آزاد جموں و کشمیرکے چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) خواجہ محمد سعید نے آزاد کشمیر اور مہاجرین جموں و کشمیر میں اسمبلی کے آئندہ انتخابات کے شیڈول کا اعلان کردیا ہے شیڈول میں انتخابی عمل کے مختلف مراحل بیان کرنے کے ساتھ چیف الیکشن کمشنر نے سیاسی جماعتوں اور امیدواران سے اپیل کی ہے کہ وہ انتخابات کے عمل کو پرامن بنانے کیلئے شائستگی کا مظاہرہ کرینگے۔
جسٹس (ر) خواجہ محمد سعیدنے الیکشن کے تمام مراحل کو تفصیل سے بیان کیا ہے لیکن انکی پریس کانفرنس میں شائستگی کی اپیل میں انکے اپنے شائستہ مزاج کی خوشبو بکھری ہوئی تھی ہمیں امید ہے اس خوشبو سے سیاسی جماعتوں اور امیدواران کیلئے رویہ اور مزاج میں ملائمت پیدا ہوگی اور انتخابات کا عمل کم سے کم تناﺅ اور غبار کےساتھ تکمیل ہوگا‘ پاکستان میں تو تعلیمی قابلیت کی شرط حذف کردی گئی ہے آزاد کشمیر میں میٹریکولیشن کی شرط رکھی گئی ہے پاکستان میں بھی ڈگری کی نہیں تو میٹرک کی شرط رکھنی چاہئے تھی وہاں کی پارلیمنٹ اور سینٹ نے آئین کے تحفظ اس میں ترامیم اور اہم ترین قومی امور پر بحث کرنی اور قوم و حکومت کو پالیسی لائن دینی ہوتی ہے وہاں پر ممبران کی اتنی تعلیمی قابلیت ہونی چاہئے کہ وہ بحث میں حصہ بھی لے سکیں اور اپنے علم و تجربہ کے ساتھ پالیسی کی ترتیب میں بھی قابل قدر حصہ لے سکیں۔ تعلیمی قابلیت کی ضرورت تو ہماری اسمبلی کی کارروائی کو بھی موثر بنانے کیلئے ضروری ہے آزاد کشمیر میں ووٹرز کی تعداد تقریباً 23 لاکھ بتائی گئی ہے۔ چیف الیکشن کمشنر نے بتایا کہ ووٹرز کا اندراج جاری رہے گا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سب ووٹرز کا اندراج نہیں ہو سکا ہے۔ اس کا سبب ووٹرز کی اپنی بے نیازی اور تساہل بھی ہے کہ وہ اپنا ووٹ درج کرانے میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرتے۔
ووٹرانکی موجودہ تعداد سے بھی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ آزاد کشمیر کی آبادی 32 لاکھ سے زیادہ ہوگئی ہے ‘مہاجرین کے ووٹرز چھ لاکھ 12 ہزار ہیں چیف الیکشن کمشنر نے خود بتایا ہے کہ ان میں 31 فیصد اضافہ ہو چکا ہے‘ الیکشن شیڈول میں جو طریقہ کار یا مختلف اقدامات بتائے گئے ہیں ان پر الیکشن کا عملہ اور ووٹرز و امیدواران اچھے طرز عمل کے ساتھ حصہ لیں تو انتخابات مثالی ہوسکتے ہیں آزاد کشمیر میں انتخابات بالعموم اچھے طرز عمل اور رواداری کی اچھی روایات کےساتھ منعقد ہوتے رہے ہیں کہیں کہیں اور کبھی کبھی جوش و تناﺅ کے چھینٹے اس عمل کو داغدار کرتے رہتے ہیں لیکن اتنے نہیں جتنے پاکستان کے انتخابات میں پڑتے رہے ہیں آزاد کشمیر میں سوائے 1975ءکے انتخابات ایک بدنام بیورو کریٹ اور ایک بدنام سابق میجر کے شرمناک ہتھکنڈے کے باعث انتخابات کی روح کو بری طرح پامال کیا گیا تھا اسکے علاوہ انتخابات عدالت عالیہ یا عدالت عظمیٰ کے ججز کی زیر نگرانی ہوئے ہیں ان انتخابات پر ثبوت کے ساتھ کوئی انگلی نہیں اٹھائی گئی 2006ءکے انتخابات پر بعض سیاسی حلقوں کو شکایات رہیں لیکن یہ شکایات اخباری بیانات تک تھیں۔
