خواجہ صادق کاشمیری

Jul 21, 2024

جمیل اطہر قاضی

خواجہ صادق کاشمیری، امرتسر سے ترکِ سکونت کرکے لاہور آئے اور لاہور کی سیاسی، سماجی اور صحافتی زندگی کا ایک اہم کردار بن گئے۔ وہ ممتاز صحافی اور سیاست دان آغا شورش کاشمیری کے برادر نسبتی تھے اور ان کے مخالف اُن پر یہ پھبتی بھی کستے تھے کہ وہ آغا شورش کاشمیری کو جہیز میں ملے ہیں۔ وہ لاہور میں لائل پور کے کثیرالاشاعت اخبار ’’غریب‘‘ کے نمائندہ خصوصی تھے۔ اُس وقت بیوروچیف کی اصطلاح سامنے نہیں آئی تھی ورنہ وہ بیورو چیف ہی کہلاتے، خواجہ صادق کاشمیری بے حد فیاض، فراخ، کشادہ ظرف اور کشادہ قلب انسان تھے، اُن کا گھرکئی بے گھر اور بے آسرا صحافیوں اور سیاسی کارکنوں کا مسکن رہا، ان کے ہاں سے ناشتہ، دوپہر اور رات کا کھانا بھی میسر آجاتا، کئی معروف صحافیوں کے چہرے ذہن میں آرہے ہیں جنہیں گوال منڈی کی سونی سٹریٹ میں ان کے مختصر سے گھر میںرہنے کا ٹھکانہ نصیب تھا، جب تک چوہدری ریاست علی آزاد حیات رہے اور روزنامہ ’’غریب‘‘ کا عروج رہا، خواجہ صادق کاشمیری کی اس اخبار سے وابستگی وفاداری بشرطِ استواری کا عملی نمونہ بنی رہی۔
جب فروری 1965ء میں لاہور سے شام کا اخبار ’’وفاق‘‘ نکالنے کا منصوبہ بنا تو اس کے لئے دفتر آغا شورش کاشمیری کے شہرہ آفاق سات روزہ ’’چٹان‘‘ کی عمارت کی پہلی منزل پر قائم کیا گیا۔ اُس وقت خواجہ صادق کاشمیری سات روزہ ’’چٹان‘‘ کے اسسٹنٹ ایڈیٹر اور آغا شورش کاشمیری کے عملاً پولیٹیکل سیکرٹری بن چکے تھے اور ’’چٹان‘‘ کے دفتر میں اُنہیںمیز کرسی مل گئی تھی۔
 روزنامہ ’’غریب‘‘ سے وابستگی کے زمانے میں اس اخبار میں جن رپورٹروں کے نام سے(بائی لائن) خبریں شائع ہوتی تھیں اُن میں کراچی کے احمد اسحق، لاہور کے خواجہ صادق کاشمیری، جھنگ کے بلال زبیری اور ٹوبہ ٹیک سنگھ سے یہ خاکسار شامل تھے۔
88 میکلوڈ روڈ پر ’’چٹان‘‘ بلڈنگ میں آنے کے بعد خواجہ صادق کاشمیری سے ربط ضبط بڑھ گیا، وہ بے حد ملنسار، مہمان نواز، خوش گفتار اور فقرہ باز شخص تھے اور اپنی مالی تنگ دامنی کو اپنے ان اوصاف کے پیچھے چھپائے رکھتے تھے، آغا شورش کاشمیری کے تمام سیاسی، صحافتی اور دینی حلقوں سے روابط خواجہ صادق کاشمیری کے ذریعے ہی انجام پاتے تھے، جلسوں میں شرکت کے لئے تاریخ مقرر کرنا، آنے جانے کے انتظامات کو حتمی شکل دینا اور لاہور کی سیاسی و سماجی تقریبات میں شمولیت کے لئے آغا صاحب کی مصروفیات کو طے کرنا، یہ سارے فرائض خواجہ صادق کاشمیری کے ذمہ تھے۔
