ٹیکس پالیسی اور عام شہری 

Jul 21, 2024

مریم صدیقہ

قومی معیشت کے عدم استحکام کے باعث موجود صورت حال میں حکومت کو آمدنی میں کمی کا سامنا ہے جس کے لئے ریونیو میں اضافہ بہت ضروری ہے، فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی آمدنی کا 94 فیصد حصہ قرض کی ادائیگی کے لیے مختص کیا جاتا ہے۔ اس کے باوجود ہر سال ہماری عوام کو  آئی ایم ایف کا مقروض ہونا پڑتا ہے ، ادارے اپنا ہدف غریب عوام کی جیب سے پورا کرتے ہیں۔ماہر معاشیات ڈاکٹر اشفاق ایچ خان کے مطابق آئی ایم ایف نے اپنی شرائط میں واضح کیا کہ اگر پاکستان نئی قرضہ سکیم پروگرام میں شامل ہونا چاہتا ہے تو اسے ہماری شرائط تسلیم کرنا ہوں گی۔زیادہ ٹیکس اور کم آمدنی سے متعلق ماہر اقتصادیات آرتھر لافر اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ ٹیکس کی شرح  میں ایک خاص نقطہ سے زیادہ اضافہ آمدنی پیدا کرنے میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔ زیادہ ٹیکس لگانے کی وجہ سے مختلف شعبوں سے محصولات کی وصولی میں کمی آنا ممکن ہے۔دوسری جانب مختلف شعبہء  ہائے زندگی سے وابستہ حلقوں کی رائے ہے کہ ٹیکس دہندگان کے اربوں روپے بچانے کے لیے اداروں کو  ختم یا انضمام کرنا اس کا ایک حل ہوسکتا ہے۔جیسے کہ ہاؤسنگ اربن ڈویلپمنٹ اینڈ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ، راولپنڈی ڈیولپمنٹ اتھارٹی آر ڈی آر،لوکل گورنمنٹ اینڈ کمیونٹی ڈیولپمنٹ کو ضم کرکے اربوں روپے بچائے جا سکتے ہیں۔اسی طرح پنجاب فوڈ اتھارٹی ،انوائرمنٹ پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ ،پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کیئر ڈیپارٹمنٹ پنجاب ،سپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر اینڈ میڈیکل ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ ،ڈائریکٹوریٹ جنرل ہیلتھ سروسز پنجاب اور ان سے جڑے دیگر اداروں کو ایک دوسرے میں ضم کرنے سے مطلوبہ ہدف پورا کیا جاسکتا ہے، کیوں کہ ان سب  کا کام صحت سے جڑے امور کی انجام دہی ہے ،اداروں کی کارکردگی مزید بہتر بنانے کے لیے ون ونڈو نظام کو رائج کرنے سے مزید آسانیاں پیدا کی جاسکتی ہیں۔اس کے ساتھ  کاروبار اور توانائی، ثقافت، میڈیا،کھیل، اور ٹرانسپورٹ کو ملا کر ایک نئی سپر منسٹری بنائی جاسکتی ہے۔

ہمیں اپنے بنیادی ڈھانچے پر نظر ثانی کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے ،تاکہ اندازہ لگایا جاسکے کہ اضافی محکموں کو بنا کر اضافی بوجھ کیوں کر خود پر لادا گیا ،جس کا خمیازہ آج عوام کو مختلف ہوشربا ٹیکسز کی صورت میں ادا کرنا پڑ رہا ہے۔اضافی اداروں کو ضم کرکے حکومت سفید پوش طبقہ پر ٹیکس بڑھانے کے بجائے اربوں کی بچت کر سکتی ہے۔ہمارے ہاں ایسے ادارے بھی موجود ہیں جہاں ایک ہی کام کو دس لوگ انجام دے رہے ہوتے ہیں۔ان دس میں سے نو افراد کی صلاحیتوں کو کسی اور جگہ پر بھی استعمال کیا جاسکتا ہے،محکموں کی تعداد میں کٹوتی سے اربوں کروڑوں روپے کی بچت کرنا ممکن ہوسکے گا۔جولائی 2024 میں شائع پرافٹ بائے پاکستان ٹو ڈے کے مطابق صرف جون 2024 میں پنجاب ریونیو اتھارٹی نے 32.7 بلین روپے کا ریونیو حاصل کیا، جو پچھلے سال کے اسی مہینے میں 28.2 بلین روپے سے 16 فیصد زیادہ ہے۔خاص طور پر، جون 2024 میں پنجاب کی سروسز پر سیلز ٹیکس 29 ارب روپے تھا، جو کہ پہلے کی بانسبت 9 فیصد زیادہ ہے، پنجاب ورکرز ویلفیئر فنڈ نے 3 ارب روپے اکٹھے کیے، جو 150 فیصد زیادہ ہیں، اور پنجاب انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ نے 629 ملین روپے جمع کیے، جو کہ پچھلے سال جون کے مہینے  سے 83 فیصد زیادہ ہے۔ لیکن اس ٹیکس کی وصولی سے عوام کو کیا فائدہ مل رہا ہے،بجلی ،سوئی گیس ،پانی کے بلوں میں اضافہ بتدریج جاری ہے،پیٹرلیم مصنوعات،ٹرانسپورٹ کے کرایوں اور روز مرہ کی اشیاء  ضروریہ کے نرخوں میں مسلسل اضافہ نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ریونیو جمع کرنے سے کسی بھی سطح پر عوام کو بھی فائدہ حاصل ہونا چاہیے۔کاروباری اور عوامی حلقے شدید ترین معاشی مسائل کا شکار ہیں۔نفسیاتی مسائل بڑھ گئے ہیں۔آئے روز خوف ناک جرائم رونما ہو رہے ہیں۔عوام کی قوت برداشت دم توڑ چکی ہے لیکن حکومت ریونیو جمع کرنے میں مصروف ہے۔قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ممبران اربوں روپے مالیت کے ترقیاتی منصوبوں کی نمائش کرنے میں مگن ہیں، لیکن وہ یہ بات بھول گئے کہ ان کا سفید پوش طبقہ غربت کی لکیر سے بھی نیچے جارہا ہے، بوڑھے والدین سڑک کے کنارے بھیک مانگنے پر مجبور ہوگئے ہیں، اے سی والے سرد ایوانوں،دفاتر اور گاڑیوں میں رہنے والے حکمران اور عوامی نمائندے یہ بات بھول گئے کہ عوام اور ان کے بچوں کے لیے دو وقت کا عزت سے ملا کھانا،سستی ادویات ،مناسب قیمت پر ملنے والے بجلی سوئی گیس کے بلز،سر ڈھانپنے کے لیے چھت اور باعزت روزگار سب سے اہم ہے۔

مزیدخبریں