۔ محنت کرنے والا نقصان کا ذمہ دار نہ ہو گا۔ اس لیے مضاربت کرنے کے لیے محنت کرنے والا بااعتماد اور دیانت دار ہونا چاہیے۔ اور منافع بھی اس طرح تقسیم کیا جائے گا کہ پہلے اصل مال کو الگ کر کے باقی جو بچے گا وہ منافع ہو گا۔ منافع کی تقسیم میں شریعت نے اس بات کی اجازت دی ہے کہ چاہے دونوں شخص آدھا آدھا منافع کر لیں اور چاہے مالک مال کم منافع اپنے لیے طے کرے اور زیادہ،محنت کرنے والے کے لیے یا کم طے کرے۔ یہ تو دونوں کی آپس میں رضا مندی سے پہلے ہی سے طے کرنا ہو گا۔
اب جو بات بتا رہا ہوں اسے غور سے سنئے گا۔ معاملہ مضاربت کے لیے بہت بڑی رقم یا بہت بڑے سرمایہ کی ضرورت نہیں اور نہ اس کے لیے کسی پگڑی یا بہت بڑے تجارتی ادارے کی ضرورت ہے آپ اپنی تنخواہ میں سے ہر ماہ کچھ بچا لیا کریں۔ جب ہزار دو ہزار جمع ہو جائیں تو دیکھئے آپ کے محلہ میں کوئی غریب بیوہ عورت رہتی ہے تو اسے یہ رقم دے دیجئے اور اس سے کہیں کہ وہ ایک سلائی مشین خریدلے اور کپڑے سینا شروع کر دے اور جتنا منافع ہو اس میں سے آدھا تمہارا آدھا میرا یا زیادہ منافع بیوہ کو دینا طے کر لیں اور کم اپنے لیے اسی طرح آپ نے کچھ رقم بچت کر کے جمع کر لی آپ اپنے احباب میں اپنے محلہ میں نگاہ ڈالیں اگر کوئی بے روزگار ہے یا عیالدار ہے گھریلو حالت بیچارے کی بہت گئی گزری ہے آپ اپنی رقم اسے دے دیں اور اسے کہیں کہ چھوٹی سی دکان ڈال لے اور جو منافع ہو گا۔ وہ آپس میں طے کر لیں آپ کی اصل رقم بھی محفوظ رہے گی اور منافع بھی ملتا رہے گا لیکن اب یہ کام آپ کا ہے کہ آپ کسی بااعتماد شخص کو تلاش کریں اور خوب چھان بین کر کے اسے رقم دیں۔ اور باقاعدہ قانونی طور پر رسید لیں کیونکہ ان تمام احتیاطی تدابیر کے اختیار کرنے کا حکم اللہ تعالیٰ نے سورہءبقرہ کے انتالیسویں رکوع میں دیا اور فرمایا کہ ایسے معاملات کو باقاعدہ لکھ لینا چاہیے اور دو گواہ بھی اس معاملہ پر لینے چاہئیں۔ اگر واقعی ہم اپنے معاملات کو اتنے عمدہ طریقوں سے انجام دیں خصوصاً اپنے معاشرے میں مضاربت کو رائج کریں تو ایک طرف سرمایہ بے کار پڑا نہیں رہے گا۔ دوسری طرف ہمیں بچت کی عادت پڑے گی اور سب سے بڑا کارنامہ یہ ہو گا کہ مضاربت کے ذریعہ بے روزگاری پر قابو پایا جا سکے گا۔
اللہ تعالیٰ ہمیں حلال روزی کمانے اور اس پر قناعت کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

مزیدخبریں