آج کے کالم کا آغاز ایک ایسے واقعہ سے کرنے جا رہا ہوں شاید اس کو پڑھ کر حکمرانوں اور عوام کی سوچ میں تبدیلی آجائے یقین جانیے کے اس وقت ملک کے حالات ایسے وقت سے گزر رہے ہیں جن کو دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے مگر افسوس کہ نہ تو حکمرانوں کو خیال آتا ہے اور نہ ہی اس مافیا کو خیال آتا ہے جو ان حکمرانوں کے ساتھ مل کر غریب عوام پر ظلم ڈھا رہا ہے۔ جن کی وجہ سے پورے معاشرے کا سکون برباد ہو کر رہ گیا ہے ہر کوئی بے سکونی کے عالم میں اپنی زندگی کے دن پورے کر رہا ہے مگر حکمران اس جانب کوئی توجہ نہیں دیتے ایسے حالات میں کہتے ہیں کہ اس وقت تک ماں بھی اپنے بچے کو دودھ نہیں پلاتی جب تک وہ روتا نہیں یہی حال اس وقت حکمرانوں اور عوام کا ہو چکا ہے حکمرانوں نے ظلم پر ظلم کرنے کی انتہا کر دی ہے اور عوام چپ چاپ ظلم سہنے کے عادی ہو چکے ہیں عوام اپنا حق حاصل کرنے کا طریقہ بھول چکے ہیں اور حکمران ظلم پر ظلم کرتے جا رہے ہیں ذرا تھوڑا سا یہاں پر غور کریں اور دیکھیں کہ آئے دن بڑھتی ہوئی مہنگائی جو اس وقت حکمرانوں کے تمام تر ظلموں کا بہت بڑا ہتھیار بنا ہوا ہے بجلی کے بلوں کی مد میں بیچارے غریبوں کا سکون برباد کرنے کا ظلم اس وقت آسمان کی بلندیوں کو چھو رہا ہے جس پر ہم لا تعداد کالم تحریر کر چکے ہیں مگر حکومت اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہیں ہو رہی
اب آتے ہیں اس واقعے کی طرف جس کا میں نے شروع میں ذکر کیا ہے۔
یہ واقعہ کچھ اس طرح سے ہے کہ جب محمد بن عروہ یمن کے گورنر بن کر شہر میں داخل ہوئے تو لوگ ان کے استقبال کے لیے کثیر تعداد میں اس امید سے جمع ہوئے کہ گورنر ایک لمبی چوڑی تقریر کرے گا اس موقع پر آپ نے صرف ایک جملہ کہا اور اپنی تقریر تمام کر دی لوگوں جس اونٹ پر میں سوار ہوں یہ میری ملکیتی سواری ہے اس سے زیادہ اگر میں لے کر واپس پلٹا تو مجھے چور سمجھا جائے یاد رہے کہ یہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ کا سنہری دور تھا محمد بن عروہ نے یمن کو خوشحالی کا مرکز بنا دیا تھا جس دن وہ اپنی گورنری کا عرصہ پورا کر کے واپس پلٹ رہا تھا تو لوگ ان کے فراق میں رو رہے تھے لوگوں کا ایک ہجوم موجود تھا اور انہیں امید تھی کہ اب وہ لمبی چوڑی تقریر کریں گے مگر انہوں نے صرف ایک جملہ کہا کہ لوگوں یہ سواری میری ملکیت تھی اب میں واپس جا رہا ہوں اس کے سوا میرے پاس کچھ نہیں ہے یہاں پر میں صرف یہی کہوں گا کہ پاکستانیوں اپنے چوروں کو پہچانو جو باری باری اس ملک کو نوچ نوچ کر کھا رہے ہیں اب بھی وقت ہے اپنے خیر خواہ ہوں کو پہچانو اور ان کا ساتھ دو تاکہ اس ملک میں غریب بھی سکون کا سانس لے سکے۔
اس بات پر بھی غور کرنا اور سوچنا کہ اس وقت ہم کہاں کھڑے ہیں اور دنیا ہمارے بارے میں کیا کہتی ہے کہ حاجیوں کی تعداد میں پاکستان دوسرے نمبر پر ہے جبکہ دنیا کے ایماندار ملکوں میں 160 ویں نمبر پر آتا ہے اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ جس دن ہم دنیا میں ایماندار ملکوں میں ایک نمبر پر آجائیں گے تو تب جا کر یہ سب کچھ خود بخود ہی ٹھیک ہو جائے گا سکون بھی بحال ہو جائے گا اور پریشانیاں بھی ختم ہو جائیں گی مہنگائی بھی ختم ہو جائے گی مگر سب سے پہلے اپنے آپ کو ایماندار ملکوں میں ایک نمبر پر لائیں