والدین کو جڑواں بچوں کا ایک بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ وہ کھلونوں کی بجائے ہر وقت آپس میں ہی کھیلتے رہتے ہیں۔ ٹوٹنے کے ڈر اور کھونے کے خدشے سے بے نیاز وہ ایک دوسرے کیلئے کائنات کے سب سے خوبصورت اور پائیدار جْھنجْھنے ہوتے ہیں۔ خونی رشتوں کے علاوہ ان میں دوستی کا تعلق بھی باکمال اور لازوال ہوتا ہے۔ کھیل اور لڑائی میں وہ اپنی مثال آپ ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے کو باہم پرکھنا اور جانچنا ان پر ختم ہے جبکہ جڑواں بچوں کے برعکس اْن کے والدین عموماً بے چینی اور اضطرِابی کیفیت کا شکار رہتے ہیں۔
دنیا بھر میں جڑواں بچوں کی پیدائش میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بی بی سی کی ایک دلچسپ تحقیقاتی رپورٹ کیمطابق ’’ہر سال 16 لاکھ جڑواں بچے پیدا ہو رہے ہیں۔ ایشیا میں اس تعداد میں 32 فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ شمالی امریکہ میں یہ تعداد 71 فیصد تک بڑھ چکی ہے۔ افریقہ میں گذشتہ 30 سال سے جڑواں بچوں کی شرح زیادہ ہے‘‘۔ بعض والدین کے ہاں جب ایک سے زیادہ مواقع پر جڑواں بچے جنم لیتے ہیں تو بہت سے سماجی اور خانگی مسائل بھی سر اٹھاتے ہیں۔ مغربی نائجیریا کی ریاست اوگن کے علاقے اڈو۔۔اڈو کے رہائشی ایوپو اوگنلی کی بیوی کے بطن سے جب پانچویں مرتبہ جڑواں بچوں کی پیدائش ہوئی تو ایوپو اوگنلی کی بیوی اپنے والدین کی کثرت سے جڑواں بچوں کی پیدائش کی شکایت پر خاوند اور بچوں کو چھوڑ کر چلی گئی۔
ایشیا کے باسی ہونے کے طفیل ہماری شرحِ آبادی میں بے پناہ اضافہ جڑواں بچوں کے باعث نہ سہی مگر اِس قدرتی کمی کو ہم مایہ ناز پاکستانی کرکٹر جاوید میانداد کے سنگل رنز لینے کی طرز پر بہرحال پورا کرکے دم لیتے ہیں۔ جڑواں بچوں کی پیدائش کا رواج کم ہونے کے باوجود شرحِ آبادی میں اضافے کے معاملے میں ہم یورپ اور شمالی امریکہ سے کہیں آگے ہیں۔ آبادی بڑھنے سے شہر دیہات کی زرخیز زرعی زمین ہڑپ کرکے پھیلتے جا رہے ہیں۔ کچے کے علاقے میں اگر نئے شہر آباد کئے جائیں تو سالہا سال سے ڈاکوؤں سے برسر پیکار کمزور، لاغر اور تھکی ہوئی انتظامیہ بھی سکھ کا سانس لے سکے گی۔ ویسے بھی ڈاکو پراپرٹی ڈیلر بن کر کہیں زیادہ کما سکیں گے۔ کیا کریں، ہماری حکومتیں آبادی میں اضافے اور اس سے جڑی قباحتوں سے بالکل بے نیاز ہو گئی ہیں۔ ایک سابقہ چیف جسٹس آف پاکستان نے حکومت وقت کی توجہ آبادی بڑھنے اور کالاباغ ڈیم کی تعمیر کی افادیت کی طرف مبذول کرانے کی کوششیں ضرور کیں۔
دنیا کے تمام ممالک میں جڑواں بچوں کے ساتھ ساتھ جڑواں شہر بھی پائے جاتے ہیں۔ ہنگری کا دارالحکومت بوداپسٹ دریائے ڈینیوب کے دونوں کناروں پر واقع ہے۔ 1873ء سے پہلے یہ بودا اور پسٹ کے نام سے جڑواں شہر تھے جن کو 1873ء میں ایک شہر میں ضم کرکے بوداپسٹ کا نام دے دیا گیا۔ چین کے صوبے ہوبے (Hubei) کا دارالحکومت ووہان یکم جولائی 1927ء کو تین شہروں کے انضمام پر معرض وجود میں آیا تھا۔ یاد رہے کہ ووہان وہی بین الاقوامی شہرت کا حامل شہر ہے جہاں سے کورونا وائرس کی شروعات ہوئیں اور اور پھر یہ وائرس آناً فاناً پوری دنیا میں پھیل گیا۔ اِنہی دنوں موجودہ امریکی صدر بھی کرونا وائرس سے متاثرہ پائے گئے ہیں… ملائشیا کے دو شہروں کوالالمپور اور پتراجایا کو جڑواں شہر کہا جاتا ہے۔ جاپان میں ٹوکیو اور اٹسو بطور جڑواں شہر مشہور ہیں۔ بنگلہ دیش کے ڈھاکہ اور نارائن گنج جڑواں شہر کہلاتے ہیں۔ پاکستان میں اسلام آباد اور راولپنڈی کو جڑواں شہر ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔
راولپنڈی شہر کی تنہائی اور اداسی حاکمِ وقت سے دیکھی نہ گئی تو اِس اداسی اور تنہائی کو دور کرنے کے لئے اْس کے پہلو میں اسلام آباد جیسے جدید اور خوبصورت شہر کو دارالحکومت کا درجہ دے کر بسایا گیا۔ کوالالمپور اور ڈھاکہ کے مقابلے میں اسلام آباد کم عمر ہونے کی وجہ سے بہت سے اہم واقعات سے بے خبر رہا۔ مثلاً وہ معرض وجود میں نہ آنے کی وجہ سے 1958ء کا انقلاب اور اس کا پس منظر نہ دیکھ سکا۔ غالباً کم عمری آڑے آنے کی وجہ سے ہی اْس کی سوچ عالمی معیار کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہ ہو سکی۔ بچپنے میں پائی جانے والی انا پرستی، لاابالی اور ضدی پن جیسی عادتوں کی بدولت اْس کی فکرونظر میں وہ پختگی اور گہرائی بھی پیدا نہ ہو سکی جو ایک کیپیٹل کے شایانِ شان ہوا کرتی ہے۔ ڈھاکہ اپنے فیصلے کرنے میں آزاد اور خودمختار ہے کیونکہ اسے نارائن گنج سے کسی مشاورت کی ضرورت نہیں پڑتی مگر اسلام آباد کو یہ سہولت میسر نہیں ہے۔ اِسکے باوجود ڈھاکہ اور اسلام آباد میں بہت سے معاملات میں مماثلت اور سوچ میں یکسانیت پائی جاتی ہے۔ دونوں سانحہ 1971ء پر دل گرفتہ رہے۔ دونوں نے اپنے ہاں آئینی اور غیر آئینی حکومتیں بنتے اور بگڑتے دیکھیں۔ ڈھاکہ نے تو بانیٔ بنگلہ دیش شیخ مجیب الرحمٰن کو حسینہ واجد کے علاوہ خاندان بھر کے ساتھ لقمہء اجل بنتے ہوئے بھی دیکھا۔ وہی حسینہ واجد اب پانچویں دفعہ ملک کی وزیر اعظم بن چکی ہیں۔ اپوزیشن کے دس ہزار لوگ جیلوں میں قید ہیں، سابقہ وزیر اعظم خالدہ ضیا بدعنوانی کے الزامات کے تحت گھر میں نظربند ہیں اور ان کا بیٹا دہشت گردی کے جرم میں عمر قید بھگت رہا ہے۔ پاکستان میں بھی عمران خان کے دور میں شریف فیملی کرپشن کے الزامات کے تحت پس زندان رہی ہے۔ مکافاتِ عمل کے کارن عمران خان اور اْنکی اہلیہ کرپشن اور دیگر الزامات کی وجہ سے جیل میں ہیں۔ افغانستان جیسا ہمسایہ میسر نہ ہونے کے باعث بنگلہ دیش دہشت گردی سے پاک ملک ہے۔ فوج کا سیاست میں عمل دخل نہیں رہا۔ پاکستان کے برعکس اس کے مثبت معاشی اشاریوں کو دنیا تحسین کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ ڈھاکہ شیخ مجیب کے قتل کے اثرات سے آزاد ہو چکا ہے مگر اسلام آباد بدستور بھٹو صاحب کے عدالتی قتل کے حصار میں ہے۔ اسلام آباد کو اِس وقت بدترین سماجی، معاشی، سیاسی اور آئینی بحران کا سامنا ہے جبکہ ڈھاکہ کو ایسا کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے۔ابھی حالیہ دنوں میں وزیراعظم بنگلہ دیش کے جہانگیر عالم نامی چپڑاسی کا ساڑھے تین کروڑ ڈالر کے ناجائز اثاثے بنانے کا ایک دلچسپ سکینڈل سامنے آیا ہے۔ کرپشن کے حالیہ الزامات میں بنگلہ دیش کے سابق آرمی چیف، پولیس کے سربراہ، سینئر ٹیکس آفیسر اور دیگر حکام کے نام بھی آرہے ہیں۔ حسینہ واجد خاطر جمع رکھیں، پاکستان میں مقصود چپڑاسی اور فرح گوگی کے مالی سکینڈلوں کا بہت شہرہ رہا ہے البتہ جہانگیر عالم سکینڈل کے برعکس وہ صوبائی نوعیت کے معاملات تھے۔ اِس وقت مقصود چپڑاسی عالمِ بالا میں اور جہانگیر عالم چپڑاسی امریکہ میں مقیم ہے۔