اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا

ریاض الرحمان ساغر شعر و ادب اور صحافت کی دنیا کا ایک بڑا نام ہیں۔ انہوں نے نہ صرف فلموں کے لئے معیاری اور سپرہٹ گانے تخلیق کئے بلکہ روزنامہ نوائے وقت میں ”عرض کیا ہے“ کے نام سے روزانہ ایک نئے موضوع پر منظوم کالم لکھ کر میدان صحافت میں ایک نئی تاریخ رقم کی۔ بہت سے گلوکاروں نے ان کے گانے گا کر شہرت حاصل کی۔ گلوکار عدنان سمیع خان نے بھارت میں جس گانے سے شہرت حاصل کی وہ گانا ”تھوڑی سی تو لفٹ کرا دے“ ریاض الرحمن ساغر کا ہی تخلیق کردہ تھا۔ گلوکار ارشد محمود کا گایا ہوا مشہور گانا ”ہو سکے تو میرا ایک کام کرو، شام کا ایک پہر میرے نام کرو“ بھی ریاض الرحمان ساغر کا ہی تخلیق کردہ تھا۔ اس کے علاوہ نصرت فتح علی خاں، مہدی حسن، ملکہ ترنم نور جہاں سمیت تقریباً تمام بڑے گلوکاروں نے ان کے لکھے ہوئے نغمے گائے۔ ان کے گانوں کو فلموں کی کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا تھا۔ ریاض الرحمن ساغر نے اپنی پوری عمر شعر و ادب کی خدمت میں گزار دی۔ شعر و ادب اور صحافت کے میدان میں ان کی بے پناہ خدمات کے اعتراف میں ایشین کلچرل ایسوسی ایشن آف پاکستان نے گزشتہ روز پنجابی کمپلیکس میں ایک تعزیت ریفرنس کا اہتمام کیا۔ جس کی صدارت میاں فرزند علی سرکس کے چیف ایگزیکٹو میاں راشد فرزند علی نے کی۔ مہمان خصوصی ریاض الرحمان ساغر کی اہلیہ تھیں۔ مقررین میں مصطفیٰ قریشی، اسلم ڈار، چودھری اصغر علی کوثر وڑائچ، طفیل اختر، گلوکار شوکت علی، انور رفیع، بشریٰ رحمان، سہیل بخاری اور گلوکار اے نیر تھے۔ اس تعزیتی ریفرنس کی کمپیرنگ پرویز کلیم نے کی۔ پرویز کلیم نے اپنے تعارفی خطاب میں کہا کہ ریاض الرحمن ساغر انتہائی معتبر شاعر، ادیب اور صحافی تھے۔ انہوں نے فلموں کے لئے بے شمار مقبول گیت لکھے اس کے علاوہ شعبہ صحافت میں بھی ان کی خدمات قابل قدر ہیں۔ روزنامہ نوائے وقت میں آخری دم تک ”عرض کیا ہے“ کے نام سے منظوم کالم لکھتے رہے۔ وہ بھنڈہ میں پیدا ہوئے اور قیام پاکستان کے بعد پاکستان آ گئے اور والٹن کے مہاجر کیمپ میں چند دن قیام کے بعد اپنی والدہ کے ساتھ ملتان چلے گئے۔ ان کے والد کو پاکستان بننے کے وقت ان کی آنکھوں کے سامنے شہید کر دیا گیا۔ ریاض الرحمن ساغر جب پاکستان آئے تو بہت چھوٹے تھے۔ انہیں کم سنی میں ملتان کی گڑ منڈی میں مزدور کی حیثیت سے کام کرنا پڑا۔ پھر ملتان سے لاہور آ گئے اور یہاں عزیز میرٹھی کے ساتھ ان کی ملاقات ہوئی۔ انہوں نے ان کی شاعری سنی اور انہیں اپنی فلم ”عالیہ“ کے گیت لکھنے کا موقع دیا۔ ان کے گیت پسند کئے گئے اور اس کے بعد ان کے لئے فلم انڈسٹری کے دروازے کھل گئے۔ انہوں نے نہ صرف فلمی گیت لکھے بلکہ بے شمار فلموں کی کہانیاں، مکالمے اور سکرین پلے لکھے۔ ان کی آخری فلم عشق خدا مکمل ہے جو عیدالفطر پر ریلیز ہو رہی ہے۔ اس فلم کا سکرپٹ میں نے لکھا ہے اور گانے ریاض الرحمن ساغر نے لکھے ہیں۔ انہوں نے آخری وقت تک شعر و ادب اور صحافت کی خدمت کی وہ آج ہم میں نہیں ہیں لیکن ان کا کام ہمیشہ زندہ رہے گا۔ اداکار مصطفیٰ قریشی نے کہا کہ ریاض الرحمن نے تمام عمر شعر و ادب اور صحافت کی خدمت کی۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم مرنے کے بعد لوگوں کو یاد کرتے ہیں اور زندگی میں ان کی قدر نہیں کرتے۔ وہ آگ کا دریا عبور کرکے پاکستان آئے۔ اپنی آنکھوں کے سامنے باپ کو شہید ہوتے دیکھا اور یہاں آ کر سخت محنت سے اپنا نام اور مقام بنایا۔ ایسی شخصیات کی قدر کرنی چاہئے۔ ان کے گانوں سے بہت سے گلوکاروں نے شہرت حاصل کی۔ عدنان سمیع خان بھارت میں جس گانے ”تھوڑی سی تو لفٹ کرا دو“ سے مقبول ہوئے وہ ریاض الرحمان ساغر کا ہی لکھا ہوا تھا۔ عدنام سمیع خان نے ان کے ساتھ رائلٹی کا معاہدہ کیا مگر رائلٹی ابھی تک نہیں دی۔
