تحریر : ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان
وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات
محترمہ بے نظیر بھٹو پاکستان کی وہ واحد شخصیت ہیں جن پر سب سے زیا دہ لکھا گیاہے۔ وہ جب تک حیات رہیں میڈیا کی زینت رہیں اور لوگوں کی توجہ کا مر کز رہیں۔ عوام کی بے لوث محبت اور والہانہ عقیدت نے اہل قلم کو مجبور کر دیا کہ وہ ےہ لکھیں کہ اس ہستی میں کو ن سی ایسی چیز یا سحر ہے کہ ہر چھوٹا و بڑا ، بچہ وبوڑھا ، مر د وعورت اور خاص وعام اسکو اپنی امید کا مر کز مانتا ہے توہمیں ایک ہی چیز نظر آتی ہے ا ور وہ ہے عوام سے محبت ، اور اسی مضبوط رشتے سے بندھی یہ ہستی کبھی اپنے عوام سے دور نہ ہو سکی، مشکل ترین حالات نے اس رشتے کو مزیدمضبوط کیا۔ ان کو جب بھی عوام سے دور کرنے کی کوشش کی چاہے وہ قید کی صورت ہو یا جلا وطنیوں کے طور پر عوام اور محبوب قائد کے درمیان یہ رشتہ پہلے سے زیا دہ مضبوط ہوا اور بانی پاکستان پیپلزپارٹی جنا ب ذوالفقار علی بھٹو کے وہ الفاظ امر ہو گئے جو انھوں نے سنٹرل جیل راولپنڈی سے جون 1978میں اپنی پیاری بیٹی کو اس کی پچیسویں سالگرہ کے موقع پر ایک خط میں لکھے تھے۔\\\"میں اس جیل کی کال کوٹھڑی سے تمہیں کیا تحفہ دے سکتا ہو ں ؟ میں عوام کا ہاتھ تمہیں تحفے میں دیتا ہوں\\\" بس یہی الفاظ محترمہ شہید کی زندگی کا محور بن گئے۔ اےک مجبور باپ نے سالگرہ کا آخری تحفہ جو دیا تھافرمانبرداربیٹی نے ساری زندگی اس انمول تحفے کو اپنے سینے سے لگائے رکھا اور کبھی غفلت نہ برتی اپنے آرام و سکون وپرآسائش زندگی کو بالائے طاق رکھا اور اپنے شہید والد کے دئیے ہوئے اس عظیم تحفے یعنی عوام کے ساتھ جینے اور مرنے کی قسم کھالی۔ محترمہ نے والد کی شہادت کے بعد پارٹی کی قیادت سنبھالی اور استحصالی قوتوں کا مقابلہ نہاےت صبروا ستقامت کے ساتھ شروع کیا۔ جبرواستبداد کے سیاہ دور میں قید کاٹی تو کبھی نظر بند کیا گیا اور بالآخر جلا وطنی پر مجبور کر دیا گیا لیکن عوام کی محبت کی وجہ سے زیادہ دیر وطن سے دور نہ رہ سکیں اور 10 اپریل 1986کو وطن واپس آکر جمہوریت کے لئے جدوجہد کا پر امن آغاز کر دیا اور 1988میں عوام کی طاقت سے مارشل لاءکے سیاہ بادل چھٹ گئے اور جمہوریت بحال ہو گئی محترمہ بے نظیر بھٹو دنیائے اسلام کی پہلی خاتون وزیراعظم بن گئیں مگر جمہوریت مخالف قوتیں برسرپیکار رہیںلہذا صرف 20ماہ بعد ہی اسمبلیا ں توڑدی گئیں اور جمہوری حکومت ختم کر دی گئی ۔ پیپلزپارٹی کو ایک بار پھر اپوزیشن کی پارٹی بنا دیا گیااورمحترمہ نصر ت بھٹو ، بی بی شہید اور جنا ب آصف علی زرداری پر کئی بے بنیا د مقدمات قائم کر دیے گئے اور ان کو جیل بھیج دیا گیا ۔لیکن 1993کے الیکشن میں کامیابی سے محترمہ دوسری دفعہ پھر وزیراعظم پاکستان بنیں اس سے پہلے دو دفعہ منتخب وزیراعظم پاکستان بننے کا اعزاز ان کے والد کو ہی حاصل تھا یوں یہ اعزاز باپ کے بعد بیٹی کے حصے میں آیااس طرح عوام نے اپنے محبوب قائدین سے محبت کا قرض بار بار چکا یا لیکن یہ حکومت بھی اپنی مدت پوری نہ کر سکی اور نومبر 1996میں اسمبلیاں تحلیل کر دی گئیں۔ محترمہ اور ان کے شوہر جناب آصف علی زرداری پر پھر کئی ریفرنسز دائر کر دیئے گئے اور بغیرثبوت کے جناب آصف علی زرداری کو دوبارہ قید کر لیا گیا ان کی یہ اسیری مسلسل آٹھ سال تک رہی لیکن محترمہ شہید کے عزم کو کمزور نہ کیا جا سکااس دوران لا تعداد مقدمات کا سامناکرنے کے ساتھ ساتھ محترمہ نے جمہوریت کی بحالی کے لئے جدوجہد کا سلسلہ بھی جا ری رکھا کیونکہ ملک میں ایک بار پھراکتوبر 1999میں مارشل لا ءکا نفاذ ہو چکاتھا۔
اک اور دریا کا سامنا تھا منیرمجھ کو
میں اک درےاکے پار اترا تو میں نے دیکھا
میں اپنی تمام زندگی محترمہ کی اس جہدمسلسل سے متاثر رہی مجھے گھر سے ہی ایسا ما حول ملا جہا ں جنا ب ذوالفقار علی بھٹو سے گہری محبت و عقیدت موجو د تھی میرے والد محترم عاشق حسین اعوان مرحوم کو میں نے شہید بانی چیئرمین کی شہادت پر پر پہلی دفعہ روتے دیکھا تھا اور یہی میرے شعور کی پختگی کے ایا م تھے پھر میں کبھی اس عقیدت کے سحر سے با ہر نہ نکل سکی اور محترمہ کی جدوجہد کو دیکھ کر میرے اندر بھی عوام سے محبت وعقیدت کا جذبہ پیدا ہو گیا حالانکہ اسکا آغاز مختلف تھا میں نے ڈاکٹر بن کر عوام کی خدمت کر نے کا عزم کر لیا ۔مجھے 1996کا وہ دن اچھی طرح یا د ہے بلکہ میری زندگی کا ایک بہترین دن تھا جب وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو شہید فاطمہ جناح میڈیکل کالج لاہور میں میری بطور President of Students Union دعوت پر کانووکیشن میں تشریف لائی تھیں اور جب فرطِ جذبات سے باربار کوشش کے باوجود ،مجھ سے ان کو مہمان خصوصی کی حیثیت سے لگا ئے جانے والے \\\"بیج\\\"کا بکل بند نہیں ہو رہا تھا تو محترمہ شہید نے میرے جذبات واحسات کو محسوس کر لیا اور مسکراتے ہوئے کہا کہ میں آپکی مدد کر دیتی ہوں۔ اس دن محترمہ شہید نے ہما ری بطور طالبات جرات وہمت کو سراہا کیونکہ بات یہ تھی کہ کالج انتظامیہ صوبہ پنجاب میں مخا لف حکو مت کی وجہ سے محترمہ کو مہمان خصوصی بنانے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہی تھی لیکن محترمہ نے صرف سٹوڈنٹس کو اہمیت دیتے ہوئے میری دعوت قبول کر لی تھی یقینا ان کے ہمارے لئے کہے گئے الفاظ میری زندگی کا سرمایہ ہیںاورمیں نے عوامی خدمت کے لئے بی بی شہید کے راستے پر چلنے کا عزم کر لیا ۔
پھر 2008کے الیکشن کے لئے جب میں نے جنرل سیٹ سے انتخاب لڑنے کے لئے ٹکٹ کی درخواست دی تو محترمہ نے میرے لئے جن جذبات اور الفاظ کا اظہا ر کیا وہ میرے لئے زندگی کے ہر میدان میں کامیا بی کا ضامن بن گئے ۔ کیونکہ محترمہ کا خیا ل تھا کہ میں مخصوص نشست سے رکن منتخب ہونے کے لئے کہوں گی مگرمیرے خیالات سننے کے بعد محترمہ نے فر ما یا کہ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان صاحبہ آپ نے جس ہمت اور جرات سے جنرل سیٹ سے الیکشن لڑنے کا عزم کیا ہے اسکے لئے میں آپکوپیشگی کا میا بی کی مبارکباد دیتی ہوںاوریوں محترمہ کے الفاظ نے حقیت کا روپ تو دھا ر لیا لیکن ان لمحات کو دیکھنے کے لئے محترمہ ہمارے درمیان مو جو د نہ تھیں۔ عوام نے محترمہ کی شہادت کے بعد ایک با ر پھرعنا نِ حکومت ،پاکستان پیپلزپارٹی کو دے کر اپنی اس لازوال محبت کا ثبوت دے دیا جو بانی چیئر مین سے شروع ہو ئی تھی اور آج بھی قائم ہے مگر اس کے لئے عوام کے ساتھ ہی مر نا پڑتا ہے ۔
