قائدِ اعظم ریذیڈنسی ہمارا سیاسی قبل

Jun 21, 2013

رابعہ رحمن

قوم کے اُس عظیم جس نے اسلامی مملکت کا خواب دیکھا اور جس کے خواب کی تعبیر میں نشاطِ ثانیہ کا راز پنہاں تھا اُس قائدِ اعظم کے احسانات کا بدلہ ہم نے اپنے خون کا آخری قطرہ دے کر بھی ادا نہیں کر سکتے مگر یہاں اُنکے احسانات کے بدلے میں خون دینا تو کُجا ہم نے ا پنی ناعاقبت اندیش عمل و فکر سے اُن کی یادوں اور نشانیوں کو جلا کر خاکستر کر دیا۔ ذمہ دار لوگوں کی کمزور حفاظتی تدابیر اور اُس عظیم اور تاریخی ورثے کی طرف بے توجہی کا رویہ آج ہمیں کس المیے کا شکار کر گیا۔ کیا ہمیں یاد نہیں کہ اسی بیگانگی خوابِ غفلت اور اندرونی سازشوں کی وجہ سے ہم سقوط ڈھاکہ جیسے المیے سے گزرے اور ہمارے عظیم قائد کی بنائی ہوئی اسلامی مملکت کا ایک حصہ کٹ کر ہمیں سوختہ جگر دیگا۔
قائدِ اعظم کی ریذیڈنسی کوئی گلی کوچوں میں بنا ہوا ایک بوسیدہ کمرہ نہ تھا، کسی شہر یا محلے کی ایل۔ ڈی۔ اے کی ناقص عمارت نہ تھی کہ ایک ہی جھٹکے سے ڈھے جاتی۔ ریذیڈنسی تو ہمارے خوابوں،اُمنگوں اور غلامی کی زنجیریں توڑنے والے اُس معتبر،پاکیزہ اور عظیم انسان کی آماجگاہ تھی جہاں اُسکی سانسوں نے ہمیں جینے کا پیغام دیا۔جہاں کے دیواروں نے اُس قائد کی بیماری کے آخری لمحات میں مہکتی دھونی کی طرح چلتی ہوئی کھانسی کی جلترنگ بجاتی آواز سُنی،جہاں سے گزرتی ہواﺅں نے اُس پاک روح کی خوشبو اُس عمارت کے گرد لگے چناروں میںبسائی اور جہاں کی گیلری میں وہ ہماری نگاہوں کے سامنے توانا، تروتازہ دبنگ آواز میں بولتے "بن کے رہے گا پاکستان" سنائی اور دکھائی دیتے رہتے تھے۔ لکڑی کی وہ کرسی جہاں وہ نحیف و کمزور جسم سے اپنے اندر کے زخموں کو چھپائے پاکستان اور مسلمانوں کیلئے سفارشات تحریر کرتے ۔ اُس تحتِ شاہی سے کتنی قیمتی تھی جس پہ نوادرات جڑے ہوتے ہیں۔ وہ بستر جو میرے قائد کی توانا روح اور افکارِ عظیم کو چند لمحوں کیلئے طمانیت بخشتا ہمارے لیے کتنا معتبر تھا وہ قلم کاغذ اور تحریریں جو مسلمانوں کیلئے آزادی کا پیام لکھتیں انمول تھیں مگر آج وہ نہیں ہیں۔وطن،غیور عوام،تاریخ اور ہماری عظمتوں کا ایک ورثہ آج راکھ ہو گیا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ غرناطہ اور قرطبہ کی طرح نیست و نابود ہو گیا مگر واللہ ایسا نہیں ہے ایک میرے پیارے عظیم قائد کی نادر نشانیوں کا وجود گم ہو گیا ہے ا مگر وہ ہمارے اندر اُسی طرح زندہ ہیں۔ ہماری اقدار، روایات، مذہب، آزادی، جمہوریت اور ہر قول و فعل میں رواں ہیں۔ یہ وطن اُن کی نشانی ہے اور اس کو بنانے کیلئے جب قائدِ کو میرے اللہ نے مقرر کیا تو اللہ کے رسول نے قائد کے کندھوں پہ یہ ذمہ داری ڈالی یہ کوئی معمولی بات نہ تھی یہ کوئی چھوٹا کام نہ تھا اسلام کیلئے ایک لازوال قلعے کی ضرورت تھی اور یہ قلعہ تعمیر کیا میرے قائد نے۔ ہم میں سے کسی سے یہ بات چھپی نہیں کہ ایک ایساہی حملہ رات کے اندھیرے میں انڈیا نے ہماری پاک سر زمین پہ کیا تھا ۔۔۔کیا یہ حملہ اُسی انداز کو اور اُسی گھناﺅنے وقت سے مماثل نہیں ہے تو پھر کیوں نہیں ہم یہ کہہ سکتے کہ اس سازش کے پیچھے انڈیا کا ہاتھ ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ اس المناک سانحے کے بعد اگر ہم صرف کانفرنس کر کے، احتجاج کر کے سوگ منا کر خاموش ہو جائینگے تو حریف اور بھی زیادہ شیر ہو جائیں گے اور سمجھ لیں گے کہ یہ تو ہماری فطرت ہے کہ رو پیٹ کر چُپ ہو جاتے ہیں۔ ایسے معاملات میں ہمارا ماضی کوئی تابناک نہیں ہے۔کچھ بھی ہے حکومت کیلئے سوالیہ نشان تو باقی ہے مگر ہمیں اس کا بھی یقین کر لینا چاہیے کہ ہماری عوام اب ایک فکری انقلاب برپا کرنیوالی ہے اور جب قائد کی متفکرانہ سوچ سلامتی اور استحکام کی کوششیں تشکیلِ پاکستان کا سبب بنیں تو نظریاتی اور روحانی تحریک نے ملتِ اسلامیہ کو درخشندہ ستارہ کی صورت کرہِ ارض پہ جگمگا دیا تھا۔ آج اتنے بڑے سانحے کے بعد قائدِ اعظم کے خواب ،کوششوں اورجگمگاتی تعبیروں کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے اور حکومتِ وقت کیلئے ایک سوالیہ نشان بن گیا ہے۔۔کاش ہم یہ جان لیں کہ یہ وقت ایک ہونے کا ہے ایک دوسرے پہ الزام تراشیوں اور اپوزیشن بن کے ایک دوسرے کے کٹہرے میں کھڑے کرنے کا نہیں۔خدا را اے قومِ ایمانی اب تو اس ازلی غفلت سے جاگ جاﺅ ورنہ یہ دہشت گرد ہمیں ہمیشہ کی نیند سلا دینگے اور ہم بھی اپنے پیارے قائد کی نشانیوں، نوادرات اور تصاویر کی طرح جل کر خاکستر ہو جائیں گے۔

مزیدخبریں