آزاد کشمیر کے انتخابات کی اہمیت صرف آزاد کشمیر کے خطہ میں حکومت یا قانون سازی تک محدود نہیں ہوتی کشمیر کے مسئلہ کی بین الاقوامی حیثیت کے پیش نظر انکی اہمیت بھی بین الاقوامی ہوتی ہے خاص کر جب کنٹرول لائن کے اس پار جوانتخابات منعقد ہوتے ہیں انکے بارے میں بین الاقوامی اور خود ہندوستان کے اندر انکی اثابت پر ہمیشہ شکوک و شبہات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے ۔
بھارت کی قیادت اس حقیقت کے پیش نظر کہ اس نے 7 لاکھ فوج سے کشمیر پر قبضہ کر رکھا ہے کہ کشمیریوں نے اس قبضہ کو کبھی تسلیم نہیں کیا وہ مقبوضہ کشمیر میں آزادانہ انتخابات کا خطرہ مول نہیں لے سکتا‘ اس لئے آزاد کشمیر کے انتخابات کے منصفانہ اور شفاف ہونے سے بھارت کی پوزیشن ہمیشہ خراب رہتی ہے آزاد کشمیر پاکستان کا آئینی حصہ نہیں ہے پاکستان اور کشمیریوں کا موقف ہے کہ یہ متنازعہ خطہ ہے اسکے مستقبل کا فیصلہ رائے شماری سے ہوگا جس پر سلامتی کونسل کی قراردادوں میں تسلیم کیا گیا ہے اور بھارت پاکستان دونوں ان قراردادوں کو تسلیم کر چکے ہیں اس اعتبار سے آزاد کشمیر کے انتخابات کی اہمیت اوربڑھ جاتی ہے آزاد جموں و کشمیر کا پاکستان سے آئینی اور انتظامی قانون 1970ءتک رولز بزنس کے ذریعے قائم تھا۔
1970ءایکٹ کے تحت آئینی تعلق قائم کیا گیا تھا یہ صدارتی نظام کے تحت قائم تھا 1974ءایکٹ کے تحت پارلیمانی نظام کے تحت ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں موجودہ آئینی، مالی انتظامی، سکیورٹی کا تعلق قائم کیا گیا تھا اس ایکٹ کے تحت ایک کشمیر کونسل قائم کی گئی ہے جس کے چیئرمین پاکستان کے وزیراعظم ہیں اس ایکٹ میں ترمیم کرکے ایکٹ 1970ءکی شکل میں ڈالا جائے تو آزاد کشمیر حکومت کو باوقار اختیار مل سکتے ہیں۔ امید ہے کہ جسٹس (ر) خواجہ محمد سعید اپنے حسن انتظام اور صاف ستھرے عمل سے انتخابات صاف ستھرے کرا کر اپنی شہرت کو چار چاند لگاسکیں گے ہم انکی کامیابی کیلئے دعا گو ہیں۔
جسٹس (ر) خواجہ محمد سعیدنے الیکشن کے تمام مراحل کو تفصیل سے بیان کیا ہے لیکن انکی پریس کانفرنس میں شائستگی کی اپیل میں انکے اپنے شائستہ مزاج کی خوشبو بکھری ہوئی تھی ہمیں امید ہے اس خوشبو سے سیاسی جماعتوں اور امیدواران کیلئے رویہ اور مزاج میں ملائمت پیدا ہوگی اور انتخابات کا عمل کم سے کم تناﺅ اور غبار کےساتھ تکمیل ہوگا‘ پاکستان میں تو تعلیمی قابلیت کی شرط حذف کردی گئی ہے آزاد کشمیر میں میٹریکولیشن کی شرط رکھی گئی ہے پاکستان میں بھی ڈگری کی نہیں تو میٹرک کی شرط رکھنی چاہئے تھی وہاں کی پارلیمنٹ اور سینٹ نے آئین کے تحفظ اس میں ترامیم اور اہم ترین قومی امور پر بحث کرنی اور قوم و حکومت کو پالیسی لائن دینی ہوتی ہے وہاں پر ممبران کی اتنی تعلیمی قابلیت ہونی چاہئے کہ وہ بحث میں حصہ بھی لے سکیں اور اپنے علم و تجربہ کے ساتھ پالیسی کی ترتیب میں بھی قابل قدر حصہ لے سکیں۔ تعلیمی قابلیت کی ضرورت تو ہماری اسمبلی کی کارروائی کو بھی موثر بنانے کیلئے ضروری ہے آزاد کشمیر میں ووٹرز کی تعداد تقریباً 23 لاکھ بتائی گئی ہے۔ چیف الیکشن کمشنر نے بتایا کہ ووٹرز کا اندراج جاری رہے گا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سب ووٹرز کا اندراج نہیں ہو سکا ہے۔ اس کا سبب ووٹرز کی اپنی بے نیازی اور تساہل بھی ہے کہ وہ اپنا ووٹ درج کرانے میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرتے۔
