اکثر افراد کو لگتا ہے کہ جیسے وقت بہت تیزی سے گزر رہا ہے اور جیسے اس کو پَر لگ گئے ہیں۔اکثر کہا جاتا ہے کہ جب لوگ خوشی محسوس کرتے ہیں تو وقت کو پَر لگ جاتے ہیں۔اب ایک نئی تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ اس خیال میں سچائی ہے اور ایسا ہمارے دماغ کی وجہ سے ہوتا ہے۔امریکا کی Nevada یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ بیشتر افراد کو لگتا ہے کہ ہمارا دماغ انسانوں کی تیار کردہ گھڑیوں کے مطابق وقت کا خیال رکھتا ہے، یعنی وقت کا تعین منٹ بائی منٹ کرتا ہے۔مگر تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ہمارا دماغ اس طرح کام نہیں کرتا۔دماغی سرگرمیوں کا تجزیہ کرنے پر دریافت ہوا کہ ہم وقت کا تعین خود کے ساتھ ہونے والے تجربات کی بنیاد پر کرتے ہیں۔تحقیق کے مطابق مختلف سرگرمیوں کے دوران ہمارا دماغ وقت کے تیزی سے گزرنے کا احساس دلاتا ہے۔محققین نے بتایا کہ ہم وقت کا تعین اپنے ساتھ ہونے والے واقعات یا تجربات کی بنیاد پر کرتے ہیں۔انہوں نے مزید بتایا کہ جب ہم بیزار ہوتے ہیں یا کچھ نہیں کر رہے ہوتے تو وقت بہت سست روی سے گزرتا ہے کیونکہ ہمارے اردگرد کچھ نہیں ہو رہا ہوتا، اس کے برعکس جب ہم بہت زیادہ مصروف ہوتے ہیں یا ہمارے اردگرد کافی کچھ ہو رہا ہوتا ہے تو دماغی سرگرمیاں بھی تیز ہو جاتی ہیں اور ہمیں لگتا ہے کہ وقت بہت تیزی سے گزر رہا ہے۔اس تحقیق میں چوہوں پر تجربات کیے گئے تھے اور انہیں مختلف چیزیں سونگھنے کے لیے دی گئیں۔سائنسدان پہلے سے جانتے ہیں کہ دماغی سرگرمیاں لگ بھگ ایک جیسی ہوتی ہیں مگر جب ایک چیز بار بار کی جاتی ہے تو وہ سرگرمیاں کچھ مختلف ہو جاتی ہیں۔تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ہمارے تجربات وقت گزرنے کے احساس میں اہم کردار ادا کرتے ہیں کیونکہ دماغی سرگرمیوں کا انداز کافی حد تک بدل جاتا ہے۔محققین نے اس طرح کے تجربات انسانوں پر بھی کیے۔ان تجربات کے دوران فیکٹری ورکرز کے 2 گروپ بنائے گئے۔ایک گروپ کو اپنا کام 30 منٹ جبکہ دوسرے کو 90 منٹ میں مکمل کرنے کی ہدایت کی گئی۔نتائج سے معلوم ہوا کہ کام کو مکمل کرنے کے دورانیے سے دماغی سرگرمیوں کے انداز پر اثرات مرتب نہیں ہوئے، کیونکہ ہمارا دماغ گھڑی نہیں بلکہ وہ وقت کا تعین مختلف انداز سے کرتا ہے۔محققین نے دریافت کیا کہ جب ہمارا دماغ کسی ایسے کام میں پیشرفت کرتا ہے جس کے لیے کافی متحرک رہنے کی ضرورت ہوتی ہے تو دماغی خلیات ایک دوسرے سے مل کر کام کرنے لگتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ جب ایسا ہوتا ہے یعنی خلیات اکٹھے کام کرنے لگتے ہیں تو وقت گزرنے کا احساس بھی کام کے مکمل ہونے سے جڑ جاتا ہے۔تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ جسمانی سرگرمیوں سے ہٹ کر تیزی سے وقت گزرنے کا احساس دیگر سرگرمیوں بھی ہوتا ہے۔محققین کے مطابق کھانے کے وقت اگر ہم کسی سے بات چیت کر رہے ہوتے ہیں تو بھی وقت تیزی سے گزرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ہم جتنا زیادہ مصروف ہوتے ہیں وقت اتنی تیزی سے گزرتا ہے اور یہ بات سچ ہے کہ جب کسی تفریحی سرگرمی کا حصہ بنتے ہیں تو واقعی وقت کو پَر لگ جاتے ہیں۔محققین کے مطابق اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ نتائج کی ٹھوس تصدیق ہوسکے جبکہ یہ بھی معلوم ہوسکے کہ وقت گزرنے کے احساس سے ہماری یادداشت اور روزمرہ کی زندگی پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔اس تحقیق کے نتائج کرنٹ بائیولوجی میں شائع ہوئے۔اس سے قبل ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ جیسے جیسے ہماری عمر بڑھتی ہے تو ہمارے دماغ کی اندرونی گھڑی کی رفتار سست ہوجاتی ہے، جس کے نتیجے میں زندگی تیز رفتار محسوس ہونے لگتی ہے۔دیگر تحقیقی رپورٹس میں عندیہ دیا گیا ہےکہ وقت گزرنے کے احساس اور نئی ادراکی تفصیلات کے درمیان تعلق موجود ہے۔یعنی جب ہم چھوٹے ہوتے ہیں تو سب کچھ نیا لگتا ہے جس کے باعث ہمارے دماغ کو زیادہ تجزیہ کرنا پڑتا ہے اور اس کے نتیجے میں وقت گزرنے کی رفتار سست محسوس ہوتی ہے۔ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کسی منفرد سرگرمی کے نتیجے میں دماغ سے خارج ہونے والے ہارمون ڈوپامائن کے اخراج کی شرح میں 20 سال کی عمر کے بعد کمی آنے لگتی ہے، جس کے باعث ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ وقت بہت تیزرفتاری سے گزر رہا ہے۔