ملک میں بے یقینی کے حالات یقینی طور پر ملک میں انتشار بھرپا کر رہے ہیں اور ادارے دست وگریباں ہیں، اداروں کی چپقلشیں ملک کو غیر مستحکم کر رہی ہیں ، جس سے دور اندیشی کا فقدان بڑھتا جارہا ہے ،جس ریاست میں انصاف متنازع ہو جائے وہ ریاست قائم نہیں رہتی ، انصاف کے تقاضے حقایق پر مبنی دانشمندانہ فیصلوں کے مرہون ِ منت ہوتے ہیں اگر انصاف کرنیوالے ہی کسی ناروا سلوک یا بات کے خلاف بیزاری یا افسوس ظاہر کریں توایسے داد خواہ افراد کا انصاف یک طرفہ کہلائے گا۔
گزشتہ ماہ کی خبر ہے کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے حکم دیا کہ تنقید کی بنا پر صحافیوں کو جاری نوٹس فوری واپس لیں ، اور اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ گالی گلوچ الگ بات ہے صرف تنقید کی بنا کاروائی نہ ہو ، چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ تنقید روکنے کے سخت خلاف ہوں ، آزادی صحافت آئین میں ہے ، میرا مذاق بھی اڑائیں تو مجھے کوئی فکر نہیں عدلیہ کا مذاق اڑائیں گے تو ملک کا نقصان ہوگا ، سپریم کورٹ پر تنقید ضرور کریں ، لیکن آئین میں بھی کچھ حدود ہیں آپ تنقید روک کر میرا یا سپریم کورٹ کافائدہ نہیں نقصان کر رہے ہیں ، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کسی بھی صحافی یا عام آدمی کو بھی تنقید کرنے سے نہیں روک سکتے سپریم کورٹ کے بارے میں تنقید کرنے پر کوئی مقدمہ درج نہیں ہوگا، خوش آئند خبر۔
مئی کے ماہ میں ہی عدلیہ کی طرف سے دوسری خبر سابق چیف جسٹس لا ہور ہائیکورٹ ملک شہزاداحمد خان کا کہنا تھا کہ کسی ادارے اور حکومت کے ساتھ لڑائی نہیں چاہتے ، احترام اس وقت تک ہے جب تک عدالتوں کا احترام کیا جائے گا اگر عدالتوں کا احترام نہیں تو ہم سے بھی احترام کی توقع نہ رکھیں ، چہ معنی دارد ؟ جون کے ماہ کی خبر ہے کہ شاعر احمد فرہاد کے کیس کی سماعت کے دورن اسلام آباد ہائیکورٹ میں جسٹس محسن اختر کیانی نے ریکارکس دیئے کہ ادارے اپنی حدود میں کام کریں ادارے کی اناء کے مسئلے میں ایک آدمی د و مقدمات میں چلا گیا ججز سمیت کوئی قانون سے بالا تر نہیں ، لمحہء فکریہ !
مئی 2024 ء ہی کی خبر ہے کہ مسلم لیگ کی جنرل کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ عدلیہ میں موجود ججوں کی اکثریت ایسی ہے جو پاکستان کی ترقی اور خوشحالی چاہتی ہے مگر چند کالی بھیڑیں عمران خان کے ساتھ ملی ہوئی ہیں آج یہ مشورے ہورہے ہیں کہ کیسے عمران خان کے سارے کیسز ختم کئے جائیں۔انتہائی تشویشناک الزام پر مبنی حیرت انگیز خبر !شہباز شریف کے عدلیہ کے بارے میں اس بیان کو پاکستان تحریک انصاف اور اس پارٹی سے منسلک وکلا نے سوشل میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا پر بڑے شد ومد سے ابھا را ، سینٹ میں تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر اور بیرسٹر علی ظفر نے اپنے رد عمل میں کہا کہ اگر شہباز شریف معذرت نہیں کرتے تو پھر ان کو سزا بھی ہو سکتی ہے معاملہ سو فیصد توہین عدالت کی طرف جائے گا ، گہری اور وابستگی کی طرف اشارہ دیتی خبر !