خواجہ صادق کاشمیری کا سیاسی ڈیرہ نکلسن روڈ پر نواب زادہ نصراللہ خان کی رہائش گاہ اور اُن کی جماعت کا مرکزی دفتر تھا۔ نواب زادہ صاحب کوکئی سیاسی کارکن خواجہ صادق کاشمیری کے ہاں سے دستیاب ہوئے جن میں پاکستان جمہوری پارٹی کے سیکرٹری اطلاعات خواجہ اظہار الدین بھی تھے جو اظہار کاشمیری کے نام سے شعر و شاعری بھی کرتے تھے۔ خواجہ صادق کاشمیری نے مرتے دم تک نواب زادہ نصراللہ خان سے تعلق برقرار رکھا، جب نواب زادہ نصراللہ خان نے عوامی لیگ کے چھ نکات پر شیخ مجیب الرحمن سے اپنے راستے الگ کئے اور اُن کی الگ جماعت عوامی لیگ (آٹھ نکاتی) وجود میں آئی تو مشرقی و مغربی پاکستان کی کئی چھوٹی جماعتوں نے ایک نئی بڑی سیاسی جماعت تشکیل دینے کے لئے ڈھاکہ کنونشن منعقد کیا، مغربی پاکستان سے نواب زادہ نصراللہ خان کے ساتھ ڈھاکہ جانے والوں میں سید محمد صابر جعفری، رانا نذرالرحمن، میاں غلام دستگیر باری، ارشد چوہدری اور نواب زادہ افتخار احمد خان انصاری کے علاوہ خواجہ صادق کاشمیری بھی شامل تھے۔ یہ لوگ مشرقی پاکستان کے سابق وزیر اعلیٰ جناب نورالامین کی سربراہی میں پاکستان ڈیموکریٹک (اردو میں پاکستان جمہوری پارٹی) تشکیل دینے کے بعد لاہور واپس پہنچے۔ اُن کے واپس آنے کے دو تین دن بعد پتہ چلا کہ خواجہ صادق کاشمیری کا لاہور سے ڈھاکہ جاتے ہوئے طیارے میں پی آئی اے کے عملہ سے جھگڑا ہوگیا۔
 میں نے اس واقعہ کی حقیقت جاننے کے لئے اُنہیں فون کیا (ہمارا دفتر چٹان بلڈنگ سے منتقل ہوکر لاہور ہوٹل کے سامنے اُس جگہ پر آگیا تھا جہاں اب یوگنڈا ہوٹل ہے) اور خواجہ صاحب سے اس واقعہ کی تفصیل جاننا چاہی تو اُنہوں نے ایک فلک شگاف قہقہہ لگایا اور کہنے لگے، 
’’یار جمیل! کھانے کا وقت ہوا تو ایئر ہوسٹس نے میرے سامنے کھانا رکھا لیکن سالن کی پلیٹ میں گوشت کی صرف دو بوٹیاں دیکھ کر میں اپنے آپ میں نہ رہا، دونوں طرف کے مسافروں کی پلیٹوں میں چار چار بوٹیاں میرا منہ چڑا رہی تھیں، غصہ تو مجھے بہت آیا لیکن میں نے بہت ضبط سے کام لیا مگر بُرا ہو پی آئی اے والوں کا، کھانے کے بعد اُنہوں نے شراب پیش کرنا شروع کردی، غصہ تو دراصل مجھے کم بوٹیوں کا تھا لیکن اس کے اظہار کا مناسب موقع اب آیا تھا، میں نے اپنی نشست پر کھڑے ہوکر شور مچانا شروع کردیا اور پی آئی اے کے عملہ سے مطالبہ کیا کہ وہ یہ سلسلہ فوری طور پر بند کردے کیونکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اس قسم کی حرکتیں نا قابلِ برداشت ہیں۔‘‘