ووٹرانکی موجودہ تعداد سے بھی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ آزاد کشمیر کی آبادی 32 لاکھ سے زیادہ ہوگئی ہے ‘مہاجرین کے ووٹرز چھ لاکھ 12 ہزار ہیں چیف الیکشن کمشنر نے خود بتایا ہے کہ ان میں 31 فیصد اضافہ ہو چکا ہے‘ الیکشن شیڈول میں جو طریقہ کار یا مختلف اقدامات بتائے گئے ہیں ان پر الیکشن کا عملہ اور ووٹرز و امیدواران اچھے طرز عمل کے ساتھ حصہ لیں تو انتخابات مثالی ہوسکتے ہیں آزاد کشمیر میں انتخابات بالعموم اچھے طرز عمل اور رواداری کی اچھی روایات کےساتھ منعقد ہوتے رہے ہیں کہیں کہیں اور کبھی کبھی جوش و تناﺅ کے چھینٹے اس عمل کو داغدار کرتے رہتے ہیں لیکن اتنے نہیں جتنے پاکستان کے انتخابات میں پڑتے رہے ہیں آزاد کشمیر میں سوائے 1975ءکے انتخابات ایک بدنام بیورو کریٹ اور ایک بدنام سابق میجر کے شرمناک ہتھکنڈے کے باعث انتخابات کی روح کو بری طرح پامال کیا گیا تھا اسکے علاوہ انتخابات عدالت عالیہ یا عدالت عظمیٰ کے ججز کی زیر نگرانی ہوئے ہیں ان انتخابات پر ثبوت کے ساتھ کوئی انگلی نہیں اٹھائی گئی 2006ءکے انتخابات پر بعض سیاسی حلقوں کو شکایات رہیں لیکن یہ شکایات اخباری بیانات تک تھیں۔
آزاد کشمیر کے انتخابات کی اہمیت صرف آزاد کشمیر کے خطہ میں حکومت یا قانون سازی تک محدود نہیں ہوتی کشمیر کے مسئلہ کی بین الاقوامی حیثیت کے پیش نظر انکی اہمیت بھی بین الاقوامی ہوتی ہے خاص کر جب کنٹرول لائن کے اس پار جوانتخابات منعقد ہوتے ہیں انکے بارے میں بین الاقوامی اور خود ہندوستان کے اندر انکی اثابت پر ہمیشہ شکوک و شبہات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے ۔
بھارت کی قیادت اس حقیقت کے پیش نظر کہ اس نے 7 لاکھ فوج سے کشمیر پر قبضہ کر رکھا ہے کہ کشمیریوں نے اس قبضہ کو کبھی تسلیم نہیں کیا وہ مقبوضہ کشمیر میں آزادانہ انتخابات کا خطرہ مول نہیں لے سکتا‘ اس لئے آزاد کشمیر کے انتخابات کے منصفانہ اور شفاف ہونے سے بھارت کی پوزیشن ہمیشہ خراب رہتی ہے آزاد کشمیر پاکستان کا آئینی حصہ نہیں ہے پاکستان اور کشمیریوں کا موقف ہے کہ یہ متنازعہ خطہ ہے اسکے مستقبل کا فیصلہ رائے شماری سے ہوگا جس پر سلامتی کونسل کی قراردادوں میں تسلیم کیا گیا ہے اور بھارت پاکستان دونوں ان قراردادوں کو تسلیم کر چکے ہیں اس اعتبار سے آزاد کشمیر کے انتخابات کی اہمیت اوربڑھ جاتی ہے آزاد جموں و کشمیر کا پاکستان سے آئینی اور انتظامی قانون 1970ءتک رولز بزنس کے ذریعے قائم تھا۔
1970ءایکٹ کے تحت آئینی تعلق قائم کیا گیا تھا یہ صدارتی نظام کے تحت قائم تھا 1974ءایکٹ کے تحت پارلیمانی نظام کے تحت ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں موجودہ آئینی، مالی انتظامی، سکیورٹی کا تعلق قائم کیا گیا تھا اس ایکٹ کے تحت ایک کشمیر کونسل قائم کی گئی ہے جس کے چیئرمین پاکستان کے وزیراعظم ہیں اس ایکٹ میں ترمیم کرکے ایکٹ 1970ءکی شکل میں ڈالا جائے تو آزاد کشمیر حکومت کو باوقار اختیار مل سکتے ہیں۔ امید ہے کہ جسٹس (ر) خواجہ محمد سعید اپنے حسن انتظام اور صاف ستھرے عمل سے انتخابات صاف ستھرے کرا کر اپنی شہرت کو چار چاند لگاسکیں گے ہم انکی کامیابی کیلئے دعا گو ہیں۔