 ریاض الرحمان ساغر کی فلم انڈسٹری اور صحافت کے لئے بے پناہ خدمات ہیں۔ انہیں پرائیڈ آف پرفارمنس ملنا چاہئے تھا۔ چودھری اصغر علی کوثر وڑائچ نے کہا کہ ریاض الرحمان ساغر کے ساتھ میری کافی ملاقاتیں رہی ہیں۔ وہ بہت محنتی تھے۔ انہوں نے اچھے فلمی گیت لکھے اور فلم انڈسٹری میں محنت سے اپنا نام اور مقام بنایا۔ جب میں نوائے وقت میں لاہوریات کے نام سے کالم لکھتا تھا تو ریاض الرحمان ساغر نے ”عرض کیا ہے“ کے نام سے منظوم کالم شروع کیا۔ روزانہ ایک نئے موضوع پر لکھنا بہت مشکل ہے۔ انہوں نے اس مشکل کام کو بہت ذمہ داری سے نبھایا۔ ہدایت کار اسلم ڈار نے کہا کہ ریاض الرحمان ساغر نے میری فلموں کے لئے بھی گیت لکھے وہ معیار پر سمجھوتہ نہیں کرتے تھے۔ گلوکار شوکت علی نے کہا کہ ریاض الرحمان ساغر نے اردو گیتوں کے ساتھ ساتھ پنجابی میں بہت خوبصورت گیت لکھے۔ مینوں یاداں تیراں آﺅندیاں اور میں جینا تیرے نال بہت عمدہ شاعری ہے۔ معروف صحافی طفیل اختر نے کہا کہ ریاض الرحمان ساغر کی زندگی سخت محنت سے عبارت ہے۔ والد کی شہادت کے بعد وہ اپنی والدہ کے ساتھ ملتان میں آباد ہوئے۔ کم سنی میں محنت مزدوری کی اور ساتھ تعلیم حاصل کی۔ ملتان سے لاہور آئے تو فلموں کے لئے نغمہ نگاری شروع کی اور خوبصورت گیت لکھے۔ انہوں نے صحافت کی تو وہ بھی معیاری تھی۔ ان کی خدمات قابل قدر ہیں۔ بشریٰ رحمان نے کہا کہ ریاض الرحمان ساغر کے لئے ایک اچھی تقریب کے انعقاد پر مجھے بہت خوشی ہوئی ہے۔ انہوں نے فلموں کے لئے بہت خوبصورت نغمے لکھے۔ ان کے گیتوں کی وجہ سے اکثر فلمیں کامیاب ہوئیں۔ وہ انتہائی مہذب اور شائستہ انسان تھے اور اپنے کولیگز کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کرتے۔ جب میرا کالم چھپتا تو مجھے فون کرکے میرے کالم کی تعریف کرتے۔ وہ ”عرض کیا ہے“ کے نام سے روزانہ منظوم کالم لکھتے جو بہت مشکل کام ہے مگر انہوں نے بہت خوبصورتی سے یہ کام کیا۔ میاں راشد فرزند نے کہا کہ میرے والد میاں فرزند علی فلسماز تھے۔ ریاض الرحمان ساغر ہمارے آفس آتے اور میری ان کے ساتھ اکثر ملاقات ہوتی۔ اچھے انسان تھے۔ انہوں نے ہماری فلموں کے لئے بھی گانے لکھے جو مقبول ہوئے۔ سہیل بخاری نے کہا کہ ریاض الرحمان ساغر بڑے آدمی تھے ان کی یاد میں تقریب کا اہتمام کرنا میرے لئے اعزاز کی بات ہے۔ گلوکار انور رفیع نے کہا کہ میں نے اپنے فلمی کیرئر کا آغاز ان کے لکھے ہوئے گانے سے ہی کیا۔ گلوکار اے نیر نے کہا کہ میں نے ریاض الرحمان ساغر کے لکھے ہوئے بہت سے گیت گائے۔ ان کے ساتھ ہی میری آخری فلم انتہا تھی جو ثمینہ پیرزادہ نے بنائی۔ اس کے گانے بہت مقبول ہوئے۔ میں، روبن گھوش اور ساغر صاحب اکثر رات کو اکٹھے بیٹھتے وہ مجلسی آدمی تھے۔ وہ بہت قابل انسان تھے۔ ان کا انتقال فلم انڈسٹری اور صحافت کے لئے ناقابل تلافی نقصان ہے۔
ریاض الرحمان ساغر کی یاد میں پنجابی کمپلیکس کے جس ہال میں تعزیتی ریفرنس کا اہتمام کیا گیا وہاں پر سٹیج کے ساتھ ایک بینر آویزاں تھا جس پر ریاض الرحمان ساغر کی تصویر پرنٹ تھی اور ساتھ یہ مصرعہ رقم تھا....ع
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
اس تعزیتی ریفرنس میں جب تقریریں ہو رہی تھیں تو ماحول بہت سوگوار تھا۔ واقعی ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ ساغر صاحب کے انتقال سے شہر ویران ہو گیا ہے۔ اللہ ان کی مغفرت کرے۔

ای پیپر دی نیشن