محلے کی ان پڑھ، نک چڑھی بدزبان خاتون اگر اس انداز سے بات کرے تو سمجھ آتی ہے۔ لیکن اگر ریاستی حکمران سفارتی آداب و اخلاقیات بھول کر اس زبان پر اتر آئیں تو اس کو کیا کہیں گے۔ آخر ایسا کیا ہو گیا ہے کہ جس کی وجہ سے بھارت جیسا جمہوریت کی ماں کہلانے اور سیکولرازم کا چیمپئن بننے والا ملک یوں آپے سے باہر ہو رہا ہے۔ اگر اس کی وجہ پاکستان و چین کے درمیاں کاشغر سے گوادر تک ہونے والا راہداری کا معاہدہ ہے تو یہ دو آزاد ریاستوں کا خالصتاً داخلی مسئلہ ہے جس کی دنیا بھر میں ہزاروں مثالیں موجود ہیں خود بھارت چین کے ساتھ اس طرح کے دو معاہدوں پر دستخط کر چکا ہے بلکہ بھارت کے اسلحہ ساز بڑے ممالک کے ساتھ ایسے معاہدے موجود ہیں جن پر پاکستان کو شدید تحفظات ہیں کہ یہ جدید اسلحہ پاکستان کے خلاف استعمال ہو گا جبکہ بھارت کو اپنے کسی ہمسایہ ریاست سے تو کیا دوردراز کے کسی ملک سے بھی کوئی خطرہ نہیں‘ تو کیا بھارتی اشتعال کا سبب مقبوضہ کشمیر میں نئے سرے سے زور پکڑتی آزادی کی تحریک ہے؟ تو یہ بھی کوئی اچانک رونما ہونے والی بات نہیں۔ کشمیری1947 سے بھارتی غاصبانہ قبضے سے جان چھڑانے کیلئے جدوجہد کررہے ہیں۔ بھارت اپنے اسلام دشمن رویے، کشمیریوں کے خلاف پائے جانے والے تعصب اور ظلم و جبر پر مبنی اپنی پالیسی کے سبب کشمیریوں کے دل جیت ہی نہیں سکا۔ اس نے قتل و غارت گری اور انتقامی کارروائیوں کے ذریعے کشمیریوں کو دبا کر رکھنے کی کوشش کی ہے۔ انہیں غلام بنا کر رکھا ہے صرف کشمیر ہی کیوں بھارت کے اندر اقلیتوں‘ نچلی ذات کے ہندوؤں اور خاص کر مسلمانوں کے ساتھ بھارتی حکومت و اداروں کا جو رویہ ہے اسے دیکھتے ہوئے کشمیریوں کی نئی نسل بھارت کے ساتھ رہنے کا تصور ہی نہیں کر سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ نوجوان کشمیریوں نے پاکستان کے پرچم کو وہاں قابض بھارتی فوج و سیکورٹی کے دیگر اداروں کے لئے چھیڑ بنادیا ہے‘ بالکل ان شرارتی بچوں کی طرح جو کسی مخبوط الحواس یا پاگل شخص کو ایسے لقب سے پکارتے ہیں جس سے وہ چڑتا ہواپتھر اٹھا کر انہیں مارنے کیلئے لپکتا ہے۔
کشمیری نوجوان جہاں کہیں بھارتی فوجیوں یا ریاستی پولیس کودیکھتے ہیں ’’ پاکستان زندہ باد‘‘ کشمیر بنے گا پاکستان‘ تیری آن میری جان پاکستان پاکستان‘‘ کے نعرے لگانا شروع کردیتے ہیں جس سے مشتعل ہو کر بھارتی فورس پاگلوں کی طرح ان کے پیچھے دوڑتی ہے وہ منتشر ہوتے ہیں اور تھوڑی دیر بعد پاکستان کے جھنڈے لے کر پہنچ جاتے ہیں۔ بھارتیوں کو چڑانا کشمیریوں کے لئے شغل بن چکا ہے اب تو اس شغل میں مقبوضہ کشمیر میں آباد سکھ بھی ان کے ساتھ شامل ہو چکے ہیں وہ بھی پاکستان کا پرچم لہرانے لگے ہیں تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ بھارت پاکستان کو دھمکیاں دینا شروع کر دے، گزشتہ دنوں آپریشن بلیو سٹار کی 31 ویں برسی کے موقع پر گولڈن ٹیمپل میں منعقدہ ایک تقریب کے دوران سکھوں نے ’’خالصتان زندہ باد‘‘ کے نعرے لگا دیئے سکھوں کی اپنی گوردوارہ پر بندھک کمیٹی کی ٹاسک فورسز نے انہیں روکنے کی کوشش کی تو تصادم ہو گیا جس میں بہت سے سکھ نوجوان زخمی ہو گئے بعدازاں سکھوں نے گولڈن ٹیمپل سے باہر نکل کر خالصتان کے حق میں نعرے لگانے شروع کر دیئے 1984 کے بعد یہ پہلا موقع تھا جب سکھوں نے یوں کھلے عام بھارت سے آزادی اور خالصتان کے قیام کیلئے نعرے بازی کی۔ موقع پر موجود پولیس نعرے لگانے والے سکھوں پر ٹوٹ پڑی، لاٹھی چارج سے بے شمار سکھ زخمی ہو گئے۔