 خواجہ صاحب کی گفتگو جاری تھی کہنے لگے جب میری باتوں کا اُن پر کوئی اثر نہ ہوا تو میری آواز اور بھی بلند ہوگئی اور میں نے پائلٹ کو پکار پکار کر یہ مطالبہ شروع کردیا کہ وہ فوری طور پر طیارہ روک لے کیونکہ میں اس میں سفر جاری نہیں رکھ سکتا۔ یہ چیخ پکار سن کر دوسرے مسافروں نے مجھے سمجھانا چاہا، مگر میں اپنی ضد پر قائم رہا بالآخر پارٹی کے دوسرے رہنما پی آئی اے کی مدد کو آئے او ر اُنہوں نے بمشکل میرے غصہ کو ٹھنڈا کیا۔ یہ تفصیل سنانے کے بعد خواجہ صاحب نے پھر قہقہے لگائے اور مجھ سے پوچھا کیوں جی کیسی رہی؟… یہ تھے ہمارے خواجہ صادق کاشمیری۔
…………………… (جاری) 
پنجاب کے محکمہ اطلاعات کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر سید اقتدار علی مظہر سرگودھا سے تبدیل ہوکر لاہور آگئے اور پریس لاز برانچ میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ مظہر صاحب بہت باغ و بہار شخص تھے، بات بات پر قہقہے لگانا اُن کی شخصیت کا حُسن بن گیا تھا، میری خیریت پوچھنے کے بعد فرمانے لگے، ’’آپ کو معلوم ہے کہ میں پریس لاز برانچ میں آگیا ہوں‘‘… میں نے عرض کیا، ’’جی ہاں! مجھے معلوم ہے‘‘… مظہر صاحب نے فرمایا، ’’میرے لائق کوئی خدمت؟‘‘ میں نے گذارش کی، ’’مجھے ’’خدمت‘‘ کے نام سے اخبار شائع کرنے کا اجازت نامہ (DECLARATION) دے دیں‘‘۔ اُنہوں نے فرمایا، ’’ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں درخواست دے دیں یہاں سے منظوری مل جائے گی‘‘ اور قہقہوں کے درمیان یہ گفتگو اختتام کو پہنچی۔
دو چار روز کے بعد میں نے سات روزہ ’’خدمت‘‘ شائع کرنے کیلئے باقاعدہ درخواست اور ڈیکلریشن فارم دفتر ڈپٹی کمشنر میں پہنچا دئیے اور یہ مرحلہ طے کرنے کے بعد بالکل بُھول گیا کہ میں نے اخبار شائع کرنے کی اجازت کے حصول کے لئے کوئی درخواست دی ہوئی ہے۔
میں اُس زمانے میں گوالمنڈی کے کُوچہ اسمٰعیل حسین میں حاجی برکت علی صاحب کے نو تعمیر شدہ مکان میں رہتا تھا، میرے گھر میں ٹیلی فون کی کوئی سہولت نہیں تھی، چپراسی دوپہر کا کھانا لینے کے لئے گھر گیا تو میری اہلیہ نے پیغام دیا کہ گوالمنڈی تھانے سے دو پولیس والے آئے تھے، آپ کا پوچھ رہے تھے، جب میں نے بتایا کہ وہ گھر پر نہیں ہیں تو اُنہوں نے کہا کہ جب وہ گھر آئیں تو اُنہیں گوالمنڈی تھانے بھیج دیں۔ میں یہ پیغام سُن کر پریشان ہوگیا اور کھانا کھانا بھی بُھول گیا۔ میں نے پریشانی کے عالم میں خواجہ صادق کاشمیری کو فون کیا اور یہ ساری روداد سنا کر ان کی مدد کا طالب ہوا، خواجہ صاحب نے تسلی دی اور گوالمنڈی تھانے فون کرکے مجھے حقیقت حال بتانے کا وعدہ کیا۔ چند لمحوں بعد ٹیلی فون کی گھنٹی بجی، لائن پر خواجہ صاحب تھے اور ساتھ ہی اُن کے قہقہے، ’’یار جمیل! تم نے کوئی اخبار ’’خدمت‘‘ کے نام سے شائع کرنے کے لئے درخواست دے رکھی ہے؟