درخت کے تمام پتے جڑ چکے تھے ، ٹہنیاں سوکھ چکی تھیں- اگرچہ تنا جس پر وہ درخت کھڑا تھا بظاہر اتنا بیمار دکھائی نہیں دے رہا تھا ، مگر اندر سے اسے دیمک چاٹ چکی تھی اور اب یہ ایک کھوکھلا درخت تھا - اس کی جڑوں نے جتنی زمین پر قبضہ کر رکھا تھا وہ قبضہ چھوڑ دیا تھا ، جس کا اندازہ اس کے گرد اگنے والے درختوں سے ہو رہا تھا ، کیونکہ کسی بھی درخت کی جڑوں کا جہاں تک پھیلاؤ ہوتا ہے وہ کسی دوسرے درخت کو نہیں اگنے دیتا - اس ڈر سے کہ اسے اپنے حصّے کی روشنی ، ہوا پانی شئیر کرنا پڑے گا ، اور پھر وہ کمزور پڑ جائے گا - اس درخت کی اب ایسی حالت تھی کہ اگر اس کے گرد گوڈی کر کے روزانہ کئی گیلن پانی دیا جاتا اور اس پر کئی بارشیں بھی برس جاتیں، اس سوکھے درخت کو ہرا نہیں کر سکتی تھیں - اس سب کچھ کے باوجود فیض بابا اس کے گرد مٹی نرم کر کے کئی دنوں سے خوب پانی دے رہا تھا اور درخت کی خدمت میں مصروف تھا - یہ بات دیکھنے والوں کے لئے حیران کن تھی ، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ نہ تو یہ کوئی مقدس درخت ہے ، جس طرح بعض درخت کچھ مذاہب میں مقدس ہوتے ہیں اور نہ ہی فیض بابا درختوں کی خصوصیات سے واقف تھا کہ یہ زمین پر آکسیجن کا تناسب بگڑنے نہیں دیتے - دن کے وقت یہ کاربن ڈائی آکسائڈ گیس جذب کر کے آکسیجن پیدا کرتے ہیں اور رات کو یہ عمل الٹا ہو جاتا ہے ، اس لئے وہ اسے فیض بابا کی حماقت اور کم عقلی سمجھ رہے تھے - درختوں سے جڑی دوسری کہانی گھمن بابا کی جو میرے گاؤں سے تقریباً دو میل کے فاصلے پر ایک دوسرے گاؤں میں رہتا تھا - گھمن بابا کی زندگی کا بھی ایک پہلو ایسا تھا جو سب سے ڈھکا چھپا تھا - جس گاؤں میں وہ رہ رہا تھا کسی کو بھی معلوم نہیں تھا وہ کہاں سے آیا تھا - ایک گھر نے اْسے پناہ دی اور وہ وہاں رہنے لگا دیکھنے میں وہ ستر پچھتر سال کا ایک نارمل انسان تھا ، مگر اس کے اندر کوئی ایسی کہانی دفن تھی جس کو وہ بتا نہیں سکتا تھا - دو تین ماہ بعد وہ میرے گاؤں کا چکر بھی ضرور لگاتا ، بولتا بولتا گاؤں میں داخل ہوتا جو درخت دیکھتا اسے گلے لگاتا درختوں سے باتیں کرتا اور پھر کچھ سمجھانے کی کوشش کرتا - جب اس کی باتوں کو کوئی بھی سمجھ نہ سکتا تو بے بسی کی لکیریں اس کے چہرے پر ڈھیرے ڈال لیتیں پھر وہ اپنی بے بسی پر رونے لگتا - کئی سال یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا پھر وہ اچانک غائب ہو گیا - جس گاؤں میں وہ رہ رہا تھا وہاں سے کہیں چلا گیا ، مگر اپنے پیچھے بہت سے سوال چھوڑ گیا جن کا جواب ملنا مشکل تھا کیونکہ تصدیق کرنے والا کوئی نہیں تھا - اگرچہ ہم انسانوں کے لئے دوسروں کے معاملات کو کریدنا سب سے بہترین مشغلہ ہے اس لئے نہیں کہ ہم دوسروں کیلئے فکر مند ہوتے ہیں بلکہ یہ تشویش زیادہ تر خود کو مطمئن کرنے کے لئے ہوتی ہے - کہانی چاہے کتنے ہی پردوں میں ہو ہم اطمینان پر کہانی کا End چاہتے ہیں - فیض بابا اور گھمن بابا کے عمل کے پیچھے مشاہداتی طور پر کوئی گہری سوچ کارفرما تھی - وہ کیا سوچ تھی ؟ وہ کونسی امید اور یقین تھا ؟ جو ان سے یہ عمل کروا رہا تھا - کسی نے پوچھنے کی کوشش نہ کی - کسی نے یہ جاننے کی کوشش نہ کی کہ وہ کون سے محرکات ہوتے ہیں جب انسانی احساسات حساسیت کے اس لیول پر پہنچ جائیں کہ وہ مردہ اور بے جان جسموں سے بھی کوئی امید وابستہ کر لیں - امید کا تعلق یقین سے ہوتا ہے ، ایسے یقین سے جس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی - شک جونہی یقین کی دہلیز پر قدم رکھتا ہے ہمارے قدم ڈگمگانے لگتے ہیں ، اور امید کو یقین میں بدلنے کے لئے ہم نے جو ایک لمبا سفر طے کیا ہوتا ہے ، جو خود سے commitment کی ہوتی ہے شک اسے کمزور کر دیتا ہے - یقین اگر پختہ ہو تو ہر طرح کے شک ، وسوسوں ، نااْمیدی اور مایوسی سے آزاد کر دیتا ہے - انسان کو بھٹکنے نہیں دیتا اسے کمٹمنٹ پر مرکوز رکھتا ہے - ہم اپنے بے شمار گناہوں ، خامیوں اور پچھتاؤوں سمیت اپنے ساتھ جو رشتہ نبھا رہے ہوتے ہیں یہ بھی ہماری خود کے ساتھ کمٹمنٹ ہوتی ہے کہ ہم نے ہر حال میں خود کو برداشت کرنا ہے - اسی لئے اگرچہ ہم ہر روز اپنے اعمال کے ذریعے خود کے سامنے بے نقاب ہوتے رہتے ہیں مگر خود کو کوئی سزا نہیں دیتے اپنے ساتھ کمٹمنٹ کو نہیں توڑتے - اپنے معاملے میں ہم جتنے ثابت قدم ہیں اتنے ہی دوسروں کے معاملے میں دوہرے معیار سے کام لیتے ہیں - وائٹ ہاؤس امریکی صدر کی رہائش گاہ سے ایک وزیر ایک سابق امریکی فوجی جرنیل کے پاس امریکی صدر کا پیغام لے کر آتا ہے کہ صدر نے کل آپ کو وائٹ ہاؤس میں مدعو کیا ہے فوجی جرنیل یہ کہہ کر جانے سے انکار کر دیتا ہے کہ میں نے اپنی پوتی سے کمٹمنٹ کر رکھی ہے کہ کل میں اسے چڑیا گھر کی سیر کراؤں گا - وزیر حیران ہو کر کہتا ہے کہ آپ کو امریکی صدر نے ملاقات کے لئے بلایا ہے اور آپ اپنی پوتی کو صدر سے ملاقات پر فوقیت دے رہے ہیں تو فوجی جرنیل جواب دیتا ہے کہ وائٹ ہاؤس میں روزانہ بے شمار لوگ صدر سے ملنے آتے ہیں جو کچھ ٹائم بعد صدر کو یاد بھی نہ رہتا ہو گا کہ کون ملا تھا، اور میں اپنی پوتی کو چڑیا گھر کی جو سیر کراؤں گا وہ اسے عمر بھر یاد رہے گی - جب ہم کمٹمنٹ چھوڑ کر خود کو ترجیحات بدلنے کی آزادی دے دیتے ہیں - یو ٹرن لے لیتے ہیں - ایک کو دوسرے پر فوقیت دینے لگتے ہیں - اپنے اختیارات کا اپنے اوپر غلط استعمال کرنے لگتے ہیں تو کبھی بھی اپنا تشخص قائم نہیں کر پاتے - اگر ہم اپنی ہر بات کی حرمت کا احساس کر کے اور اپنی ہر بات کو آئینی حیثیت دے کر اس کی پاسداری اپنے اوپر فرض کر لیں تو ہم ایک مضبوط شخصیت کے مالک بن سکتے ہیں - اگر ہم اپنی زندگی کو چلانے کے لئے بھی ملکی آئین کی طرح ایک آئین بنا لیں کیونکہ زندگی بھی ایک مملکت کی طرح ہوتی ہے اور ہم اس مملکت کے مالک ہیں اس مملکت کو چلانے کے لئے بھی ایک آئین کی ضرورت ہوتی ہے - ایک ایسے آئین کی جو لچکدار نہ ہو یعنی جس میں ترمیم نہ کی جا سکے - جس میں انسان کے مقام کا تعین کر دیا جائے اور اس مقام کی بنیاد ایسے اصولوں اور ضابطوں پر رکھی جائے جو اسے انسانیت کی معراج پر پہنچا دے - اصولوں ، ضابطوں ، قاعدے قوانین کی ایک مضبوط باڑ زندگی کی تمام سرحدوں کا تعین کر کے ان کے گرد لگا دی جائے تاکہ جھوٹ ، فریب ، دھوکہ دہی ، منافقت ، نا انصافی جیسی تمام برائیاں اس مملکت میں داخل نہ ہو سکیں - زندگی کے آئین کی پاسداری ہم سب پر لازم ہو - اس کی کسی بھی شق پر عمل نہ کرنے کی صورت میں ہمارے لئے سزائیں مقرر ہوں - ضمیر کی عدالتوں کا نظام قائم ہو - جزا اور سزا کے لئے ضمیر کی عدالت کے کٹہرے میں کھڑے ہو کر ہمیں اپنا مقدمہ لڑنے اور اپنی صفائی پیش کرنے کا پورا موقع حاصل ہو - اگر ہم مجرم ٹھہریں تو اس عدالت کو ہمیں سزا دینے کا پورا اختیار ہو ، تاکہ ہم اپنی حد سے تجاوز نہ کر سکیں - ہمیں اس آئین کو دل ودماغ ، سوچ سمجھ ، عقل و فہم کی مکمل منظوری سے پاس کرا کر ، اس پر عمل کی پوری گارنٹی کے ساتھ اپنے اوپر لاگو کرنا ہو گا - کیونکہ ایک دائرے کے اندر رہ کر ہی جینے کا نام زندگی ہے ، جونہی ہم دائرے سے باہر نکلتے ہیں انسانیت کے درجے سے فارغ ہو جاتے ہیں -