پاک ایمیرایٹس فورم (PAK AMIRATES FORUM) نے پاکستانی معاشرے کے مختلف شعبوں میں ناقابل فراموش قومی خدمات سرانجام دینے والی عظیم شخصیات کو بطور ”لِونگ لیجنڈ“ (Living Legend) ایوارڈ دینے کی جو گراں قدر روایت قائم کی ہوئی ہے اس کی روشنی میں پاکستان کے ایک ایسے سینئر اور قومی رہنما صحافی کے طور پر جن کی حق و صداقت، جرا¿ت و شجاعت اور طویل ترین قومی و صحافی خدمات کی پوری ملت پاکستان معترف ہو، نوائے وقت گروپ کے چیف ایڈیٹر جناب مجید نظامی کا انتخاب کیا اور ان کو وہ تاریخی ایوارڈ پیش کرنے کے لئے شاہراہ قائداعظم محمد علی جناح لاہور کے دہانے پر ایستادہ پرل کانٹی نینٹل ہوٹل کے شالیمار ہال میں ایک نہایت سادہ مگر ایک باوقار تقریب منعقد کی جس میں پاکستان کی دینی، سیاسی، سماجی، ادبی اور قومی و صحافتی شخصیات نے بڑے پیمانے پر شرکت کی اور جناب مجید نظامی کی فقید المثال قومی و صحافی خدمات کی معرکہ آرائی کے اعزاز کے لئے جن عظیم شخصیات نے اظہار خیال کیا ان میں پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران، پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر رفیق احمد، متروکہ املاک ٹرسٹ کے چیئرمین آصف ہاشمی، کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز کے صدر خوشنود علی خان، ڈاکٹر فیاض رانجھا، ڈاکٹر غضنفر مہدی، سابق وفاقی وزیر پٹرولیم نوریز شکور، قومی اسمبلی کی رکن اور نوائے قوت کی کالم نگار بلبل پنجاب بشریٰ رحمان، صحافی، دانشور اور شاعر صوفیہ بیدار، اسلام آباد کے نوجوان صحافی شعیب بھٹہ اور قومی اسمبلی کے رکن پرویز ملک نے نہایت جذباتی انداز میں جناب مجید نظامی کی گراں قدر خدمات کو خراج ستائش پیش کیا اور سات بجے شام سے گیارہ بجے شب تک ایک گرینڈ گالا ڈنر سے پہلے جناب مجید نظامی پر اپنی عقیدت و ارادت کے پھول نچھاور کئے اور پاکستان کی جغرافیائی اور نظریاتی حفاظت و تحفظ کے باب میں ان کے تاریخی احساسات کو ملتِ پاکستان کے لئے عالمی سطح پر حقیقی ذریعہ رہنمائی و قیادت قرار دیا اور اپنی تقاریر میں اشارةً اور واضح طور پر بھی بارگاہِ رب العزت میں دعا کی کہ اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے بے پایاں فضل و کرم سے پاکستان کو سیاسی اور قومی سطح پر ایک ایسی قیادت عطا فرما دے جو پاکستان کے جغرافیائی و نظریاتی تحفظ اور ارتقا کے میدان میں انہی احساسات کی حامل ہو جو جناب مجید نظامی کے دل و دماغ میں تڑپتے اور ان کے سینے میں موجزن رہتے ہیں، آج مقررین بھی مجید نظامی کی عقیدت و ارادت سے سرشار معلوم ہو رہے تھے اور واقعہ تو وہ ہے کہ جن شخصیات کو تنگی¿ وقت کے باعث یا ایک طے شدہ پروگرام کی تکمیل کر دینے کے نقطہ¿ نظر سے اظہار خیال کا وقت نہ دیا جا سکا وہ بہ امر مجبوری اپنے سینوں میں اپنے جذبات کو تھام کے رہ گئیں، تاہم اس تقریب کے روح و رواں اقبال حسین لکھویرا نے قاری امتیاز احمد تارڑ کے قرآن مجید فرقان حمید کی چند آیات تلاوت کرنے کی سعادت حاصل کر لینے کے بعد اپنی علمی بساط کے مطابق میدان صحافت میں سے بطور لِونگ لیجنڈ وہ ایوارڈ پیش کرنے کے لئے وہ تحقیقاتی تصریحات بیان کیں کہ آخر پورے پاکستان میں سے جناب مجید نظامی ہی کو اس اعزاز کا مستحق کیوں گردانا گیا۔ انہوں نے اپنے خطبہ استقبالیہ میں واضح کیا کہ اس ایوارڈ کے لئے متعلقہ شخصیات میں سے ایک غیر متنازعہ اور ایک ایسی موزوں ترین شخصیت کا انتخاب کرنے کے کٹھن فریضہ کی انجام دہی میں ”پاک ایمیرایٹس فورم“ نے ہر سطح پر ہر متعلقہ شخصیت کی خدمات کو کھنگالنے کی کوشش کی مگر جن شخصیات کو زیر غور لانے کی کوشش کی گئی انہوں نے بھی اس اعزاز کا واقعی اہل جناب مجید نظامی ہی کو ٹھہرایا لہٰذا میں کہوں گا کہ جناب مجید نظامی خود ایک عہد بلکہ عہد ساز و عہد نواز شخصیت ہیں وہ اپنے برادر بزرگ جناب حمید نظامی کی اچانک وفات کے بعد 48 برس سے نوائے وقت کی ادارت کے کٹھن فرائض سرانجام دے رہے ہیں اور آج بھی نوائے وقت گروپ کے اخبارات و جرائد کی ادارت کی ذمہ داری یگانہ¿ روزگار انداز میں ادا کر رہے ہیں اپنے طویل ترین صحافتی عہد میں ان کو فوجی ڈکٹیٹرز اور سویلین آمروں سے پالا پڑتا رہا مگر انہوں نے ہمیشہ ایک جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق بلند کرتے رہنے والے ایک ایسے ناقابل فراموش عظیم صحافی کا فریضہ ادا کرتے رہنے کی جرا¿ت و شجاعت کا ثبوت دیا کہ جس کے سامنے دنیوی اور حرص و آز سے مربوط مفادات مصالح کی کبھی کوئی اہمیت نہ رہی اور صدر ایوب خان، صدر یحیٰی خان، صدر ضیاالحق اور صدر پرویز مشرف کے علاوہ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو وزیراعظم بے نظیر بھٹو وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اور اب صدر آصف علی زرداری کی تاریخ اقتدار اس حقیقت کی آئینہ دار و شاہد رہے گی۔ انہوں نے ہر جابر و آمر حکمران کے سامنے خم ٹھونک کر ان ایثار و قربانی طلب فرائض کو ادا کیا جن فرائض کے اقتضا کے سامنے پاکستان کے سیاستدان حکمرانوں کا پِتا پانی ہو جاتا رہا اس لئے مَیں بجا طور پر موجودہ حکومت سے مطالبہ کروں گا کہ پاکستان کے ہر شہر کی بڑی شاہراہ کو جناب مجید نظامی سے موسوم کر دیا جائے۔ پنجاب یونیورسٹی میں مجید نظامی چیئر قائم کی جائے اور مجید نظامی کی عظیم خدمات کے اعتراف میں ہر سال عالمی مشاعرے کا اہتمام کیا جایا کرے۔ اس تقریب میں ڈاکٹر رفیق احمد ایک ایسی شخصیت تھے جو اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور میں ان کے کالج فیلو تھے اور جب وہ ڈاکٹریٹ کرنے کے لئے لندن گئے تو جناب مجید نظامی بھی وہیں تھے چنانچہ جب ایک تقریب میں ایک سکھ مصنف اقبال سنگھ نے کہا کہ علامہ اقبال کے فکر کا عہد گزر چکا تھا تو مجید نظامی فوراً طیش میں آ گئے اور ان کو وہ بھی یاد نہ رہا کہ وہ لاہور میں نہیں لندن میں تھے مگر انہوں نے شیر کی طرح دھاڑتے ہوئے اقبال سنگھ کو مخاطب ہو کر کہا کہ ”چپ کر اوئے سِکھا‘ اپنا غلیظ منہ بند رکھ‘ سٹاپ دِس نان سینس“ چنانچہ ڈاکٹر غضنفر مہدی نے آج کی تقریب میں اعتراف کیا کہ ”مجید نظامی سالمیت پاکستان کی علامت ہیں، میں گزشتہ 50 سال سے ان کو اپنا مرشد مانتا ہوں اور آج یہاں اعلان کر رہا ہوں کہ اسلام آباد میں جلد ہی ایک آڈیٹوریم ان سے موسوم کیا جائے گا، بشریٰ رحمان نے کہا کہ ہمارے لئے تو وہی سرمایہ افتخار ہے کہ ہم ”عہدِ مجید نظامی“ میں زندہ ہیں جبکہ خوشنود علی خان نے تجویز کیا کہ آج پاکستان کی عنانِ اقتدار جن لوگوں کے ہاتھ میں ہے وہ ایک ایٹمی میزائیل کو جناب مجید نظامی سے موسوم کریں کیونکہ ان کے دباو اور تجویز اور اصرار پر ہی میاں محمد نواز شریف نے ایٹمی دھماکے کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