” کل “ ایک شغلِ دِل پسند

دو دوست جو آپس میں کلاس فیلو تھے، ان میں ایک اچھا خاصا دولت مند تھا اور دوسرا بیچارا تنخواہ دار سرکاری ملازم۔ ایک دفعہ امیر آدمی اپنے تنخواہ دار دوست کے پاس بیٹھا تھا اچانک اسے کچھ پیسوں کی ضرورت تھی۔ اس نے اپنا پرس چیک کیا تو وہ اپنے خالی ہونے کا اعلان کر رہا تھا۔ اس نے اپنے تنخواہ دار دوست سے تیس پینتیس ہزار روپے طلب کئے۔ اس نے فوراً کہا کہ یہ رقم میں کل ہی بھیج دوں گا۔ تنخواہ دار دوست کو پہلے تو ایک جھٹکا لگا اور اسکے سامنے پورا مہینہ، جس میں سبزیاں، دالیں اور دیگر گھر کے اخراجات دائرے کی شکل میں گھوم گئے۔
 ان دونوں دوستوں کے پاس ایک تیسرا دوست، جو امیر دوست کا خیر خواہ تھا، کہنے لگا۔ جیب ڈھیلی کیوں نہیں کرتے، پینتیس ہزار کے بغیر ایک رات نہیں گزار سکتے کیا۔ تنخواہ دار دوست اس خیر خواہ دوست کے جملے کی تاب نہ لا سکا اور اس نے جھٹ سے مطلوبہ رقم نکال کر پیش کر دی۔تنخواہ دار دوست صبح سورج طلوع ہوتے ہی اپنی رقم کی واپسی کی امید باندھنے لگا۔ سورج غروب ہو گیا اور تنخواہ دار کا دل بھی غریب ہونے کے قریب ہو گیا۔ اس طرح کئی سورج طلوع اور کئی غروب ہوئے۔ جاگیردار دوست کی ”کل“ نہ آئی۔ ہمارے ہاں کوئی تیقن کیساتھ یہ نہیں بتا سکتا کہ ”کل“ سے مراد کیا ہے؟ بڑے بڑے اہم کام اور منصوبے ”کل“ کی بھینٹ چڑھا دئیے جاتے ہیں۔ ہماری مارکیٹوں میں ”کل“ کا استعمال زبان زدِعام و خاص ہےمارکیٹ میں جب مال سپلائی کرنے والے خوشی خوشی مال سپلائی کرتے ہیں تو مالک اندھا دھند آرڈر لکھاتا جاتا ہے اور مال کا آرڈر لینے والے کے چہرے پر لڈو پھوٹ رہے ہوتے ہیں کہ اسکے مال کی اتنی ڈیمانڈ ہے۔ کچھ عرصے بعد جب وہ اپنے فروخت شدہ مال کی رقم کا مطالبہ کرنے جاتا ہے تو مارکیٹ میں بیٹھا سیٹھ چائے کے کپ کا آرڈر دیتا ہے اور ساتھ ہی کہتا ہے کہ یہ اللہ ہی جانتا ہے کہ ہم پر یہ دن کتنے بھاری گزر رہے ہیں۔ مارکیٹ میں تو بہت منڈا چل رہا ہے۔ جب رقم کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو وہ فوراً کہتا ہے ”کل آ جانا“
تنخواہ دار دوست کو جب یہ خدشہ محسوس ہوا کہ اس کا امیر کبیر دوست کہیں بھول ہی نہ گیا ہو تو اس نے ڈرتے ڈرتے اسے فون پر یاد کرایا کہ آپ نے مجھ سے کچھ روپے لئے تھے۔ اسکے بعد تنخواہ دار کی ہمت نہ پڑی کہ وہ جملہ مکمل کر سکے۔ امیر دوست نے بڑے رعب سے کہا۔ ہاں، ہاں، کیوں نہیں۔ یاد ہیں یارا۔ یاد ہیں۔ جتنے مہینے تنخواہ دار دوست نے رقم کے انتظار میں گزارے تھے، اس سے کہیں زیادہ پوٹینسی امیر دوست کے جواب میں پوشیدہ تھی۔ تنخواہ دار دوست کی سٹی گم ہو چکی تھی۔ پہلے تو مطمئن تھا کہ امیر دوست رقم اگر اس مہینے نہیں بھیجے گا تو اگلے ماہ واپس کر دے گا۔ اب دوست کا جواب سن کر یہ خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ اسے اچھی طرح علم ہے۔ تنخواہ دار اپنے مطالبے پر پچھتانے لگا تھا۔ اگر وہ اپنے امیر دوست کو رقم یاد نہ ہی کراتا تو اچھا تھا۔ کم از کم اسے رقم کی واپسی کی امید تو تھی۔ہم اپنے دماغ پر تھوڑا سا زور دیں تو ہمارے ملک کا پورا نظام ہی ”کل“ پر چل رہا ہے۔