15، جولائی کی جڑتی ہوئی خبر سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری نے کہا کہ مسلم لیگ نون کا اسٹیبلشمنٹ کو ’’ ٹکے ‘‘ کا فائدہ نہیں ہو رہا ہے ،فواد چوہدری کا شارہ اپنی ہی سابقہ حکومت کی طرف ہے ، کیا پی ٹی آئی اسٹیبلشمنٹ کو ’’ ٹکے ‘‘ کا فائدہ دیا کرتی تھی ؟ لمحہ فکریہ
شہباز شریف کے عدلیہ میں کالی بھیڑیں کے بیان پر عدلیہ نے بھی بھر پور ردعمل دیااور اٹارنی جنرل کو مخاطب کر کے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب وزیر اعظم صاحب کو جا کر بتا دیں ہم کالی بھیڑیں نہیں بلکہ کالے بھونڈ ہیں۔ انتہائی گہرائی میں ڈوبا ہوا جملہ ! لمحہ فکریہ
بڑی سرگرم اور روزآنہ کی بنیاد پر تواتر سے جو خبر چل رہی ہے وہ سپریم کورٹ کے مخصوص نشستوں کے حوالے سے ہے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے فوراً بعد اچانک سے حکومتی سطح پرپاکستان تحریک انصاف پر پابندی لگانے کا عندیہ سامنے آیا جسے اتحادی اور اپوزیشن جماعتوں نے مسترد کیا ، اس سلسلے میں ایم کیو ایم ابھی تک خاموش ہے ، اب بہت تاخیرہو چکی ہے مصلحتوں سے کام لینے کا نتیجہ رائے عامہ میں شکوک پیدا کر دیتا ہے بھٹو دور میں حیات محمد خان شیر پائو کے جلسے میں دھماکہ ہوا جس میں حیات محمد شہید ہوئے تو بھٹو حکومت نے اسی وقت نیشنل عوامی پارٹی ( نیپ ) پر پابندی لگا دی تھی۔ اب پی ٹی آئی پر پابندی سے ملک میں افراتفری ہی پھیلے گی۔ سر دست مخصوص نشستوں کا معاملہ سمجھ سے بالا تر ہے جیسا کہ وزیر قانوں ، مبصرین اور سیاست دان کہہ چکے ہیں ،یہ معاملہ دور اندیشی اور آئینی طور پر حل ہونے کا متقاضی ہے ، متنازع فیصلے اورمعاملات ملکی میں افراتفری اور انتشار کے علاوہ ریاستی استحکام کو بھی مجروح کر دیتے ہیں ،ایک بزرگ شخص کا گزر ایک گائوں سے ہوا جہاں ایک مجمع لگا ہوا تھا اور لوگوں کی صدائیں بھی بلند ہو رہی تھیں ، اس بزرگ نے ایک آدمی سے پوچھا یہ معاملہ کیا ہے آدمی نے بتایا کہ ایک بچے کا کھلونا چھین لیا گیا ہے ، اور گائوں کے پنچ یہ فیصلہ کریں گے کہ مذکورہ کھلونا اسی بچے کا ہے یا کسی اور کا ،بزرگ مجمع میں چلا گیا دیکھتا ہے کہ پنچائیت کے افراد ایک دوسرے کے کانوں میں کچھ سرگوشیاں کرتے ہیں اور پھر مجمع کی طرف دیکھ کر سر ہلا ہلا کر سمجھنے کا اشارہ دے رہے ہیں کہ اتنے میں ایک بچہ روتا ہوا مجمع میں آتا ہے ، پنچوں نے اسے دیکھا اور ایک پنچ نے وہ کھلونا اٹھا کر اس روتے ہوئے بچے کو دے کر کہا کہ یہ لو اور چپ کر جائو یہ تمہارا ہی ہے ، بزرگ نے استفسار کیا کہ یہ کیسے ثابت ہوا کہ کھلونا اسی بچے کا ہے ، انہوں نے کہا ہم جانتے ہیں اگر اس کا نہ ہوتا تو یہ نہ روتا ، بزرگ نے پنچائیت کو جو جواب دیا وہ ضبط تحریر میں نہیں لایا جا سکتا ، اور نہ ہی توہین عدالت ، اسٹیبلشمنٹ کو دو ٹکے کا فائدہ اورکالے بھونڈ جیسی خبروں پر تبصرہ کیونکہ۔۔
سلسلے درد کے تھمتے ہی نہیں ہیں آسی
ہم تو اس حبس میں جینے کا مزہ بھول گئے
ملک کی داخلی اور خارجی صورتحال سعید آسی صاحب کو اس غزل کی عکاس ہے کہ
قافلہ ہٹنے لگا ہے اپنی منزل سے پرے
بے خبر ہے قافلہ سالار، الٰہی خیر ہو
اپنے دامن میں ہے کیا ، بس لغزشیش ہی لغزشیش
اور بیٹھے طاق میںباغیار، الٰہی خیر ہو
بیچ ہے منجدھار آسی اور ساحل دور ہے
کیسے ہوگا اپنا بیڑا پار الٰہی خیر ہو