‘‘… ’’جی ہاں خواجہ صاحب‘‘ میں نے جواب دیا۔ ’’بھئی وہ خفیہ پولیس والے تمہارے متعلق کچھ معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تم پانچ بجے شام گوالمنڈی تھانے جاکر اے ایس آئی غلام نبی کو مل لو، میرا نام لے لینا اس کے پاس‘‘۔ ’’بہت مہربانی خواجہ صاحب!‘‘ میرے پاس شکریہ کے لئے مناسب الفاظ نہیں، خواجہ صاحب نے ایک بڑی پریشانی دور کردی، ورنہ تھانہ گوالمنڈی میں طلبی سے میری ٹانگیں کانپ رہی تھیں۔
میں شام کو پانچ بجے تھانہ گوال منڈی میں حاضر ہوا اور مختلف کمروں میں ڈھونڈتا ہوا اے ایس آئی غلام نبی کے پاس جا پہنچا جو ایک چارپائی پر سورہا تھا، میں نے آواز دے کر اُسے جگایا اور بتایا کہ مجھے خواجہ صادق کاشمیری نے آپ کے پاس بھیجا ہے، آپ کے دو سپاہی کوچہ اسمٰعیل حسین میں میرا پوچھنے میرے گھر گئے تھے۔ غلام نبی چارپائی پر اُٹھ کر بیٹھ گیا، سرہانے سے ایک دو فائلوں میں سے میری فائل نکالی اور چُھوٹتے ہی مجھ سے دریافت کیا کہ کیا میرا پیپلز پارٹی سے کوئی تعلق ہے؟ میں نے کہا، ’’میرا ہر جماعت سے تعلق ہوسکتا ہے سوائے پیپلز پارٹی کے‘‘ یہ سُن کر وہ بہت خوش ہوا اور فائل میں سے وہ کاغذ نکال کرمجھے دے دئیے جس میں میری سیاسی وابستگی، صحافتی تجربہ، مالی حیثیت اور یہ کہ کسی فوجداری مقدمہ میں مجھے کوئی سزا تو نہیں ہوئی، کے بارے میں سوالات تھے۔ اُنہوں نے کہا کہ میں یہ فارم خود ہی پُر کردوں، سو میں نے اپنے متعلق یہ خفیہ معلومات اپنے قلم سے لکھ دیں اور فارم اے ایس آئی کے حوالے کردیا جنہوں نے اس پر اپنے دستخط ثبت کئے، تھانے کی مُہر چسپاں کی اور مجھے چائے کی پیالی پلاکر وہاں سے رخصت کردیا،سات روزہ ’’خدمت‘‘ کے توثیق شدہ ڈیکلریشن ایک  ہفتہ بعد مجھے مل گئے، مجھے یاد آیا کہ میری سات روزہ ’’خدمت‘‘ کے نام سے ایک ڈیکلریشن لینے کے بعد خواجہ صاحب نے بھی سات روزہ ’’اداکار‘‘ کے نام سے ایک ڈیکلریشن حاصل کرلیا۔ آغا شورش کاشمیری کو تو اُنہوں نے یہی بتایا تھا کہ اگر ’’چٹان‘‘ پر کوئی اُفتاد پڑی تو یہ نام متبادل پرچہ نکالنے کے کام آئے گا جیسا کہ ایڈیٹر ’’چٹان‘‘ اور ’’ایشیا‘‘ کے مدیر ظہورالحسن ڈار کے مابین صحافتی جنگ کے دوران پنجاب حکومت نے دونوں جرائد چھ چھ ماہ کے لئے بند کردئیے تھے اور آغا شورش کاشمیری نے ’’چٹان‘‘ کی جگہ ’’عادل‘‘ شائع کیا تھا، لیکن ’’اداکار‘‘ آغا شورش کے کام تو نہ آیا البتہ جناب مجیب الرحمن شامی کی زیر ادارت شائع ہونے والے جرائد جب یکے بعد دیگرے بند کئے جانے لگے تو خواجہ صادق کاشمیری نے ’’اداکار‘‘ کا ڈیکلریشن بھی شامی صاحب کو مستعار دے دیا تھا۔

مزیدخبریں