چلو پھر سے مسکرائیں

موجودہ دور میں جہاں مختلف وجوہات کی بنا پر زندگی اجیرن ہو چکی ہے، اخبارات کی شہ سرخیاں اور چینلز کی خبریں سنتے پڑھتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے کہ مہنگائی کی شرح اور پٹرول بجلی کار یٹ دیکھ کر یا سن کر، سانس نہ رک جائے۔ توپھر لوگ زندگیوں کا اندازہ عمروں کی دریافت سے کیوں لگاتے
 ہیں ؟یہ بے وقوف جانتے ہی نہیں کہ سارا دارومدار سانس کی آ س ہے ،دلوں کی دھڑکن بھی اسی کی مرہون منت ہے۔ آ ج کل تو لاہوریوں کے چہرے بارش کے باعث کھل اٹھے ہیں ورنہ چند روز پہلے ایسے مرجھائے ہوئے تھے کہ جیسے یہ مردہ دل ہو چکے ہیں۔ گرمی اور شدیدحبس نے آ دھیلاہور کو شہر کے وسط میں مغلیہ دور کی بنائی نہر میں چھلانگیں لگانے پر مجبور کر دیا تھا کیونکہ،، جائے پناہ،، اس کے سوا دوسری کوئی نہیں تھی ،ایسے میں میرے کالم کا عنوان آ پ کو زہر لگ رہا ہوگا بلکہ میں آ پ کو دیوانہ لگ رہا ہوں گا کہ ذرا سی بارش نے سانس بحال کرنے کا حکم کیا دیا میں بھول گیا کہ گرمیوں میں یہ جولائی بھی ہے، جولائی ہی نہیں بلکہ پنجابی میں ہاڑ کے بعد ساون آ چکا ھے جسے شاعر رومانس اور باغوں میں جھولے جھولنے کا موسم کہتے ہیں جبکہ حالات سب کے سامنے ھیں۔ حبس جان چھوڑنے کو تیار نہیں،
یہ تمام کس بل نکالنے کی طاقت رکھتا ھے۔ یعنی یہ شاعروں کا سیاسی بیان محبت زدہ جوڑوں کو پانی میں بھگونے کا۔ مجھے تو یہ ان کی سیاسی چال لگتی ھے کیونکہ گرمیوں کے کپڑے باریک ھوتے ھیں،اس المناک موسم میں،،چلو پھر سے مسکرائیں،، کے میرے نعرے پر بھی شک کیا جاسکتا ھے۔ یقین جانئے، یہ میرا اعلان نہیں، میں نے جب یہ الفاظ پڑھے تو میں بھی ہنسا نہیں، پھر بھی میری ہنسی نکل گئی کہ جس موسم اور حالات میں ہنسنے مسکرانے کا سوچا بھی نہیں جا سکتا اس میں کیوں اور کیسے پھر سے مسکرانے کی دعوت دی جا رہی ہے ؟میرے ذہن میں آ یا کہ کیا تمام مسائل حل ہو گئے، شہر میں میلے ٹھیلے لگ گئے، جو مسکرانے کا موسم آ گیا۔ ان مشکل اور جان لیوا حالات میں مسکرانے کی دعوت حضرت عطاء الحق قاسمی کی معرفت لاہور آ رٹس کونسل کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر محترمہ سارہ رشید نے دی تھی۔ دعوت نامہ غور طلب تھا ، حسین شیرازی،ناصر ملک،شاہد ظہیر،سلیم مرزااور گل نوخیز اختر کے نام نامی دیکھ کر احساس ھوا کہ پیرزادہ عطاالحق قاسمی کی زیر صدارت مزاح نگاروں کی یہ محفل چند گھنٹے غم غلط کر سکتی ہے۔ وہاں جاؤں تاکہ میں بھی باادب لوگوں کی فہرست میں شامل ہو جاؤں۔ آج محفل میں مندی کا رجحان پایا جاتا ہے ایسے میں لمحہ ہال ٹو کا انتخاب بھی میرے لیے حیرت کا سبب تھا۔ ادبی تقریبات کی حقیقی جگہ ادبی بیٹھک ہے جہاں وقت مقررہ سے ایک گھنٹے بعد تقریب کا آغاز ان لوگوں کے اصرار پر ہوتا ہے جن میں سے اکثر شاعر یا مقرر ہوتے ہیں۔ آ غاز ادھی درجن شرکا سے اور اختتام تک یہ تعداد تین درجن تک پہنچ جاتی ہے لیکن ان میں الحمرا کا مٹر گشت گروپ چائے اور بسکٹ کا رسیا بھی موجود ہوتا ہے۔ یہی ہمارے ادب و آداب کی اصلی تصویر ہے۔