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے
آج محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہا دت کے بعد چوتھی سالگرہ ہے ان کی حکومت اور عطا کی ہو ئی جمہوریت ملک میں آچکی ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت جنا ب آصف علی زرداری اور سید یوسف رضا گیلانی کی قیادت میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی مفاہمت کی پالیسی کے تحت چل رہی ہے ملک بھر میں کوئی سیاسی قیدی نہیں ہے۔ ذرائع ابلاغ مکمل طور پر آزاد ہیں لکھنے اور بولنے پر کو ئی قد غن نہیں ہے۔اگرچہ ملک میں امن و امان کی صورتحال ایک بڑا مسئلہ ہے لیکن حکو مت پر عزم ہے کہ اس ناسور کو ختم کر دے گی اور ملک کی معیشت کو بہتر سمت میں گامزن کر کے بے روزگاری ، غربت اور مہنگائی کی چکی میں پسے عوام کو ریلیف دے گی تاکہ ہم سب محترمہ شہید کی روح کے سامنے سرخرو ہو سکیں۔آج محترمہ کی سالگرہ کے دن پاکستان پیپلز پارٹی کا ہر مخلص کارکن اور رہنما یہ عہد کر تا ہے کہ اپنے شہید قائدین کی طرح زندگی کی آخر ی سانس تک عوام کی خدمت کرے گا اور اسکا جینا اور مرنا عوا م کے ساتھ ہو گا۔
وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات
محترمہ بے نظیر بھٹو پاکستان کی وہ واحد شخصیت ہیں جن پر سب سے زیا دہ لکھا گیاہے۔ وہ جب تک حیات رہیں میڈیا کی زینت رہیں اور لوگوں کی توجہ کا مر کز رہیں۔ عوام کی بے لوث محبت اور والہانہ عقیدت نے اہل قلم کو مجبور کر دیا کہ وہ ےہ لکھیں کہ اس ہستی میں کو ن سی ایسی چیز یا سحر ہے کہ ہر چھوٹا و بڑا ، بچہ وبوڑھا ، مر د وعورت اور خاص وعام اسکو اپنی امید کا مر کز مانتا ہے توہمیں ایک ہی چیز نظر آتی ہے ا ور وہ ہے عوام سے محبت ، اور اسی مضبوط رشتے سے بندھی یہ ہستی کبھی اپنے عوام سے دور نہ ہو سکی، مشکل ترین حالات نے اس رشتے کو مزیدمضبوط کیا۔ ان کو جب بھی عوام سے دور کرنے کی کوشش کی چاہے وہ قید کی صورت ہو یا جلا وطنیوں کے طور پر عوام اور محبوب قائد کے درمیان یہ رشتہ پہلے سے زیا دہ مضبوط ہوا اور بانی پاکستان پیپلزپارٹی جنا ب ذوالفقار علی بھٹو کے وہ الفاظ امر ہو گئے جو انھوں نے سنٹرل جیل راولپنڈی سے جون 1978میں اپنی پیاری بیٹی کو اس کی پچیسویں سالگرہ کے موقع پر ایک خط میں لکھے تھے۔\\\"میں اس جیل کی کال کوٹھڑی سے تمہیں کیا تحفہ دے سکتا ہو ں ؟ میں عوام کا ہاتھ تمہیں تحفے میں دیتا ہوں\\\" بس یہی الفاظ محترمہ شہید کی زندگی کا محور بن گئے۔ اےک مجبور باپ نے سالگرہ کا آخری تحفہ جو دیا تھافرمانبرداربیٹی نے ساری زندگی اس انمول تحفے کو اپنے سینے سے لگائے رکھا اور کبھی غفلت نہ برتی اپنے آرام و سکون وپرآسائش زندگی کو بالائے طاق رکھا اور اپنے شہید والد کے دئیے ہوئے اس عظیم تحفے یعنی عوام کے ساتھ جینے اور مرنے کی قسم کھالی۔ محترمہ نے والد کی شہادت کے بعد پارٹی کی قیادت سنبھالی اور استحصالی قوتوں کا مقابلہ نہاےت صبروا ستقامت کے ساتھ شروع کیا۔ جبرواستبداد کے سیاہ دور میں قید کاٹی تو کبھی نظر بند کیا گیا اور بالآخر جلا وطنی پر مجبور کر دیا گیا لیکن عوام کی محبت کی وجہ سے زیادہ دیر وطن سے دور نہ رہ سکیں اور 10 اپریل 1986کو وطن واپس آکر جمہوریت کے لئے جدوجہد کا پر امن آغاز کر دیا اور 1988میں عوام کی طاقت سے مارشل لاءکے سیاہ بادل چھٹ گئے اور جمہوریت بحال ہو گئی محترمہ بے نظیر بھٹو دنیائے اسلام کی پہلی خاتون وزیراعظم بن گئیں مگر جمہوریت مخالف قوتیں برسرپیکار رہیںلہذا صرف 20ماہ بعد ہی اسمبلیا ں توڑدی گئیں اور جمہوری حکومت ختم کر دی گئی ۔ پیپلزپارٹی کو ایک بار پھر اپوزیشن کی پارٹی بنا دیا گیااورمحترمہ نصر ت بھٹو ، بی بی شہید اور جنا ب آصف علی زرداری پر کئی بے بنیا د مقدمات قائم کر دیے گئے اور ان کو جیل بھیج دیا گیا ۔لیکن 1993کے الیکشن میں کامیابی سے محترمہ دوسری دفعہ پھر وزیراعظم پاکستان بنیں اس سے پہلے دو دفعہ منتخب وزیراعظم پاکستان بننے کا اعزاز ان کے والد کو ہی حاصل تھا یوں یہ اعزاز باپ کے بعد بیٹی کے حصے میں آیااس طرح عوام نے اپنے محبوب قائدین سے محبت کا قرض بار بار چکا یا لیکن یہ حکومت بھی اپنی مدت پوری نہ کر سکی اور نومبر 1996میں اسمبلیاں تحلیل کر دی گئیں۔ محترمہ اور ان کے شوہر جناب آصف علی زرداری پر پھر کئی ریفرنسز دائر کر دیئے گئے اور بغیرثبوت کے جناب آصف علی زرداری کو دوبارہ قید کر لیا گیا ان کی یہ اسیری مسلسل آٹھ سال تک رہی لیکن محترمہ شہید کے عزم کو کمزور نہ کیا جا سکااس دوران لا تعداد مقدمات کا سامناکرنے کے ساتھ ساتھ محترمہ نے جمہوریت کی بحالی کے لئے جدوجہد کا سلسلہ بھی جا ری رکھا کیونکہ ملک میں ایک بار پھراکتوبر 1999میں مارشل لا ءکا نفاذ ہو چکاتھا۔
اک اور دریا کا سامنا تھا منیرمجھ کو
میں اک درےاکے پار اترا تو میں نے دیکھا
میں اپنی تمام زندگی محترمہ کی اس جہدمسلسل سے متاثر رہی مجھے گھر سے ہی ایسا ما حول ملا جہا ں جنا ب ذوالفقار علی بھٹو سے گہری محبت و عقیدت موجو د تھی میرے والد محترم عاشق حسین اعوان مرحوم کو میں نے شہید بانی چیئرمین کی شہادت پر پر پہلی دفعہ روتے دیکھا تھا اور یہی میرے شعور کی پختگی کے ایا م تھے پھر میں کبھی اس عقیدت کے سحر سے با ہر نہ نکل سکی اور محترمہ کی جدوجہد کو دیکھ کر میرے اندر بھی عوام سے محبت وعقیدت کا جذبہ پیدا ہو گیا حالانکہ اسکا آغاز مختلف تھا میں نے ڈاکٹر بن کر عوام کی خدمت کر نے کا عزم کر لیا ۔