محرم بخیر گزرا۔ جنگل میں آگ کا انتظار؟

فیض آباد دھرنا کے منتظمین نے وزیر داخلہ اور ان کی ٹیم کے ساتھ مذاکرات کے بعد دھرنا ختم کر دیا۔ یہ بحران عارضی تھا ختم ہو گیا۔ الیکشن کمشن نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درامد کا فیصلہ کیا ہے یہ بحران بھی نرم سطح کا تھا سو مثبت پیش رفت کے ساتھ ختم ہو جائے گا۔محرم میں ماضی میں فرقہ واریت کو ہوا دینے کی کئی سنگین وارداتیں ہو چکی ہیں سو اس حوالے سے سو خدشات تھے۔ حضرت امام حسینؓ کی شہادت کے واقعہ کی یاد میں مسلم امہ صدیوں سے نوحہ کناں ہے۔
محرم ختم ہوتا ہی نہیں ہے 
 ترا غم ختم ہوتا ہی نہیں ہے
ہر سال جب بھی محرم کے یہ لہو رنگ ایام آتے ہیں تو پاکستان جیسے ملک میں ایک اور خوف بھی سر اٹھاتا ہے کہ کہیں کوئی غم زدہ ماحول کو امت مسلہ کو تقسیم کرنے کے لئے استعمال نہ کر لے۔ چنانچہ ہر سال ہر سح پر حفاظتی اقدامات کئے جاتے ہیں۔ گزشتہ برسوں میں کئی بار ایسا ہوا کہ دہشت گردوں نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور کہیں فرقہ واریت کی آگ پر تیل چھڑکا اور کہیں معصوم لوگوں کی جان لینے اور عمومی خوف پیدا کرنے کے لئے عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا۔ چونکہ وطن عزیز میں سیاسی فضا بھی بہت گرم ہے اور اس پس منظر میں بھی خاص طور پر سپریم کورٹ کے ایک بڑے فیصلے کے بعد قوم کی دھڑکنیں بہت تیز تھیں لیکن اللہ کا شکرہے کہ اس بار محرم کے اہم ایام پر امن طریقے سے گزر گئے۔ اس حوالے سے تو خیبر پختون خواہ سندھ بلوچستان اور خاص طور پر پنجاب کے وزرا اعلی اور ان کی انتظامیہ سراہنے لائق ہے کیونکہ پنجاب فرقہ واریت کی لپیٹ میں آ کر ماضی میں کئی حادثات کا سامنا کر چکا ہے۔ شائد اسی پس منظر میں وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے یوم عاشور کے انتظامات اور سکیورٹی پر اطمینان کا اظہارکرتے ہوئے صوبائی وزراء، کیبنٹ کمیٹی لا اینڈ آرڈر کو سراہاہے اورچیف سیکرٹری، پولیس کے اعلی حکام اور ان کی پوری ٹیم کو سکیورٹی انتظامات پر شاباش دی۔ اس بار پنجاب میں ایک اور تبدیلی بھی سامنے آئی کہ پہلی بار حکومت کی طرف سے عزاداروں کے لئے نیاز اور سبیلوں کا اہتمام کیا گیا۔میں نے قومی اخبارات اور سوشل میڈیا کا ان دس ایام میں چاروں صوبوں کے وزرا اعلی کی محرم کے حوالے سے مصروفیات اور ہدایات کا جائزہ لیا تو کسی اور صوبے کے انتظامی سربراہ کو اس طرح ایکٹو نہیں پایا جیسا کہ پنجاب کی صورت حال تھی۔ شائد اس لئے بھی کہ پنجاب میں سیاسی کھینچا تانی اور اقتدار کی رسہ کشی ایسی ہے جیسی کسی اور صوبے میں نہیں سو پنجاب میں وزیر اعلی کو بہت ایکٹو رہنا پڑتا ہے۔پنجاب میں امن وامان کے معاملے کو مثالی بنانا ہی کافی نہیں تھا بلکہ طبی حوالے سے بھی یہ دن امتحان کے دن تھے سوتمام سرکاری ہسپتالوں میں ایک طرح سے ایمرجنسی نافذ تھی۔پنجاب کے دوسرے شہروں سے زیادہ دارالحکومت لاہورکے سرکاری ہسپتالوں کی انتظامیہ کے امتحان کا وقت تھا۔ اچھی بات یہ ہوئی کو تمام سرکاری ہسپتالوں نے امتحان کی اس گھڑی میں اپنے فرائض تندہی سے انجام دئیے۔جنرل ہسپتال کی انتظامیہ نے تو اس حوالے سے پوری تفصیل سے عوام کو آگاہ کیا۔پرنسپل پوسٹ گریجویٹ میڈیکل انسٹیر ٹیوٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد الفرید ظفر نے یوم عاشور کے موقع پر لاہور جنرل ہسپتال میں آنے والے مریضوں، زخمی عزادارن اور زنجیر زنی سے متاثرہ افراد کوفراہم کی گئی۔ بر وقت اور بہترین طبی امداد کی تفصیلات کا جائزہ لیا اور ایم ایس ڈاکٹر فریاد حسین اور ان کی ٹیم ڈاکٹرز سمیت تمام عملے کو بلا تعطل خدمت خلق پر شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا۔ ڈاکٹرز و نرسنگ انتظامیہ بھی اس موقع پر موجود تھی۔اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انسانی جان سے بڑھ کر کوئی چیز مقدم نہیں اور ہم اسی بنیادی و اخلاقی اصول کے تحت اپنی خدمات سر انجام دیتے ہیں۔ انہوں نے ہیلتھ پروفیشنلز کو ہدایت کی کہ وہ محرم ا لحرام میں خصوصاً زنجیر زنی سے متاثرہ زخمیوں کے علاج معالجے کے لئے اضافی استعداد کے ساتھ ہم ہمہ وقت تیار رہیں اور یوم عاشور کے بعد بھی عزادارن کو طبی سہولیات کی فراہمی کا سلسلہ جاری رکھیں کیونکہ عزاداری اور ماتمی جلوسوں میں بہت سے لوگ زخمی ہو کر ہسپتال آتے ہیں اور ان کی جان بچانے کے لئے علاج معالجے میں ایک لمحے کی بھی تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔ انہوں نے ہیلتھ پروفیشلنز،پیرا میڈیکس اور ہسپتال کے معاون تمام عملے کی خدمات کو سراہتے ہوئے انہیں اپنی فرنٹ لائن فورس قرار دیا۔
 اگرچہ محرم کے اہم ایام روائتی جلوسوں اور مجالس کے حوالے سے تو پر امن رہے لیکن قوم دہشت گردی کے بعض دوسرے واقعات کے باعث دنیا بھر میں ایک بار پھر زیر بحث ہے۔ ڈی آ ئی خان میں دیہی مرکز صحت پر دہشت گردوں کے حملے میں ڈیوٹی پر موجود لیڈی ہیلتھ وزیٹر اور بچوں کی شہادت ایک المیہ سے کم نہیں اسی طرح بنوں کی صورت حال جو رخ اختیارکررہی ہے وہ بھی بہت پریشان کن ہے۔بنوں کی صورت حال کو مختلف حلقے جس طرح اپنے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کر رہے ہیں وہ کسی طرح بھی ایک ایٹمی اسلامی ملک کے شایان شان نہیں ہے۔سیاسی معاشی اخلاقی جس حوالے سے بھی دیکھا جائے وطن عزیزکی حالت پورے گلوب پر مختلف نظر آتی ہے۔ منیر نیای یاد آتے ہیں 
 منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے 
 کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ
اس وقت وطن کے تقریبا تمام آئینی ادارے جس طرح ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہونے کی بجائے ایک دوسرے کے مقابل محسوس ہورہے ہیں یہ کسی اچھے مستقبل کی نشاندہی نہیں کرتے۔ ایسا کیسے ہوا اور اس کا کون ذمہ دار ہے اس کا فیصلہ تو تاریخ کرے گی کیونکہ اس وقت کوئی اپنی غلطی ماننے کو تیار نہیں۔ لیکن تاریخ یہ ضرور بتاتی ہے کہ جب کسی قوم میں ایسی صورت حال پیدا ہوجائے تو لمحوں کی خطا بعض اوقات صدیوں کی سزا میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ سلطنت عثمانیہ اور اس سے پہلے مغلیہ سلطنت کے خاتمے کی مثالیں ابھی ماضی قریب کی باتیں ہیں۔ جب چند با اختیار لوگو ں کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں نے کروڑوں مسلمانوں کا مستقبل برباد کردیا۔اب بھی وقت ہے کہ ضد میری مجبوری کی ٹرک ڈرائیوروں کی سوچ کو ترک کر کے لچک والی قومی قیادت کی سوچ اپنائی جائے۔شاعرنے صحیح کہا ہے۔۔ہم نے گھر رہنے کا تب اعلان کیا۔۔ گرم ہوائیں جب گھر کا سامان ہوئیں۔
سنا ہے اک جنگل میں آگ لگی بیدار
تب ساری آوازیں اک پہچان ہوئیں
 اللہ نہ کرے کہ وطن عزیز گرم ہوائوں کی لپیٹ میں آئے اور سب اس وقت ایک ہو کر سوچیں جب جنگل میں آگ کی سی صورت حال پیدا ہو جائے۔

ای پیپر دی نیشن