 میں حسب روایت پاکستانی وقت کے مطابق تقریبا آ دھا گھنٹہ تاخیر سے پہنچا اور خیال یہ تھا کہ میں پاکستانی وقت کے مطابق آ دھا گھنٹہ پہلے ہوں لیکن ہال میں داخل ہوتے ہی خوش فہمی دھڑام سے ایسی زمین پر آ ئی کہ میں نے اس کی نہ صرف آ واز سنی بلکہ شرمندگی محسوس کی۔ حاضرین کی تعداد ماشاء اللہ قابل رشک اور نشست کا آ غاز بھی ہو چکا تھا۔ باقاعدہ قہقہوں بھری سہ پہر تھی۔ لوگ ہنس رہے تھے بڑی فراغ دلی سے تالیاں بھی بجا رہے تھے۔ شدت سے سارہ رشید کے لیے دل سے دعائیں نکلیں۔ اس لیے کہ ایک عرصے بعد،، الحمرا ٹو،، نہ صرف اس قدر پر رونق دیکھا بلکہ وہاں موجود تمام خواتین و حضرات صرف مسکرا نہیں رہے تھے بلکہ قہقہے لگا رہے تھے۔ اس پروگرام کی پائلٹ ڈاکٹر عائشہ عظیم نے پرواز کو کسی بھی لمحے ڈولنے نہیں دیا۔ معاشرے کے تمام معاملات انتہائی خوبصورت پیرائے میں بیان کیے گئے محبت، محبوب، محبوبہ، نئی پرانی، گاڑیاں، ہیرو، ہیروئن اور حوروں کا ذکر خیر ہوا۔ لیکن وہاں بھی مولانا طارق جمیل کے حوالے سے خبردار کیا گیا کہ،، جنت میں حوروں کے طلبگاروں کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ستر70 فٹ کی حسین و جمیل حوروں کی سردار تمہاری پانچ فٹ کی دنیاوی شریک حیات ہی ہوگی،، اچانک زوردار قہقہہ بلند ہوا اور پھر صرف تالیوں کی آ واز باقی بچی ،جو خواتین بجا رہی تھیں کیونکہ مردوں کی خواہشات پر تو اوس پڑ چکی تھی۔ ماحول کو خوشگوار بنانے کے لیے صاحب صدر علامہ عطاء الحق قاسمی نے مائیک سنبھالا۔ انہوں نے مردوں کو ہوش میں لانے کے لیے پہلے ،،چھمک چھلو،، کی کہانی سنائی اور پھر مختلف واقعات سناتے ہوئے خبر دی کہ وہ بہت مشہور اور مقبول شخصیت ہیں۔ انہیں ابھی کل پرسوں ہی ایک بینک سکیورٹی گارڈ نے پہچانتے ہوئے سلیوٹ کیا اور اپنے ساتھی سے متعارف کرایا۔ اوئے بے وقوف توں،، عطاء اللہ صاب نوں نئںیں جے پچھانیا ،،اس نے پوچھا کون عطا ؟گارڈ نے برجستہ جواب دیا او قمیض تیری کالی والا ،،ہال قہقہوں سے گونج اٹھا۔ موجودہ حالات و واقعات میں یہ تقریب تازہ ہوا کا جھونکا تھی لیکن سارہ رشید صاحبہ نے خوشخبری سنائی کہ یہ صرف ٹریلر ہے جلد بڑی محفل خاص کا اہتمام بھی کریں گی۔ زبردست تالیوں سے اس اعلان کا استقبال ہوا۔ الحمرا ،، فن اور فنکار،، کی پذیرائی کا مرکز ہی نہیں ،ہماری ثقافتی پہچان بھی ہے۔ لاہور ایسا شہر ہے کہ جہاں تھیٹر نے جنم لیا اور الحمرا نے اسے پالا پوسا جوان کیا لیکن وہ بھی رضیہ کی طرح غنڈوں میں پھنس کر بدنام ہو گیا، ہمارے پیٹی بھائی عامر میر ( نگران وزیر)برادر خورد حامد میر تھیٹر کو نیک نامی نہیں دلوا سکے لیکن پابندی ضرور لگا گئے۔ آ جکل الحمرا میں تھیٹر کرنا منع ھے۔ کمرشل،تجرباتی اورتجریدی جب چاہیں کریں اسلئے کہ وہ اکثر بڑے لوگوں کے بچے اشرافیہ کے لئے کرتے ھیں اوران کے خراب ھونے کے چانس نہیں،کیونکہ وہ پہلے ھی خود کفیل ہیں۔ میر برادران کا تعلق میر تقی میر سے نہیں،ورنہ وہ رو دھو کر دل کومنا لیتے کہ،، سب اچھا ھے،نہیں ہے تو ہو جائے گا؟؟؟ یہ،،وارث میر کی صحافت کے وارث ہیں لہذاسب کچھ کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ 
حامد میر سے قدرے مختلف ھونے کے باوجود گولی کھا کر بھی خاموش نہیں رہ سکتے،بلکہ برے حالات میں بھی ہلچل کا سبب بننے کے گر جانتے ہیں ،،مکھی پر مکھی،، نہیں مارتے کیونکہ انھیں محسن نقوی وزیر داخلہ کی قربت نصیب ہے۔ جو ہونا تھا ہوچکا اب سارہ رشید کا وجود غنیمت ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریاں سمجھتی ہیں۔ الحمرا کے وسائل میں رھتے ھوئے مسائل سے گھبرانے بجائے کچھ نہیں،بہت کچھ رکھنے کا جذبہ رکھتی ہیں ہم نہیں،ہم جیسے،،فن و فنکار،، نواز ہی نہیں،ادب و ثقافت کے دلدادہ دعاگو ہیں تاکہ الحمرا ماضی کی کمی پوری کر کیرونق بحال کر سکے۔لوگ آئیں،مسکرائیں بلکہ قہقہے لگائیں۔

ای پیپر دی نیشن