مجھے 1996کا وہ دن اچھی طرح یا د ہے بلکہ میری زندگی کا ایک بہترین دن تھا جب وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو شہید فاطمہ جناح میڈیکل کالج لاہور میں میری بطور President of Students Union دعوت پر کانووکیشن میں تشریف لائی تھیں اور جب فرطِ جذبات سے باربار کوشش کے باوجود ،مجھ سے ان کو مہمان خصوصی کی حیثیت سے لگا ئے جانے والے \\\"بیج\\\"کا بکل بند نہیں ہو رہا تھا تو محترمہ شہید نے میرے جذبات واحسات کو محسوس کر لیا اور مسکراتے ہوئے کہا کہ میں آپکی مدد کر دیتی ہوں۔ اس دن محترمہ شہید نے ہما ری بطور طالبات جرات وہمت کو سراہا کیونکہ بات یہ تھی کہ کالج انتظامیہ صوبہ پنجاب میں مخا لف حکو مت کی وجہ سے محترمہ کو مہمان خصوصی بنانے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہی تھی لیکن محترمہ نے صرف سٹوڈنٹس کو اہمیت دیتے ہوئے میری دعوت قبول کر لی تھی یقینا ان کے ہمارے لئے کہے گئے الفاظ میری زندگی کا سرمایہ ہیںاورمیں نے عوامی خدمت کے لئے بی بی شہید کے راستے پر چلنے کا عزم کر لیا ۔
پھر 2008کے الیکشن کے لئے جب میں نے جنرل سیٹ سے انتخاب لڑنے کے لئے ٹکٹ کی درخواست دی تو محترمہ نے میرے لئے جن جذبات اور الفاظ کا اظہا ر کیا وہ میرے لئے زندگی کے ہر میدان میں کامیا بی کا ضامن بن گئے ۔ کیونکہ محترمہ کا خیا ل تھا کہ میں مخصوص نشست سے رکن منتخب ہونے کے لئے کہوں گی مگرمیرے خیالات سننے کے بعد محترمہ نے فر ما یا کہ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان صاحبہ آپ نے جس ہمت اور جرات سے جنرل سیٹ سے الیکشن لڑنے کا عزم کیا ہے اسکے لئے میں آپکوپیشگی کا میا بی کی مبارکباد دیتی ہوںاوریوں محترمہ کے الفاظ نے حقیت کا روپ تو دھا ر لیا لیکن ان لمحات کو دیکھنے کے لئے محترمہ ہمارے درمیان مو جو د نہ تھیں۔ عوام نے محترمہ کی شہادت کے بعد ایک با ر پھرعنا نِ حکومت ،پاکستان پیپلزپارٹی کو دے کر اپنی اس لازوال محبت کا ثبوت دے دیا جو بانی چیئر مین سے شروع ہو ئی تھی اور آج بھی قائم ہے مگر اس کے لئے عوام کے ساتھ ہی مر نا پڑتا ہے ۔
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے
آج محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہا دت کے بعد چوتھی سالگرہ ہے ان کی حکومت اور عطا کی ہو ئی جمہوریت ملک میں آچکی ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت جنا ب آصف علی زرداری اور سید یوسف رضا گیلانی کی قیادت میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی مفاہمت کی پالیسی کے تحت چل رہی ہے ملک بھر میں کوئی سیاسی قیدی نہیں ہے۔ ذرائع ابلاغ مکمل طور پر آزاد ہیں لکھنے اور بولنے پر کو ئی قد غن نہیں ہے۔اگرچہ ملک میں امن و امان کی صورتحال ایک بڑا مسئلہ ہے لیکن حکو مت پر عزم ہے کہ اس ناسور کو ختم کر دے گی اور ملک کی معیشت کو بہتر سمت میں گامزن کر کے بے روزگاری ، غربت اور مہنگائی کی چکی میں پسے عوام کو ریلیف دے گی تاکہ ہم سب محترمہ شہید کی روح کے سامنے سرخرو ہو سکیں۔آج محترمہ کی سالگرہ کے دن پاکستان پیپلز پارٹی کا ہر مخلص کارکن اور رہنما یہ عہد کر تا ہے کہ اپنے شہید قائدین کی طرح زندگی کی آخر ی سانس تک عوام کی خدمت کرے گا اور اسکا جینا اور مرنا عوا م کے ساتھ ہو گا۔