100 کے قریب سکھوں کو گرفتار کر لیا گیا اسکا ذمہ دار شیوسینا کی بھارتی صوبہ پنجاب سے تعلق رکھنے والی قیادت نے پاکستان کو قراردیتے ہوئے الزام لگایا کہ پاکستان خالصتان کی مردہ تحریک کو پھر زندہ کرنا چاہتا ہے حالانکہ ہندو انتہا پسندوں کو پاکستان کی ایک سابق وزیراعظم کا احسان مند ہونا چاہئیے تھا جس نے سکھوں کی تحریک کو کچلنے میں بھارت سرکار کو مدد فراہم کی نہ کہ وہ الٹا پاکستان کو رگیدنا شروع کر دیں چاہے اندرا کانگرس ہو یا انتہا پسند ہندوؤں پر مشتمل انہیں بھارت میں بسنے والی اقلیتوں سے اپنے دائمی و روایتی رویے پر غور کرنا چاہئیے‘ وہ اگر اپنی ریاست سے سیکولرازم کا جعلی ٹھپہ اتار کر اسکی شناخت ’’ہندو انتہا پسند ریاست‘‘ کے طور پر دنیا کے سامنے لانا چاہتے ہیں تو بھی انہیں اس بات کا کوئی حق نہیں کہ وہ اپنے ہاں آباد سکھوں‘بدھوں یا مسلمانوں کا جینا مشکل کر دیں۔ نچلی ذات کے ہندوؤں کو اتنا دبائیں کہ وہ بھارت سے آزادی کے لئے بندوق اٹھانے پر مجبور ہو جائیں اوربھارت ان کا غصہ بھی پاکستان کے خلاف بڑھکیں لگا کر نکالے۔
یہی کچھ 2 جون کو بھارت کی شمال مشرقی ریاست منی پور میں علیحدگی پسندوں کی طرف سے بھارتی فوج پر انتہائی تباہ کن حملے کی صورت میں ہو۔منی پور میںبھارتی فوج پر حملہ ایسے وقت میں ہوا جب بھارتی وزیر دفاع منوہر پاریکر پاکستان کودھمکیاں دے رہے تھے۔ پاکستان کو سبق سکھانے کی بات کر رہے تھے۔ نریندر مودی کا لب و لہجہ بھی سفارتی آداب سے عاری ہو چلا تھا تاہم حملے کے بعد یہ تاثر ابھرنا کہ بھارتی فوج لڑنے کا حوصلہ نہیں رکھتی بہت ’’الارمنگ‘‘ تھا جس کے تدارک کیلئے بھی پاکستان کو زبانی کلامی تختہ مشق بنایا گیا۔ ایک طرف برما میں علیحدگی پسندوں کے کیمپ پرحملے اور وہاں 50 باغیوں کی بھارتی فوج کے ہاتھوں ہلاکت کا ڈرامہ سٹیج کیا گیا (بھارت ابھی تک مارے جانے والے50 باغیوں کی لاشیں اپنے میڈیا کے سامنے نہیںلا سکا۔ ساتھ ہی اس ڈرامے کو پاکستان کیلئے بھی پیغام قرار دے دیا گیا کہ اسی طرح کے محدود حملے پاکستان میں بھی کئے جا سکتے ہیں۔ بات یہیں پرختم نہیں ہوتی اپنی فوج کا مورال بحال کرنے کیلئے بھارتی وزیر دفاع نے انوکھی مگر نہایت احمقانہ منتطق گھڑی کہ ’’فوج کی اہمیت برقرار رکھنے کیلئے ہمیں کم از کم ایک جنگ لڑنا ہو گی کیونکہ جنگ نہ ہونے سے ہماری فوج کی حیثیت کم ہو رہی ہے‘‘ اب بھارت کو کون سمجھائے کہ جنگ ہمیشہ حوصلے سے لڑی جاتی ہے ظلم و جبراور زبان درازی سے نہیں۔اور نہ ہی ملک کو اسلحہ کے گودام میں تبدیل کرنے سے جنگ جیتنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ بھارت پاکستان کو دھمکیاں دینے سے پہلے اپنا گھر سنبھالے۔