افغان کرکٹ ٹیم کی احسان فراموشی

پاکستان اور بھارت قدیم ہمسائیگی کے باوجود ایک دوسرے کے سخت مخالف اور رقابت رکھنے والے دشمن ملک ہیں۔ جیسے دونوں ملکوں کے مابین دہائیوں سے دشمنی اور کشیدگی چلی آ رہی ہے، ویسے ہی دونوں ممالک کی کرکٹ ٹیمیں بھی جب میدان میں اترتی ہیں تو دونوں جانب کی دیرینہ دشمنی رقابت، جذبات کا طوفان بن کر امڈ آتی ہے۔ کھیل کے میدان میں ایسی ہی رقابت آسٹریلیا اور انگلینڈ بھی رکھتے ہیں۔ دنیا بھر میں جہاں کرکٹ ہوتی ہے ان ٹیموں کے مابین سخت غصہ، تنائو ، جذبات اور مار دھاڑ کی کیفیت نظر آتی ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے یہ ٹیمیں میدان جنگ میں ہوں۔ 
افغان کرکٹ ٹیم نے بھی کافی جدوجہد اور محنت کے بعد کرکٹ میں اپنی حیثیت منوائی ہے۔ افغان ٹیم ناصرف اچھا پرفارم کر رہی ہے بلکہ دنیا کی بہترین کرکٹ ٹیموں کے لیے بھی بہت بڑا چیلنج بنی ہوئی ہے۔ امریکہ میں ہونے والے کرکٹ کے حالیہ میچوں میں افغانستان نے نہ صرف دنیا کی بہترین ٹیموں کو ہرایا بلکہ یہ بھی ثابت کیا کہ وہ ناقابل تسخیر بنتے جا رہے ہیں۔
لیکن___ کرکٹ میں اب ایک نئی ’’رقابت‘‘ کا اضافہ ہوا ہے۔ یہ ’’رقابت‘‘ افغانستان اور پاکستان کے مابین پیدا ہوتی نظر آ رہی ہے۔ جبکہ دونوں برادر ہمسایہ اور اسلامی ملک ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ افغان کرکٹ ٹیم کو بنانے، سنوارنے اور اس مقام تک پہنچانے میں پاکستان کے سابق ٹیسٹ پلیئرز کا بڑا ہاتھ ہے۔ جنہوں نے ہر شعبے میں افغان کھلاڑیون کی تربیت کی۔ انہیں بہترین کارکردگی کا حامل بنایا۔ اْنہی کی بدولت آج افغان کرکٹ ٹیم اپنی کارکردگی کی نئی تاریخ رقم کر رہی ہے۔
مگر افسوس ___اسی افغان کرکٹ ٹیم نے 2025ء میں پاکستان میں ہونے والے کرکٹ چیمپئنز ٹرافی میں حصہ لینے اور سیکورٹی وجوہات کو بنیاد بنا کر پاکستان آنے سے ہی انکار کر دیا ہے۔ افغان کرکٹ بورڈ نے اس حوالے سے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا ہے جس نے احسان فراموشی کی ایک نئی داستان رقم کی ہے جو قابل افسوس ہے۔ 
پہلے ہم افغان ٹیم کی حقیقی تاریخ بیان کرتے ہیں۔ یہ امر خصوصی توجہ کا حامل اور قابل ذکر ہے کہ افغانستان میں 19ویں صدی کے وسط میں کرکٹ کا آغاز ہوا لیکن 21ویں صدی کے اوائل میں افغان ٹیم کو کامیابی حاصل ہونی شروع ہوئی جبکہ افغانستان کرکٹ بورڈ 1999ء میں قائم کیا گیا۔ 2001ء آیا تو افغانستان انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کا رکن بن گیا جس کے بعد 2003ء میں اسے ایشین کرکٹ کونسل کی رکنیت بھی مل گئی۔ بین الاقوامی کرکٹ کھیلنے کے قریباً ایک دہائی بعد 22جون 2017ء کو اْسے آئی سی سی کی مکمل رکنیت حاصل ہو گئی۔ اس طرح ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے والے ممالک کی تعداد 12ہو گئی۔
اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ افغانستان وہ پہلا ملک ہے جس نے آئی سی سی کی الحاق شدہ رکنیت کے بعد جلد ہی مکمل رکن ہونے کا درجہ حاصل کیا۔ افغان ٹیم سب سے پہلے بھارتی کرکٹ ٹیم کے ساتھ میچ کھیلنے بھارت گئی۔ جہاں متعدد شہروں میں بہت سے میچز کھیلے۔ اپنی پرفارمنس سے منوایا کہ وہ بھی دنیائے کرکٹ کی ایک بہترین ٹیم ہے۔
اگست 2021ء میں طالبان کے افغانستان پر کنٹرول کے بعد مستقبل کے بین الاقوامی میچوں میں افغانستان کی کرکٹ ٹیم کی شرکت پر خدشات اور شکوک و شبہات کا اظہار کیا گیا۔ افغان ٹیم کے کھلاڑیوں اور ان کے اہل خانہ کی حفاظت پر بھی سخت تشویش کا اظہار سامنے آیا۔ تاہم طالبان حکومت نے بڑھتی ہوئی افواہوں پر کہا کہ وہ وقومی کرکٹ ٹیم کی بین الاقوامی میچوں میں شرکت پر کوئی رکاوٹ نہیں ڈالیں گے۔ تاہم افغان طالبان نے افغان ویمن کرکٹ ٹیم کی مخالفت کی اور کہا کہ کھیل میں وہ خواتین کی شمولیت کے حامی نہیں۔
