ماہ صیام: اپنا رب راضی کر لو

قارئین کو رمضان کے مہینے کی آمد پہ مبارکباد پیش کرتی ہوں۔ ممکن ہے کہ ہم میں سے بیشتر لوگ ایسے ہوں جو رمضان کے مہینے میں بوجھل اور اکھڑ سے ہو جائیں کیونکہ صبروبرداشت ایک ایسا وصف ہے جو ذریعہ حصول جنت ہے اور سب جنتی نہیں ہوتے۔ صبرواستقامت رکھنے والوں کو اللہ نے پسند فرمایا ہے‘ لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ کے پسندیدہ بندوں میں شامل ہونا بھی مقدر کی بات ہے۔ یہ میں اس لئے کہہ رہی ہوں کہ رمضان کے مہینے میں ہمیں خالق کائنات کی طرف سے پورا پورا موقع ملتا ہے کہ ہم صبرواستقامت کا پہلو تھام کر اللہ تبارک و تعالیٰ کی پسندیدگی حاصل کر لیں۔ جنتی بن جائیں اور متقی ہو جائیں۔ ہم نے بحیثیت مسلمان فیصلہ کرنا ہے کہ ہم نے کیا رمضان کے مہینے کا پورا پورا فائدہ اٹھانا ہے‘ گھبرانے و پریشان ہونے کی کیا بات ہے۔ دیکھا جائے تواس وقت کی شدید گرمی بھی ابر کرم کے موتی برسانے والے ہی کی قدرت ہے جو آتش جہنم کی گرمی کی سی تو نہیں۔ جون جولائی کی گرمی کی تپش پر صبر روزہ دار کو آتش جہنم کی سخت ترین جھلسا دینے والی گرمی سے نجات دلا دیتی ہے اور پھر یہ کہ روزے کی بھوک‘ پیاس و گرمی کی صعوبت پہ صبر کرنے والے کو اللہ رحیم و کریم کب اکیلا چھوڑتا ہے۔ صبر کرنے والے کا ساتھی بھی اللہ ہے۔ بندے کو تو صبر و برداشت کرنے کا صرف ارادہ کرنا ہے۔ بس خالص ارادہ کرکے دیکھو۔ روزہ تو خودبخود آسان ہو جاتا ہے۔ پہلا تو اس لئے کہ روزہ آسان بندے کے سچے ارادے سے ہوتا ہے اور دوسرا روزہ آسان اس وقت ہوتا ہے جب فضائل رمضان کا خیال ذہن میں آکر راحت و اطمینان و تسکین دیتا ہے۔ فرمایا ’’روزہ دار کے صبر کا صلہ جنت ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’روزہ میرے لئے ہے اور میں خود اس کا اجر دوں گا۔‘‘ اور عنایات الٰہی بھی سنئے کیا خوب ہیں کہ اس مبارک مہینے میں کی گئی ایک نیکی کا اجر دس سے ستر گنا دیا جاتا ہے۔ نفل کا ثواب فرض کے برابر کر دیا جاتا ہے اور فرض کا اجر ستر گنا اور اگر خدا تعالیٰ چاہے تو ہزار گنا بڑھا دیتا ہے روزہ کو جسم کی زکوٰۃ بتایا گیا تو روزہ کوگناہوں کے خلاف ڈھال بھی بنایا گیا۔ روزے سے بندے کی زندگی کو نفس کی بالیدگی سے پاک قرار دیکر متقی النفس بتایاگیا تو روزے کی حالت میں رحلت کر جانے والے بندے کو عذاب قبر و حساب قبر سے امان کا موجب بھی بنایا گیا۔ روزہ فرضی عبادتوں میں شمار ہوتا ہے۔ مالک کائنات اللہ ذی شان کا ارشاد ہے کہ ’’اے ایمان والو! تم پر روزہ فرض کیا گیا ہے۔ جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیا گیا تھا تاکہ تم پرہیزگار بن سکو۔‘‘ تحقیق سے آیات ربانی کی صداقت کسی بھی شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ نبی آخرالزمان محمد مصطفیؐ کی آمد سے قبل پیغمبران اسلام کی دیگر امتوں پر بھی روزے اترے اور روزوں کو تکریم حاصل ہوئی بلکہ اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب کے پیروکار بھی روزے رکھتے ہیں۔ ہندومت ‘جین مت‘ بدھ مت‘ عیسائیت و یہودیت میں بھی اپنے اپنے عقائد اور طورطریقوں کے مطابق روزے رکھے جاتے ہیں‘ لیکن جو انفرادی و اجتماعی مقدس ماحول ماہ صیام میں مسلمانوں کے ہاں بنتا ہے‘ وہ شاید ہی کسی دوسرے مذہب کو نصیب ہو۔ یہ اس لئے کہ اسلام میں روزہ بھوک ہڑتالی فعل ہرگز ہرگز نہیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہمیں بھوکا رکھ کر کیا لینا؟ اسلام میں ماہ صیام کے تیس روزوں کا محرک اصلاح معاشرہ و بقائے انسانیت ٹھہرا ہے۔ اسلام میں روزہ صبر‘ استقلال کے ساتھ باہمی ہمدردی و احترام انسانیت کا مبلغ ہے۔ اسلام میں روزہ ایثار و قربانی کا درس اور نفس عمار کاممتحن ہے۔ اسی لئے تو زکوٰۃ‘ فطرانہ و صدقہ جیسی مالی عبادتوں کی بھی تحریک رمضان کے مہینے میں ہی مسلمانوں کو ملتی ہے۔ شاید یہ تحریک کسی اور مہینے یا کسی اور موقع پر مل سکتی ہو۔ رمضان کے مہینے میں یتیم‘ غریب‘بے بس‘ بے سہارا کی اس طرح کی والہانہ بازپرسی ‘ تربیت اسلام کے علاوہ شاید ہی کسی اور مذہب میں دیکھنے کو مل سکے۔ قرآن جو ہدایت انسانی کا سرچشمہ ہے‘ اسے رمضان کے مہینے میں اتارا گیا اور مذاہب میں بھی مذہبی کتابیں ہیں‘ لیکن رمضان کے مہینے میں مسلمانوںکو جو شرف قرب خالق حقیقی کی پاک و صادق آسمانی کتاب ’’القرآن‘‘ سے حاصل ہوتا ہے‘ اور رمضان میں جس طرح تفہیم القرآن کا دائرہ اور وسیع ہوتا ہے‘ شاید ہی کسی اور مذہبی کتاب کے پیروکاروں کو اس طرح روزوں کے ساتھ ایسا روحانی کتاب کا قرب عظیم نصیب ہوتا ہو۔ پھرمسلمانوں کو ایک ایسی رات کا تحفہ بھی ملا کہ جس میں کی گئی بندۂ خدا کی عبادت کو ہزاروں مہینوں کی عبادت کے مترادف انعام کیا گیا۔ سبحان اللہ۔ کیوں ناں ہم اس رمضان میںشکرگزارہوں۔ اللہ ذی شان کے کہ جس نے ہمیں مسلمان بنایا اور رمضان دیا۔ الحمدللہ۔ لیکن تمام تر انعامات و اعزازات کے باوجود ہم اس ماہ صیام ذی عالی وقار کے قرضدار ہیں۔ بنیادی طورپر ایمان کے فقدان کے سبب ہم رمضان المبارک کی روح کو پانے میں ناکامیاب ہو جاتے ہیں بلکہ رمضان کے مہینے کو لوٹ مارکے بازار کو مزید گرما دینے کا زریں موقع بنا دیتے ہیں۔ کساد بازاری‘ ذخیرہ انذوزی و مہنگے داموں اشیاء خوردونوش کی فروخت سے معاشرتی سطح پر بے چینی پیدا ہو جاتی ہے۔ابھی جون کے مہینے میں روزوں کا آغاز ہوا اور چند روز قبل جون ہی میں بجٹ 2015-16ء کا اعلان کیا گیا جس سے کم وسیلہ طبقے کو ریلیف نہ ملنے پر عوامی سطح پر تنائو کی کیفیت پیدا ہو چکی ہے۔ اس وقت رمضان کے مہینے کے تقدس میں مجموعی طورپر معاشرے کا پسا طبقہ اگرچہ احتجاجی مہم کا آغاز کرکے اپنی عبادتوں کے فیوض کے حصول کا موقع گنوانا نہیں چاہتا۔ بحرحال حکومت کا فرض اولین ہے کہ جو ترقیاتی و فلاحی پروجیکٹس عوام کیلئے ترتیب دیئے گئے‘ انہیں خلوص کے ساتھ مکمل کرے۔ رمضان بازارسج گئے ہیں‘ لیکن رمضان سستے بازاروں کے فوائدغریب عوام تک پہنچنے چاہئیں۔ بیت المال و عشر زکوٰۃ کی رقمیں مستحقین تک پہنچنی چاہئیں۔ وزیراعلیٰ شہبازشریف اور میاں حمزہ شریف ذاتی طورپر اگر صورتحال کو مانیٹر کریں تو بھی ہماری کوتاہیوں کا ازالہ ممکن ہو سکتا ہے۔سستی اشیاء و سستے بازار رمضان میں نہیں بلکہ ساراسال غریب کو آسودہ رکھنے کیلئے ضروری ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو رمضان کے واسطے سے راضی کر لیں۔

ای پیپر دی نیشن