10 روز میں 3 مرتبہ بجلی مہنگی کرنے پر اپوزیشن کا واک آﺅٹ‘ آئینی عدالت کی تشکیل کا مطالبہ

اسلام آباد (وقائع نگار +نوائے وقت نیوز + ایجنسیاں) بجلی کی قےمتوں مےں اضافے کےخلاف پاکستان پےپلزپارٹی نے اےوان سے واک آوٹ کےا۔پےپلزپارٹی کے سنےٹر رضاربانی نے نقطہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے کہا حکومت نے بجلی کی قےمتوں مےںاضافے کا سلسلہ شروع کردےاہے جو عوام پر براہ راست بوجھ ہے انہوں نے کہا گزشتہ دس روز مےں بجلی کی قےمتوں مےں تےسری باراضافہ کےا گےا ہے اور اس بات کا قوی امکان ہے آئندہ چندہفتوں مےں حکومت بجلی کی قےمتوں مےں 70فےصد اضافہ کردے۔انہوں نے کہا پےپلزپارٹی حکومت کے اس فےصلے کے خلاف اےوان سے واک آوٹ کرتی ہے ۔ سےنٹ اجلاس مےں حکومت کی جانب سے امرےکہ اور طالبان کے مذاکرات مےں حکومت پاکستان کے کردار کے حوالے سے پارلےمان کو اعتماد مےں نہ لےنے اور مشےر خارجہ کی اےوان کو برےفنگ نہ دےنے کے معاملے پر اپوزےشن اور حکومت کے درمےان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا ۔ اجلاس شروع ہوا تو پےپلزپارٹی کے رضاربانی نے نقطہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے کہا دوحہ قطر مےںامرےکہ اور طالبان کے مذاکرات شروع ہوگئے ہےں انہوں نے حکومت سے استفسار کےا وہ اےوان کو بتائے ان مذاکرات مےں پاکستان کا کردار کےا ہے جس پر قائد اےوان راجہ ظفر الحق نے کہا امرےکہ کا طالبان کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ شروع کرنا خوش آئند ہے ابھی ےہ سلسلہ شروع ہوا ہے حکومت پاکستان کے کردار کے حوالے سے اےوان کو برےفنگ دی جائے گی تاہم اس معاملے مےں صبر سے کام لےا جائے سنےٹر مشاہد حسےن نے کہا اس معاملے پر مذاکرات کے لےے امرےکی نمائندہ جان کےری کا دورہ پاکستان متوقع تھا تاہم اب وہ بارہ روز کے دورے پر بھارت جارہے ہےں اور پاکستان کے لےے ان کے پاس وقت نہےں ۔ اے پی پی کے مطابق پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا اعلیٰ عدالتوں نے ججوں کی دوہری شہریت کے حوالہ سے ہمارے سوال کا جواب دینا بھی مناسب نہیں سمجھا۔ انہوں نے کہا ہم جوڈیشل ایکٹوازم کی حمایت کرتے ہیں لیکن میڈیا ہیڈ لائن بنانے کے لئے کام نہیں ہونا چاہئے، پاپولرازم کا عنصر خطرناک ہے۔ انہوں نے کہا میثاق جمہوریت میں طے ہوا تھا آئینی عدالتیں تشکیل دی جائیں، حکومت اس حوالے سے قدم اٹھائے ہم ساتھ دیں گے۔ اے پی اے کے مطابق انہوں نے بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام پر سپریم کورٹ کی تنقید کرنے کو پارلیمنٹ پر تنقید قرار دیتے ہوئے کہا ہے عدالت نے پارلیمنٹ کی دانش پر تنقید کی ہے۔ انہوں نے کہا پارلیمان اور عدلیہ سے غلطیاں سرزد ہو سکتی ہیں۔ گذشتہ روز سپریم کورٹ کے ایک جج نے کہا بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے لوگوں کو بھکاری بنایا جا رہا ہے جو عدلیہ کی طرف سے اپنی حدود سے تجاوز ہے، اس پروگرام کو پارلیمنٹ نے منظور کیا ہے اور یہ پروگرام غریبوں کے لئے ہے۔ اس موقع پر چیئرمین سینٹ نیئر حسین بخاری نے کہا بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعے شروع کیا گیا، موجودہ حکومت نے بھی اسے جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ سینیٹر رضا ربانی نے کہا طالبان اور امریکہ میں قطر میں مذاکرات اور دوحہ میں طالبان کے دفتر کے قیام کی خبریں آرہی ہیں، حکومت اس معاملہ پر ایوان کو اعتماد میں لے۔ سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا قائد ایوان نے گذشتہ روز یقین دلایا تھا قومی سلامتی کے مشیر ایوان میں اس معاملے پر ارکان کو اعتماد میں لیں گے، آج وہ اس سے پیچھے ہٹتے نظر آ رہے ہیں۔ چیئرمین سینٹ نے کہا حکومت اس معاملہ پر جلد ایوان کو اعتماد میں لے جبکہ قائد ایوان راجہ ظفر الحق نے ایوان کوےقین دہانی کرائی حکومت پارلیمنٹ کو جلد اعتماد میں لے گی وقت کے تعین کےلئے مجبور نہ کیا جائے۔ مزید برآں مزید برآں مشاہد حسین سید نے سینٹ کی دفاع و دفاعی پیداوار کی قائمہ کمیٹی کی رپورٹ نمبر 5 ایوان میں پیش کی۔ انہوں نے کمیٹی کی کارکردگی اور رپورٹ پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کمیٹی نے پہلی بار انسداد دہشت گردی کی پالیسی کی تیاری کے لئے عوامی سماعت کی۔ وہ کمیٹی کی رپورٹ وزیر داخلہ کو بھی پیش کریں گے۔ این این آئی کے مطابق سینٹ میں اپوزیشن ارکان نے دوحہ میں امریکہ کے طالبان کے ساتھ مذاکرات میں پاکستان کے کردار کے حوالے سے ایوان کو اعتماد میں لینے اور امریکی وزیر خارجہ جان کیری کا دورہ پاکستان ملتوی کرنے کے حقائق سامنے لانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا بیوروکریٹ مشیر نے بریفنگ دینے سے منع کر دیا ہے۔ قائد ایوان نے حامی بھری وقت بتایا جائے کس دن ایوان کو اعتماد میں لیا جائیگا، یہ مذاکرات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں اور اس سے پاکستان کی سلامتی پر گہرے اثرات مرتب ہونگے جبکہ قائد ایوان راجہ ظفرالحق نے کہا کہ دوحہ میں طالبان سے مذاکرات میں پاکستان نے اپنا کردار ادا کیا ہے ابھی پیشرفت ہونے دی جائے تاکہ حقائق سامنے آجائیں۔ مشیر خارجہ نے انکار نہیں کیا جلد از جلد ایوان کو اعتماد میں لیا جائیگا۔ مسلم لیگ (فنکشنل) کے رکن مظفر حسین شاہ نے کہا پارلیمان کو مضبوط بنانے کے لئے دونوں ایوانوں کی مشترکہ قائمہ کمیٹیاں قائم ہونی چاہئیں جبکہ چیئرمین سینٹ نے اپنے ریما رکس میں کہا یہ معاملہ وزیراعظم کے سا تھ اٹھایا جا سکتا ہے خط بھی لکھا تھا جسے موجودہ وزیراعظم کو بھی بھیجا جا سکتا ہے جبکہ قائد ایوان نے بھی تجویز کی حمایت کرتے ہوئے کہا مشترکہ قائمہ کمیٹیوں کے قیام کے مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔ اے پی اے کے مطابق نئے مالی سال کے بجٹ پر بحث کے دوران اپوزیشن ارکان نے کہا نئے مالی سال کے بجٹ میں ایران گیس پائپ لائن منصوبہ کا نہ تو کوئی ذکر نہ ہی اس کیلئے کوئی فنڈز مختص کئے گئے، حکومت کو اس منصوبے پر کام کرنا پڑے گا، سابق حکومت نے جرا¿ت مندانہ فیصلے کئے اس کو تسلیم کرنا ہو گا، جی ایس ٹی کا بوجھ عام صارفین پر پڑے گا، سروسز پر ٹیکس کا اختیار صوبوں کو ہے لیکن وفاقی حکومت نے یہ ٹیکس لگا دیا، گذشتہ حکومت کی طرف سے فاٹا کو دی جانے والی مراعات موجودہ حکومت نے واپس لے لی ہیں، فاٹا کو ٹیکس میں چھوٹ دی جائے تو مزید کارخانے لگیں گے جس سے معیشت میں بہتری آئے گی، ایف بی آر کو ٹیکس گزاروں کے اکاﺅنٹس تک رسائی دینا غیر منصفانہ اور غیر قانونی ہے، ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کیا جائے، حکومت بالواسطہ ٹیکسوں سے گریز کرے جبکہ حکومتی ارکان نے کہا بجٹ حکومتی ترجیحات کا آئینہ دار ہے۔ اے این پی کی سینیٹر فرح عاقل نے کہا خیبر پی کے اور بلوچستان میں پیش آنے والے دہشت گردی کے واقعات قابل مذمت ہیں، بجٹ کا کیا کریں جب انسانی جان و مال کو کوئی تحفظ نہیں حاصل نہیں، گیس اور بجلی کے موجودہ بحران میں حکومت کے لئے عوامی بجٹ پیش کرنا ممکن نہیں تھا لیکن عوام کو فوری ریلیف کی توقع تھی، گذشتہ حکومت بھی عوام کو ریلیف نہ دے سکی اور پانچ سال گزار دئیے۔ مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر محسن لغاری نے کہا کہ وزیر خزانہ سیاسی شخص اور ہم میں سے ہیں اس سے پہلے وزرائے خزانہ امپورٹ کئے جاتے رہے ہیں، بجٹ حکومتی ترجیحات کا آئینہ دار ہے۔ بلدیاتی انتخابات کا ہونا بہت ضروری ہے اور اس کے لئے قانون بھی بنانا ہو گا یہ مقررہ وقت میں ہوں۔ پیپلز پارٹی کے سینیٹر سلیم ایچ مانڈوی والا نے کہا بلاشبہ حکومت کو محاصل بڑھانے کی ضرورت ہے لیکن اس کے لئے غریب عوام پر بوجھ نہ ڈالا جائے۔ ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کیا جائے، حکومت بالواسطہ ٹیکسوں سے گریز کرے۔ ایم کیو ایم کے سینیٹر غلام علی نے کہا حکومت سے درخواست ہے عوام میں اس بجٹ سے پیدا ہونے والی بے چینی کا سدباب کرے، گذشتہ حکومت نے کاروباری برادری کو یقین دلایا تھا کہ ٹیکس رجسٹریشن بڑھنے سے سیلز ٹیکس کم ہو گا مگر افسوس ایسا نہیں ہو رہا بلکہ سیلز ٹیکس کو بڑھایا جا رہا ہے، گذشتہ حکومت کی طرف سے فاٹا کو دی جانے والی مراعات موجودہ حکومت نے واپس لے لی ہیں، فاٹا کو ٹیکس میں چھوٹ دی جائے تو مزید کارخانے لگیں گے جس سے معیشت میں بہتری آئے گی۔ حکومت صنعتی ترقی کے لئے اقدامات اٹھائے۔ بعدازاں سینٹ کا اجلاس (آج) بروز جمعہ صبح 10 بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔ 

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...