 ہمارے ایک دوست کی گاڑی چوری ہو گئی۔ وہ رپٹ درج کرانے تھانے پہنچا تو اسے ڈیوٹی پر موجود سپاہیوں نے کہا کہ کل آنا۔ اس نے سوچا کہ ایس ایچ او سے ملتا ہوں۔ وہ ایک برآمدے میں گھومتا ہوا چک والے کمرے تک پہنچ گیا۔ جونہی اس نے کمرے کا گھونگٹ جو چک کی صورت میں لٹک رہا تھا، اٹھانے کی کوشش کی تو کسی غیبی ہاتھ نے اس کی کلائی مروڑی۔ یہ بندوق بردار سپاہی تھا۔
 اس نے غراتے ہوئے کہا۔ تم بلااجازت ایس ایچ او صاحب کے کمرے میں کیوں گھس رہے تھے۔ ہمارے دوست نے بڑی معصومیت سے کہا ”اچھا! اندر پردہ ہے“ ہمارے دوست کی عادت ہے کہ ہر بات کی تہ تک پہنچتا ہے اور ہر معاملے میں اپنا شک دور کرنے پر تلا رہتا ہے۔ وہ تھانے کی غلام گردشوں میں گھومتے ہوئے تھانے کے تہ خانے کے سامنے پہنچ گیا۔ وہ تہ خانے میں جانے لگا تو یہاں بھی ایک غیبی ہاتھ نے اسے اچھی طرح جھٹکا دیا اور کہا کہ ادھر منہ اٹھائے کیوں آ رہے ہو۔ ہمارے دوست نے کہا کہ میری کار چوری ہو گئی ہے۔ میں ایس ایچ او صاحب سے ملنا چاہتا ہوں۔ سپاہی نے کہا ایس اچ او صاحب تین دن سے چوروں ڈکیتوں کے پیچھے بھاگ رہے تھے۔ آج وہ مالش کرا رہے ہیں بہرحال آپ کل آ جائیں۔ ہمارا دوست کئی دن تک تھانے جاتا رہا اور ”کل آنا“ کے الفاظ سے محظوظ ہوتا رہا۔
ہماری عدالتوں نے بھی ”کل آنا“ کے زور پر یعنی تاریخیں دینے میں بڑا نام کمایا ہے۔ ہمارے ہاں عدالتوں میں کیس دائر ہوتے ہیں۔ پھر کیس میں ”کل“ کی گردان شروع ہو جاتی ہے۔ کیس کی پیروی کے دوران میں بہت سے بچے جوان ہو جاتے ہیں۔ جوانوں کے چہروں پر جھریاں پڑ جاتی ہیں حتیٰ کہ کیس کی پیروی کرتے کرتے لوگ قبروں میں چلے جاتے ہیں۔ جنرل ضیاءالحق نمازی صدر تھے۔ انہوں نے بھی ”کل“ کا استعمال خوب کیا اور گیارہ سال تک اپنی مرضی کے مالک بنے رہے۔ صدر پرویز مشرف بھی قوم کو ساڑھے دس سال تک ”کل“ کی نوید سناتے رہے اور فرماتے رہے۔ بقول ریاض الرحمن ساغر مرحوم و مغفور.... ہر درد کی دوا ہوں مجھے ووٹ دیجئے حالانکہ پاکستان کے جوڑ جوڑ میں ساری دردیں انہی کے دور کا فیضان ہے۔ پاکستانی قوم اتنی انوکھی لاڈلی ہے کہ کھیلن کو بجلی مانگتی ہے اور فرزندِ سیالکوٹ خواجہ محمد آصف فرماتے ہیں کہ ابھی تو ہماری الیکشن کمپین کی تھکاوٹ نہیں اتری کہ پوری قوم بجلی مانگنا شروع ہو گئی ہے۔ آج ہی نہ سب کچھ مانگیں۔ کل کا سورج بھی طلوع ہونے دیں۔ ہماری سیاست میں ”کل“ ایک شغلِ دل پسند بن گیا ہے۔ اللہ تبارک تعالیٰ ہمیں اس شغلِ دل پسند سے نکالے۔ (آمین)

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...