سپریم جوڈیشل کونسل کا امرت دھارا

اچھا کام برے وقت پر کرنا کوئی سپریم جوڈیشل کونسل سے سیکھے۔ سپریم کا لفظ اگر ہٹاکر گورنمنٹ جوڈیشل کونسل رکھ دیا جائے تو یہ کونسل  سچ میں اسم با مسمیٰ بن سکتی ہے کیونکہ حکومت وقت اپنے وزیر قانون اور اٹارنی جنرل اور دیگر ہم خیال ارکان کے ذریعے جوڈیشل کونسل سے پسند کے فیصلے کرانے میں کامیاب رہتی ہے۔ سنیارٹی کے نظر انداز کرکے لاہور ہائی کورٹ میں چیف جسٹس کی تعیناتی کے بعد جوڈیشل کونسل پر وکلا تنظیمیں پہلے ہی تنقید کے نشتر برسا رہی تھیں کہ جوڈیشل کونسل کو خیال آیا کہ سپریم کورٹ میں کیسز بہت زیادہ ہیں، ججوں کی تعداد بڑھانی ہے کیوں نہ ریٹائرمنٹ کے بعد گھروں میں جا بسنے والے چار جسٹس صاحبان کو ایڈہاک جج بنا دیا جائے۔ چار ججوں کا نام بھی پبلک کر دیا گیا جن میں سے دو نے اس بھاری پتھر کو اٹھانے سے انکار کر دیا۔ چنانچہ کونسل نے جسٹس ریٹائرڈ سردار طارق مسعود اور جسٹس ریٹائرڈ مظہر عالم کی سپریم کورٹ میں بطور ایڈہاک جج تعیناتی کی منظوری دے دی۔ یہ منظوری ایسے وقت میں دی گئی جب سپریم کورٹ کے 13 رکنی بنچ نے اکثریتی رائے سے ایک بڑا آئینی فیصلہ سنایا ہے جو حکومت کو خوشگوار نہیں لگ رہا۔ تحریک انصاف کو اسمبلیوں میں مخصوص نشستیں دینے کیلئے 13 میں سے 8 جج متفق نظر آئے۔ اللہ نہ کرے سپریم کورٹ میں کوئی تقسیم ہو مگر باریک بیں بہت کچھ دیکھ رہے ہیں۔ مخصوص نشستوں کے مقدمے کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے 13 رکنی بینچ میں واضح تقسیم نظر آئی ہے۔ دورانِ سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے مؤقف کی حمایت کرنے والے ججز آئین اور قانون کے مطابق اس اپیل کا فیصلہ کرنے کے حق میں نظر آئے جبکہ دوسری جانب کچھ ججز کا موقف رہا کہ لوگوں کو معلوم ہے کہ انھوں نے 8 فروری کو ہونے والے انتخابات میں کس جماعت کو ووٹ دیا ہے لہذا مخصوص نشستیں متناسب نمائندگی کے اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے اسی جماعت کو ملنی چاہئیں۔ ویسے یہ کوئی آخری سیاسی اور آئینی مقدمہ نہیں تھا۔ حکومت کو حکومت میں رہنے اور اپنی پگ میں مایا رکھنے کیلئے ابھی بہت سے معاملات مقدس سپریم کورٹ کے سامنے رکھنے ہیں اور ریلیف لینے کی کوشش کرنی ہے۔ پی ٹی آئی پر پابندی کا ریفرنس بھی خارج از امکان نہیں جنہیں ایڈہاک جج بھی سن سکتے ہیں۔ ریٹائرڈ ججوں کی نامزدگی سے یہ تاثر ابھرا کہ حکومت سپریم کورٹ میں "سریلی" آوازوں کو بڑھانا چاہتی ہے۔ دوسری جانب سابق وزیر اعظم عمران خان کی جماعت کی طرف سے ان نامزدگیوں پر تحفظات ظاہر کیے گئے تھے۔ عوامی جذبات آج کا سب سے خطرناک ہتھیار ہے جو سوشل میڈیا کے ذریعے پھلتا پھولتا اور اپنی راہیں بناتا ہے۔ سوشل میڈیا پر تنقید سے طاقتور اداروں میں بھونچال سا آیا رہتا ہے۔  اس بھونچال کے باعث دو ریٹائرڈ جسٹس صاحبان مشیر عالم اور مقبول باقر نے اس تعیناتی سے معذرت کی۔ جسٹس ریٹائرڈ مشیر عالم نے جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کو لکھے گئے اپنے خط میں کہا تھا کہ ’اللہ نے مجھے میری حیثیت سے زیادہ عزت دی، ایڈہاک ججز نامزدگی کے بعد سوشل میڈیا پر جو مہم شروع کی گئی اس سے شدید مایوسی ہوئی ہے۔ موجودہ حالات میں بطور ایڈہاک جج کام کرنے سے معذرت چاہتا ہوں۔ بہر حال چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی زیر صدارت جوڈیشل کمیشن کے اجلاس ہوا تو ایک سال کے لیے جسٹس ریٹائرڈ سردار طارق مسعود اور جسٹس ریٹائرڈ مظہر عالم میاں خیل کو سپریم کورٹ میں ایڈہاک جج تعینات کرنے کی منظوری دی گئی۔ دورانِ اجلاس چاروں ناموں میں کسی نام پر اعتراض سامنے نہیں آیا۔ تاہم جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ ’سب نام معتبر مگر ایڈ ہاک ججز کی تقرری اصولاً نہیں ہونی چاہیے۔ باقی آٹھ ممبران کا کہنا تھا کہ ایڈہاک جج ہونے چاہییں۔ آئین کے آرٹیکل 182 کے تحت چیف جسٹس کمیشن سے مشاورت اور صدر مملکت کی منظوری کے بعد ججز سے ایڈہاک ذمہ داریوں کی باضابطہ درخواست کریں گے۔ دوسری طرف وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ایڈہاک ججز کی تعیناتی کا دفاع کرتے ہوئے اسے آئینی اقدام قرار دیا ہے۔ اقدام آئینی ہی ہوگا مگر راقم کی رائے یہ ہے کہ آئینی اقدام کیلئے وقت مناسب نہیں چنا گیا۔ سابق جج شائق عثمانی کی رائے میں بھی وزن ہے کہ ایڈہاک ججز کی تعیناتی پاکستان کی عدالتی تاریخ کا حصہ ہے مگر چونکہ ملک میں سیاسی درجہ حرارت زیادہ ہے تو اس وجہ سے یہ معاملہ ایک تنازع کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ سپریم کورٹ میں کسی جج کی تعیناتی ایڈہاک بنیادوں پر ہوئی ہے۔ سپریم کورٹ کی ویب سائٹ کے مطابق سنہ 1955 سے سنہ 2016 تک مجموعی طور پر 22 ججز کو سپریم کورٹ میں بطور ایڈہاک جج تعینات کیا گیا ہے تاہم کچھ عرصے کے لیے یہ سلسلہ بند رہا ہے۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان کھلم کھلا کہتے ہی  کہ 2015 سے سپریم کورٹ میں کسی ایڈہاک جج کی تقرری نہیں کی گئی اور یہ کہ ایڈہاک ججز کت آنے سے کیسز کا بوجھ کم نہیں ہو گا بلکہ خدشہ ہے اس اقدام کا تعلق پی ٹی آئی کی مخصوص نشستوں کے مقدمے کے فیصلے سے ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف نے ایڈہاک ججز کی تعیناتی کی مخالفت کرتے ہوئے اس معاملے پر سپریم جوڈیشل کونسل جانے کا اعلان بھی کیا ہے۔ سینیٹ میں قائد حزب اختلاف شبلی فراز نے چیف جسٹس آف پاکستان کے نام لکھے گئے خط میں ان تقرریوں کو مسترد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ خط میں شبلی فراز نے کہا ہے کہ ایڈہاک ججز کی تقرری سے ’یہی تاثر جاتا ہے کہ یہ سب ایک جماعت کے لیے کیا جا رہا ہے اور ایڈہاک ججز کی تقرری سے یہ تاثر نہیں جانا چاہیے کہ یہ عدلیہ میں ایک جماعت کے خلاف آرا کو بیلنس کرنے کی کوشش ہے۔ انھوں نے لکھا  کہ مستقل ججز کی تقرری کے بعد زیر التوا مقدمات کو وجوہ بنا کر ایڈہاک ججز کی تقرری نہیں ہو سکتی۔ شبلی فراز نے کہا کہ ایڈہاک ججز تقرری کی تجویز اسی دن آئی جب سپریم کورٹ نے 5-8 سے پی ٹی آئی کے حق میں فیصلہ دیا۔ خط میں شبلی فراز نے دعویٰ کیا کہ جوڈیشل کمیشن کی مشاورت کے بغیر ہی ججز کی سلیکشن کی گئی اور یہ کہ سپریم کورٹ میں سویلین کا ملٹری ٹرائل، آٹھ فروری الیکشن کیس اور حال ہی میں پی ٹی آئی پر پابندی کے معاملات زیر التوا ہیں۔ ’ایسی صورت حال ہی میں ریٹائرڈ ججز کی تقرری سے سنجیدہ اور جائز خدشات جنم لینے لگے ہیں۔ سیاست اپنی جگہ اور جوڈیشل کونسل اپنی جگہ۔ عام آدمی معزز جوڈیشل کونسل سے ایک سوال کر سکتا ہے کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ عدالتوں میں کیسز کی بھرمار ہے۔ کیسز نبٹانے کیلئے تازہ دم جج لگانے کیلئے کیا امر مانع ہے۔ معزز جوڈیشل کونسل یہ بھی تو دیکھے کہ لاہور ہائیکورٹ میں 50 آسامیاں ہیں لیکن صرف 36 ججز کام کر رہے ہیں۔ اسلام آباد ہائیکورٹ میں بھی دس ججوں کی جگہ اس وقت آٹھ ججز کام کر رہے ہیں۔  جوڈیشل کونسل نے جو امرت دھارا سپریم کورٹ کیلئے سوچا ہے، ہائیکورٹس کے لیے کیوں نہیں سوچا؟ عام آدمی کو سوال کا جواب نہ ملا تو وہ سپریم جوڈیشل کونسل کو گورنمنٹ جوڈیشل کونسل ہی سمجھے گا۔ ٹائمنگ اور مس ٹائمنگ کو سپریم جوڈیشل کونسل سمجھے یا نہ سمجھے، عام آدمی کو اس کا پورا ادراک ہے۔ جوش ملیح آبادی کا کہا یاد آ رہا ہے کہ:
فغاں کہ مجھ غریب کو حیات کا یہ حکم ہے 
سمجھ ہر  ایک راز  کو مگر  فریب  کھائے جا

ای پیپر دی نیشن