افغان کرکٹ ٹیم کے بیشتر کھلاڑیوں نے شورش اور خانہ جنگی سے تباہ حال ملک افغانستان کے علاوہ پاکستان میں واقع افغان مہاجر کیمپوں میں کرکٹ سیکھنے کا عمل شروع کیا۔ وہ پاکستانی کرکٹ ٹیم سے بے حد متاثر تھے۔پاکستانی کھلاڑیوں کو کرکٹ کے میدان میں ٹی وی کی سکرین پر کرکٹ کھیلتے ہوئے دیکھتے تو خواہش پیدا ہوتی کہ وہ بھی ان جیسے بنیں، کرکٹ کھیلیں۔ یہ جنون اس حد تک بڑھا کہ افغان نوجوانوں نے افغان مہاجر کیمپوں میں کرکٹ کھیلنا شروع کر دی۔ کوئی بائولنگ کراتا اور کوئی بیٹنگ کرتا۔ رفتہ رفتہ یہ شوق جنون بننے لگا۔پھر یہی افغان نوجوان ایک دن پاکستان کے مہاجر کیمپوں سے کرکٹ کھیلتے کھیلتے لندن کے لارڈز کرکٹ گرائونڈ تک پہنچ گئے۔ کیمپوں میں کرکٹ کھیلتے تو ننگے پائوں ہوتے تھے۔ کرکٹ کا مناسب سامان بھی میسر نہ ہوتا۔ گیند، بیٹ اور وکٹیں بزرگ افغان خرید کر دیتے۔ جس سے کرکٹ کے شوقین یہ نوجوان اپنا شوق پورا کرتے لیکن کوئی نہیں جانتا تھا کہ پاکستان کے مہاجر کیمپوں سے کرکٹ کی ابتداء کرنے والے یہ نوجوان ایک دن دنیا کے بہترین کرکٹر بن جائیں گے۔ دنیا میں اپنا اور اپنے ملک کا نام روشن کریں گے۔ افغان کرکٹرز نے جن حالات میں اپنا لوہا منوایا وہ بہت ہی قابل ستائش ہے۔ افغانستان میں شدید شورش اور خانہ جنگی کے باوجود اپنی دھن اور لگن نہیں چھوڑی۔ وہ کرکٹر بننا چاہتے تھے، کرکٹر بن گئے۔
افغان کرکٹ ٹیم بہت ترقی کر چکی۔ نام اور مقام پیدا کر لیا۔افغان کرکٹ بورڈ نے ٹیم کی کوچنگ کے لیے دنیا کے جن بہترین کھلاڑیوں کا انتخاب کیا  اْن سب کا تعلق پاکستان سے تھا۔ وہ سابق کھلاڑی تھے۔ انہوں نے ہوم گرائونڈ پر افغان کھلاڑیوں کو بائولنگ اور بیٹنگ کے تمام اسرار و رموز بتائے اور سکھائے  لیکن آج یہی ٹیم پاکستان آنے سے گریزاں اور اپنی آمد کو سیکورٹی رسک قرار دے رہی ہے۔
جبکہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے علاوہ باقی دونوں صوبوں سندھ اور پنجاب میں امن و امان کی صورت حال کافی بہتر ہے۔ یہاں کسی بھی طرح کی بے امنی نہیں۔ سیکورٹی فراہم کرنے کی ذمہ داری سیکورٹی اداروں کی ہوتی ہے۔ وہ اس حوالے سے قطعی غافل نہیں۔ جہاں فول پروف سیکورٹی فراہم کرنا ہوتی ہے۔ وہاں ہر طرح کا خیال رکھا جاتا ہے۔ کسی دوسرے ملک کا وفد یا ٹیم پاکستان آتے ہیں تو سیکورٹی صورت حال کو مزید بہتر بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ افغان کرکٹ بورڈ کا وہم ہے یا کسی کی ایماء پر وہ پاکستان کرکٹ چیمپئن ٹرافی 2025ء میں حصہ لینے اور آنے سے انکار کر رہے ہیں۔ افغان کرکٹ بورڈ کو ضرور اس ’’انکار‘‘ کی وضاحت کرنی چاہیے کیونکہ پاکستان کے کروڑوں لوگ منتظر ہیں کہ افغانستان اور پاکستان کے مابین میچوں کو پاکستان کی ہوم گرائونڈ پر ہوتا دیکھیں جو ٹیم اچھا کھیلے اْس کی پذیرائی کریں اور دادو تحسین پیش کریں۔
پاکستان نے افغان ٹیم کو بنایا۔ ہر طرح سے آبیاری کی۔ افغان ٹیم کے سارے نہیں تو کم از کم چھ، سات ممبر ضرور ایسے ہیں جو یہاں مہاجر کیمپوں میں رہے ہیں۔ یہیں کرکٹ کھیلنا شروع کی اور یہاں سے ہی کرکٹ کھیلتے کھیلتے عالمی میدانوں تک پہنچ گئے۔
افغان کرکٹ ٹیم پاکستان کے ماحول اور یہاں کے لوگوں سے اچھی طرح آشنا ہے۔ افغانیوں کے لیے ہم بڑا دل اور بڑی محبت رکھتے ہیں۔ اْن کے لیے فرشِ راہ ہیں۔ وہ آئیں گے تو دوستی کی نئی راہیں کھلیں گی اور محبت کے نئے چراغ جلیں گے۔
ہم دل سے افغان ٹیم کے منتظر ہیں۔

ای پیپر دی نیشن

ہم باز نہیں آتے!!

حرف ناتمام…زاہد نویدzahidnaveed@hotmail.com یادش بخیر …یہ زمانہ 1960 کا جس کے حوالے سے آج بات ہوگی۔ یہ دور ایوب خاں کے زوال اور بھٹو ...