مجھے اچھا لگا کہ نوازشریف نے وزیر قانون زاہد حامد کے خلاف سپریم کورٹ میں رٹ ہوتے ہی ان کی وزارت تبدیل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ جب زاہد حامد کو وزیر قانون بنایا گیا تو ن لیگ کے اندر بھی بے چینی کا اظہار کیا گیا۔ زاہد حامد کی قابلیت کا یہی ایک ثبوت ہے کہ وہ جنرل مشرف کے وزیر قانون تھے۔ نوازشریف نے انہیں قابل سمجھتے ہوئے وزیر قانون بنایا۔ ورنہ ن لیگ میں وزیر قانون بننے کے اہل بہت لوگ ہیں۔ کچھ تو کچھ کچھ اہل دل بھی ہیں۔ ان میں ایک ظفر علی شاہ ہیں جو بڑے قانون دان ہیں سنیٹر ہیں اور بہت سلیقے سے اور دھڑلے سے بات کرتے ہیں وہ دھڑلے کے آدمی ہیں۔ مگر نجانے کیوں جنرل مشرف کے قریبی لوگوں کو ن لیگ میں بھی اہمیت دی جا رہی ہے۔ شجاعت عظیم ، ماروی میمن سمیرا ملک زبیدہ جلال وغیرہ وغیرہ بہت پسندیدہ ہیں اس لئے قابل بھی ہیں۔
جنرل مشرف کو 3 نومبر کی ایمرجنسی پلس کے لئے عدالت میں سامنا ہے۔ وزیر قانون زاہد حامد نے جنرل مشرف کو ایمرجنسی کے نفاذ کا مشورہ دیا تھا۔ ورنہ جنرل کو ایمرجنسی کا تو پتہ تھا۔ پلس کا پتہ نہ تھا۔ شریف الدین پیرزادہ ہر جرنیل کے مشیر ہوتے تھے۔ کسی نے تو ان کا کردار اپنانا تھا۔ جنرل مشرف کو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کی بجائے چیف ایگزیکٹو کہلوانے کا مشورہ بھی زاہد حامد نے دیا ہو گا۔ مشرف کو پلس کا کیا پتہ تھا۔ زاہد حامد انہیں ایمرجنسی مائنس لگانے کا مشورہ بھی دے سکتے تھے۔ مشرف کا دعویٰ ہے کہ ایمرجنسی کے نفاذ کی سمری وزارت قانون کی طرف سے آئی تھی۔ یہ فیصلہ شوکت عزیز اور زاہد حامد کی سفارش پر کیا گیا۔ ججز کے خلاف سارا کیس شوکت عزیز نے تیار کیا تھا۔ سٹیل ملز کی کرپشن کے خلاف سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد یہ سب ہنگامہ ہوا اور پھر جنرل مشرف کو جانا پڑا۔ اب وہ قیدی ہیں۔ زاہد حامد ایک بار بھی جا کے انہیں نہ ملے ہوں گے؟
حیرت ہے وہ 2008ءمیں فوری طور پر ق لیگ سے ن لیگ میں شامل ہوئے۔ یہ ہدایات کس طرف سے تھیں۔ 2013ءمیں ن لیگ کے ٹکٹ پر منتخب بھی ہو گئے اور پھر وزیر بھی بن گئے۔ 2008ءاور 2013ءکے درمیانی عرصے میں انہوں نے کیا کیا؟ چند لوگ جانتے ہیں۔ مشرف کے وزیر قانون کے طور پر کوئی قابل ذکر کارکردگی ان کی نہ تھی۔ اب ان کی قابلیت قبولیت کا روپ دھار گئی ہے۔ وہ خواجہ آصف کے دور پار کے رشتہ دار ہیں۔ فاروق ایچ نائیک کو حافظ حسین احمد نے صدر زرداری کی نائیکہ کہا ہے۔ زاہد حامد کا تعلق اسحاق ڈار سے بھی ہے۔ اندرونی اور بیرونی رابطے ہی اصل استحقاق ہوتے ہیں۔
زاہد حامد نے جنرل مشرف کے غیر قانونی معاملات کو جس طرح قانونی بتایا وہ کسی حکمران کو پسند نہیں آئے گا۔ اسی طرح کے لوگ ہر حکمران کو پسند آتے ہیں۔ وکلا برادری مضطرب ہے۔ لوگ پریشان ہیں۔ نوازشریف نے وکیل لیڈر منیر اے ملک کو اٹارنی جنرل بنایا ہے جسے سب نے پسند کیا ہے۔ صدر زرداری نے ایسے اٹارنی جنرل بنائے تھے کہ وہ سپریم کورٹ کے مدمقابل ہو گئے۔عدالت کے فیصلوں کا جو حشر صدر زرداری نے کیا۔ وہ اب نہیں ہو گا۔ زاہد حامد کے خلاف رٹ کا فیصلہ ابھی نہیں آیا اور نوازشریف نے ان کی وزارت تبدیل کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ میرے خیال میں وہ اگر قانون کی وزارت کے لئے موزوں تھے تو کوئی اور وزارت اُن کے لئے موزوں کیوں ہے؟ مجھے یقین ہے کہ حکومت اب عدالت کا ہر فیصلہ قبول کرے گی۔
عام خیال ہے کہ پارٹی لیڈر کے لئے فرماں برداری ہی اصل کوالی فکیشن ہوتی ہے۔ زاہد حامد نوازشریف کی فرمانبرداری کریں گے وہ جنرل مشرف کی بھی فرمانبرداری ہی کرتے تھے۔ نئے آدمی کو آزمانا خطرناک ہو سکتا ہے۔ لگتا ہے کہ ن لیگ نے اس حوالے سے کوئی ہوم ورک نہیں کیا تھا۔ ابھی سے فیصلے بدلنے اور اقدام واپس لینے کی کہانی شروع ہو گئی ہے۔ اس موقع پر وزیراعظم گیلانی یاد آتے ہیں۔
زاہد حامد سابق گورنر پنجاب شاہد حامد کے بھائی ہیں۔ ان کے والد بریگیڈئر حامد نواز کٹر جیالا تھے۔ پیپلز پارٹی کی طرف سے ایم این اے تھے۔ پیپلز پارٹی نے انہیں مصر میں سفیر بھی بنایا تھا۔ بیورو کریٹ شاہد حامد ڈی جی ایل ڈی اے تھے۔ پھر وکیل بن گئے۔ انہیں نگران وزیراعظم معراج خالد نے گورنر پنجاب بنایا تھا۔ پھر نجانے ان کی کونسی مہربانی وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو پسند آئی تھی کہ انہیں گورنر پنجاب رہنے دیا۔ جس کے لئے وہ شہباز شریف کے ممنون تھے اور اپنے گھر والوں کے بھی شکر گزار تھے۔ دونوں بھائی ایک جیسے ہیں۔ زاہد حامد جنرل مشرف کو پسند تھے اور اب نوازشریف کو پسند ہیں مگر وکیلوں اور ججوں نے رنگ میں بھنگ ڈال دی ہے۔ اس طرح رنگا رنگی میں اضافہ ہوتا ہے۔
وزیر قانون زاہد حامد اور غیر قانونی طاقت
Jun 21, 2013