پاکستان کی معیشت کو جو بڑی جونکیں لگی ہوئی ہیں ان میں سرفہرست تو مس مینجمنٹ ہے اور اس مرض کی وجہ سے بجٹ خسارہ پیدا ہونے کے ساتھ ہر سال اربوں روپے ہَوا میں اڑا دیے جاتے ہیں۔ اس کی تازہ ترین مال ایک روز پہلے اس وقت سامنے آئی جب وزیراعظم محمد نواز شریف نے نیلم جہلم ہائیڈل پراجیکٹ کا دورہ کیا اور چیئرمین واپڈا پر اس لئے برس پڑے کہ منصوبے کی تکمیل میں سُستی کی وجہ سے منصوبے کی لاگت میں پانچ گنا اضافہ ہونے کے بعد اب اس منصوبے کی لاگت 275 ارب روپے تک پہنچ چکی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نیلم جہلم ہائیڈل پراجیکٹ کوئی پہلا منصوبہ نہیں ہے جس میں تاخیر ہونے کی وجہ سے لاگت میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ کالا باغ ڈیم کی تاریخ نکال کر دیکھیں تو دل خون کے آنسو روتا ہے کہ اس وقت منصوبے کی لاگت آج کے مقابلے میں بہت کم تھی کیونکہ آج ڈالر سو روپے کا ہو چکا ہے اور اس زمانے میں ڈالر بیس روپے کے آس پاس تھا سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس ڈیم کی فزیبلٹی رپورٹ ورلڈ بینک نے تیاری کی تھی اور منصوبے پر ریمارکس دیتے ہوئے کالا باغ ڈیم کو سٹیٹ آف دی آرٹ منصوبہ قرار دیا تھا جس کی نظیر پوری دنیا میں کوئی نہیں ہے۔ اگر کالا باغ ڈیم کو پاکستان کی خوشحالی کے دشمن متنازعہ نہ بناتے تو آج ایک لمحہ کیلئے بھی پاکستان لوڈشیڈنگ کا شکار نہ ہوتا اور سالانہ سو ارب روپے کے پانی کی بچت ہونی تھی جس سے بے آباد علاقوں میں زرعی اصلاحات کے ذریعے سے نسلیں پیدا ہونی تھیں جن سے پاکستان نے خوشحال میں جانا تھا اور دیہی علاقوں سے شہری علاقوں کی طرف آنے کے رجحان کا بھی خاتمہ ہو جاتا تھا کیونکہ ہر کسی کو اپنے گھر کے قریب ہی روز تار مل جاتا تھا۔
وزیراعظم محمد نواز شریف کی پہلی ترجیح لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کیونکہ اس ایک خرابی نے پاکستان کی معاشی ترقی کا پہیہ جام کیا ہوا ہے اس لئے نیلم جہلم ہائیڈل پراجیکٹ کا دورہ کرتے ہوئے وہ اپنی اقتصادی ٹیم کے اہم رکن شوکت ترین کو بھی ساتھ لے کر گئے۔ سابق وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین پاکستان کے محسن ہیں اور 2008ءمیں جب حکومت کی تبدیلی ہوئی تو پاکستان معاشی مسائل کی دلدل میں جا رہا تھا لیکن شوکت ترین نے شبانہ روز محنت کر کے صرف پاکستان کی محبت میں پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچایا۔
دورے کے موقع پر جب چیئرمین واپڈا نے لمبی بریفنگ دی تو محمد نواز شریف نے کہا لمبی بات نہ کریں کام کی بات کریں اور نیلم جہلم ہائیڈل پراجیکٹ کو وقت سے پہلے مکمل کریں، ایک دو سال میں مکمل کریں کیونکہ پاکستان کو سَستی بجلی کی بہت شدید ضرورت ہے۔ واپڈا کے چیئرمین نے بتایا کہ منصوبہ 2016ءمیں مکمل کر لیا جائے گا۔ خوشی کی بات ہے کہ پہلے واپڈا حکام کہتے تھے کہ 2008ءمیں جب حکومت کی تبدیلی ہوئی تو پاکستان معاشی مسائل کی دلدل میں جا رہا تھا لیکن شوکت ترین نے شبانہ روز محنت کر کے صرف پاکستان کی محبت میں پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچایا۔
دورے کے موقع پر جب چیئرمین واپڈا نے لمبی بریفنگ دی تو محمد نواز شریف نے کہا لمبی بات نہ کریں کام کی بات کریں اور نیلم جہلم ہائیڈل پراجیکٹ کو وقت سے پہلے مکمل کریں، ایک دو سال میں مکمل کریں کیونکہ پاکستان کو سَستی بجلی کی بہت شدید ضرورت ہے۔ واپڈا کے چیئرمین نے بتایا کہ منصوبہ 2016ءمیں مکمل کر لیا جائیگا۔ خوشی بات ہے کہ پہلے واپڈا حکام کہتے تھے کہ منصوبہ 2017ءمیں مکمل ہو گا۔ اس اہم منصوبے کی وجہ سے پاکستان کو 960 میگا واٹ بجلی حاصل ہو گی۔ دراصل نیلم جہلا ہائیڈل پراجیکٹ چار پیداواری یونٹوں پر مشتمل ہے ہر یونٹ 240 میگا واٹ بجلی پیدا ہو کریگی تو ان سب کا مجموعہ 960 ہی بنتا ہے لیکن میڈیا میں 969 کا عدد چل رہا ہے جس کی وضاحت ضرور ہونی چاہئے۔
اب یہاں سب سے اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کے مختلف محکمے جان بوجھ کر یا عادتاً ہر منصوبے کو طول دے کر اس کی لاگت میں معقول اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔ محمد شہباز شریف نے لاہور میٹرو کی تکمیل وقت سے پہلے کر کے بتا دیا کہ اگر ادارے چاہیں تو منصوبے پر شہباز شریف یا نواز شریف کھڑے ہو کر کام نہیں کروا سکتے اس لئے قومی خزانے کے ایک بڑے حصے کو اضافی لاگت کے نام پر لٹنے سے بچانے کیلئے ضروری ہے کہ وفاقی اور صوبائی سطح پر ایک باڈی قائم کی جائے جس کا صرف ایک ہی کام ہو کہ وہ میگا پراجیکٹس کی تکمیل پر نظر رکھے۔ یہ باڈی براہ راست وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ کو ہفتہ وار رپورٹ مہیا کرے تاکہ بروقت ہدایات دے کر تعطل کا خاتمہ کیا جا سکے۔ دوسرا کام یہ کرنا ہو گا کہ جو اعلیٰ افسران عادتاً ہر کام دیر سے کرنے اور ڈیڈ لاک پیدا کرنے کے ماہر ہیں ان کیلئے قانون سازی کی جائے اور ان کیلئے سزا کا قانون لایا جائے۔ ویسے سزا کا قانون تو ان افسران کیلئے بھی آنا چاہئے جو سالانہ ترقیاتی پروگرام اور منصوبے مکمل کروانے کے بجائے ترقیاتی رقوم دوبارہ خزانے میں جمع کروا دیتے ہیں۔
نیلم جہلم ہائیڈل منصوبے کی لاگت میں اضافے کا ذمہ دار کون ؟
Jun 21, 2013