آج بے نظیر بھٹو کی سالگرہ ہے۔ بے نظیر شہید ہوئیں تو ترکے اور ورثے میں ایک مضبوط پارٹی چھوڑی۔ بینظیر بھٹو کو انتخابی مہم کے دوران قتل کیا گیا۔ انکی موت کا سوگ قومی سطح پر منایا گیا۔ پورے ملک میں صف ماتم بچھی نظر آتی تھی۔ پیپلز پارٹی بینظیر بھٹو کی کرشماتی شخصیت کے باعث توانا اور مضبوط تھی۔ اس سے انکے خاندانی وارثوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ آصف علی زرداری نے اپنی اہلیہ کی وصیت پیش کی اور پارٹی کی سربراہی کا بار خود اپنے گلے میں ڈال لیا۔ لوگوں نے پیپلز پارٹی کو بھٹوز کے حیا میں ووٹ دیئے ۔ مشرف کی نیم آمریت کے دوران لوگوں نے اقتدار پیپلز پارٹی کے حوالے کیا جس کی زمام کار آصف علی زرداری نے وصیت کے زور پر اپنے ہاتھ میں لے لی ۔ انہوں نے پارٹی اور ملک کے ساتھ وہی کیا جس کی وہ شہرت رکھتے تھے۔ پانچ سال میں انہوں نے پارٹی کو اوج ثریا سے زمین پر دے مارا۔ پانچ سال میں پیپلز پارٹی کی حالت تگڑے سانڈھ سے نحیف بکری جیسی ہو گئی۔ اب متحدہ اور پیپلز پارٹی کے جرائم پیشہ عناصر کی دُم پر بوٹ پڑا ہے تو انکے سرپرستوں کی چیخیں نکلنے لگی ہیں۔ زرداری کو اپنی مفاہمت کی سیاست پر بڑا فخر رہا۔ وہ سیاستدانوں سے مفاہمت کی بات کرتے ہیں جبکہ فوج سے اعلان جنگ کر دیا۔ کہتے ہیں ہماری کردار کشی نہ رکی تو اینٹ سے اینٹ بجا دینگے۔ جنرل راحیل شریف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا آپ تین سال کیلئے آئے ہیں ہم نے ہمیشہ رہنا ہے۔ فوج کی طرف سے زرداری صاحب کی کوئی کردار کشی تو سامنے نہیں آئی البتہ بلاول ہائوس تک بھتے سے حصہ پہنچانے کا اعتراف کرنیوالے کچھ لوگ ضرور پکڑے گئے ہیں۔ عزیر بلوچ کہتا ہے اسی ہائوس سے ہدایت ملنے پر خالد شہنشاہ سمیت بے نظیر قتل کیس کے دو گواہوں کو قتل کیا۔یوں زرداری کا سیخ پا ہونا سمجھ میں آتاہے مگر یہ جلال زرداری جلد انجام تک لے جائیگا۔ زرداری نے لگتا ہے نحیف بکری (پیپلز پارٹی )اب اپنے ہاتھوں ذبح کر دی ہے۔ کل متحدہ اپنے خلاف کارروائی ہونے پر چلائی تھی،آج زرداری دھاڑ رہے ہیں،کل ن لیگ کوبھی انہی حالات کا سامنا ہو سکتا ہے کیونکہ اعمال میں کافی قدرِ مشترک ہے۔میرا گزشتہ دنوں کراچی جانا ہوا۔ سفر اورکراچی میں قیام کے دوران ملنے والوں نے سیاست پر کھل کر بات کی ۔متحدہ تو اپنے افعال و اعمال کی بدولت راندہ ئِ درگاہ ہے، کسی ایک نے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کیلئے کلمہ خیر نہیں کہا۔ کرپشن میں دونوں کو یکساں قرار دیا جا رہا تھا۔عمومی عوامی رائے کے برعکس ایک صاحب نے کہا کہ مسلم لیگ کی قیادت، پیپلز پارٹی کی قیادت سے زیادہ کرپٹ ہے۔ عمران خان کو بھی کسی نے سیاست میں پورے نمبر نہیں دیئے۔ کراچی میں اپنے دوست محمد علی علوی کے بیٹے غالب سلطان کے ولیمہ میں شرکت کرنا تھی۔ میجر شوکت علی علوی سے ملاقات کو بھی 22 سال ہو گئے تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ اپنے شعبے سول انجینئرنگ میں سپیشلائزیشن کیلئے امریکہ چلے گئے انہوں نے سٹرکچر میں سپیشلائزیشن کی۔ کرنل (ر) صغیر سے بھی ملاقات ہوئی۔ وہ بھی سول انجینئرنگ میں ایک بڑا نام ہیں۔ دونوں میٹرو میں عام آدمی کو ریلیف ملنے پر مطمئن توہیں مگر میٹرو کی تعمیر کے دوران انجینئرنگ کے بنیادی اصولوں کو جس طرح نظرانداز بلکہ پامال کیا گیا اس پر دل گرفتہ بھی ۔ شوکت علوی کا کہنا ہے کہ لاہور میٹرو کی تعمیر کے بورڈ کے چار ڈائریکٹر ز میں دو ڈپلومہ ہولڈر تھے۔ دبئی میٹرو دیکھیں اسکے سامنے لاہور میٹرو کا سٹرکچر کئی گنا ہیوج ہے۔اس پر صرف بس چلتی ہے جبکہ میٹریل ایسے لگایا گیا ہے جیسے ٹرالر اور ہیوی ٹریفک چلنی ہے۔ ایلیویٹڈ سٹرکچر ضرورت کیمطابق تعمیر کیا جاتا تو اخراجات کہیں کم ہوتے اور پھر ٹرانسپرنسی نے نجانے کیسے صرف پندرہ دن میں شفافیت کا سرٹیفکیٹ دیدیا۔ متعلقہ ڈاکومنٹس کا سرسری جائزہ لینے کیلئے بھی کم از کم چھ ماہ درکار ہیں۔ کراچی میں شہر کے حالات پر جس سے بھی بات کی اس نے امن و امان کی صورتحال پر اطمینان کا اظہار کیا۔ میں جہاں ٹھہرا تھا وہاںدیرینہ دوست محمد اکرام، محمد تسلیم اور عبید مان چلے آئے۔ ان سے بہت سے موضوعات پرسیرحاصل گفتگو ہوئی۔ مجھے واقعی ان Legends سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ اکرام اور مان اوپر سے موڈریٹ اندر سے درویش نظر آئے۔اکرام حوالہ دے رہے تھے کہ انسان کی نیت سبز پتوں کی مانند ہے۔نیت میں کھوٹ آئے تو سبز پتہ زردہوکر درخت کیساتھ اپنا وجود برقرار نہیں رکھ پاتا۔ہوا کا ایک ہلکا سا جھونکا زرد پتے کو زمیں پر گرا دینے کیلئے کافی ہوتاہے۔ باہمی معاملات،کاروبار اور تعلقات میں اگر دوسرے فریق کی بدنیتی کا یقین ہو تو بھی اسکے ساتھ تعلقات بگاڑے نہ جائیں، زرد پتے کو گرانے والے جھونکے کاانتظار کریں۔علم ،عزت اورتجربہ کی ترتیب پر گفتگو ہوئی ۔ ایک کورس کے دوران صحیح ترتیب کیلئے بحث ہوئی جس میں اکرام نے حصہ لیاتھا۔واقعی عزت سب سے پہلے اور علم آخر میں آتاہے۔ایک شخص کا تجربہ دوسروں کا علم ہوتاہے۔مان نے بادشاہ وزیر اور متمول تاجر کی حکایت سنائی ،تاجر نے وزیر کی مشکل حل کی تھی ۔وہ قلاش ہوا تو وزیر کے پاس آیا۔وزیر اسے بادشاہ کی خدمت میں لے گیا۔بادشاہ نے اس کی آئو بھگت کا حکم دیااور ایک دن اچانک اسے جیل میں ڈال کر رسی بنانے کی مشقت پر لگادیا۔کچھ عرصہ بعد اسے قید خانے سے نکال کر مالا مال کر کے اپنے وطن جانے کو کہا۔تاجر نے پر اسرایت جاننے پراصرار کیا تو بادشاہ نے بتایا کہ قید میں تیرے ستارے کا جائزہ لینے کیلئے ڈالاتھا۔تجھے رسی بنانے کیلئے 100روپے کا مٹیریل دیا گیا تھاپہلے روز رسی پچاس روپے کی بکی ۔کچھ عرصہ بعد75پھرسو کی بکی۔اب دوسو کی بک رہی تھی تو ہم نے اندازہ لگایاکہ تیرا ستارہ گردش سے نکل چکا ہے۔تاجر نے یہ سنا تو سارا سامان بادشاہ کو واپس کرتے ہوئے کہا کہ جب اوپر سے حالات بدل گئے ہیں تو پھر بادشاہ سے مدد کیوں لوں۔ تسلیم کا درپیش ملکی حالات پرزبردست تجزیہ تھاکہ ہماری ایجنسیاں خاص مقاصد کیلئے طالبان اور متحدہ جیسی تنظیموں کو کھڑا کرتی ہیں، مقصد پورا ہونے پر ان تنظیموں کو ختم کرنا بھی ایجنسیوں کی ذمہ داری ہے مگر ان کو کھلا چھوڑ دیا جاتا ہے جو مزید طاقت پکڑ کر ریاست کے گلے پڑ جاتی ہیں اور پھر ان پر قابو پانا ناممکن کی حد تک مشکل ہوتا ہے۔