کسی نامور شخصیت کے ہاں پیدا ہونا قابل فخر بات تو ہے مگر بڑی بات تو یہ ہے کہ جو آپ کے تعارف کا باعث ہوں اُنکے نام کو اپنے کردار سے بامِ عروج پر پہنچا دیا جائے۔ ہمارا معاشرہ مردانہ غلبہ رکھنے والا ایک روایتی، مذہبی معاشرہ رہا ہے۔ ہمارے ہاں بیٹا ہی وارث کہلاتا ہے اور بیٹی کا اس مقام تک پہنچنا ناممکن سمجھا جاتا ہے۔ 21 جون 1953ء ایک ایسی بینظیر بیٹی کا یوم ولادت ہے جس نے اپنی 30 سالہ مسلسل جدوجہد کے ذریعہ ان پرانی روایات اور رسوم کا خاتمہ کیا اور خود کو اپنے مدبر والد کی شاندار سیاسی وراثت کا اہل ترین وارث ثابت کیا۔ محترمہ بینظیر بھٹو نے بھٹو شہید کی سیاسی جدوجہد کو آگے بڑھاتے ہوئے پاکستان میں جمہوریت، آزادی اظہار، مساوات، معاشی اور معاشرتی طور پر کمزور طبقات کیلئے جدوجہد کی۔بھٹو صاحب اور بیگم بھٹو نے بی بی کی تربیت آغاز ہی سے روایتی لڑکیوں سے مختلف کی۔ بی بی کا کسی بھی مذہب اور عقیدے سے تعصب نہ رکھنا اسی تربیت کا مرہونِ منت ہے۔ ’’میری والدہ اکثر ایرانیوں کی طرح شیعہ مسلک کی تھیں جبکہ ہمارا باقی خاندان سنی ہے۔ لیکن یہ ہمارے درمیان کوئی مسئلہ نہیں۔ شیعہ اور سنی ہزاروں سال سے پہلو بہ پہلو رکھتے چلے آرہے ہیں۔ ہمارے اختلافات کم ہیں اور مشترکات زیادہ ہیں اور ہمارے خاندان میں اسی پر زیادہ زور دیا جاتاہے‘‘۔ دورانِ تربیت بی بی کو اپنے بھائیوں کے ساتھ مساوی مواقع حاصل تھے اور یہی اُن کی شخصیت کی خوداعتمادی کا باعث تھا۔ بی بی اس کا ذکر یوں کرتی ہیں۔’’میرے خاندان میں ایسا کوئی مسئلہ نہیں تھا کہ میری ہمشیرہ اور مجھے زندگی میں وہی مواقع نہیں ملیںگے جو میرے بھائیوں کو ملیں گے۔ اسلام میں کوئی ایسی تفریق نہیں ہمیں چھوٹی عمر ہی میں اس بات کا علم ہوگیا تھا کہ یہ ہمارے مذہب میں بعض مردوں کی تاویل ہے جو عورتوں کیلئے مواقع کو محدود کردیتی ہے۔ دراصل ہمارا مذہب اسلام ابتداء سے ہی عورتوں کیلئے بہت ترقی پسند نظریہ رکھتا ہے ۔ ہمارے رسول ﷺ نے اس وقت عرب رسم و رواج کے تحت چھوٹی بچیوں کو زندہ دفن کرنے کو ممنوع قرار دے دیا تھا اور انہیں وراثت کا بھی حقدار بنایا تھا۔ مغرب میں عورتوں کو یہ حقوق بہت بعد میں حاصل ہوئے تھے۔ حضرت خدیجہؓ پہلی مسلمان خاتون تھیں اور تجارت کرتی تھیں‘‘۔محترمہ اسلامی تاریخ کے ان بینظیر کرداروں سے بخوبی آگاہ تھیں اور انہی سے رہنمائی حاصل کرتی تھیں۔ وہ حضرت ز ینبؓ سے بہت متاثر تھیں خصوصاً امام حسینؓ کی شہادت کے بعد حضرت زینبؓ کا کردار ان کیلئے مشعلِ راہ تھا۔ بھٹو صاحب کے ہاں سب سے زیادہ ترجیح تعلیم کو حاصل تھی اور وہ اپنے بچوں کو تعلیم یافتہ اور ترقی پسند پاکستانیوں کی اگلی نسل میں شامل کرنا چاہتے تھے۔ جب محترمہ اعلیٰ تعلیم کیلئے ریڈکلف کالج روانہ ہونے لگیں تو بھٹو صاحب نے انہیں کچھ یوں نصیحت کی۔ ’’پاکستان میں بہت کم لوگوں کو تمہارے جیسا موقع میسر آتا ہے تمہیں اس کا پورا فائدہ اٹھانا چاہئے اور مت بھولو کہ تمہارے بھیجے جانے پر جو خرچہ اُٹھے گا وہ ہماری اپنی زمینوں سے آتا ہے۔ان لوگوں کی محنت ہے جو خون پسینہ ایک کرکے کماتے ہیں اور زمینوں پر کام کرتے ہیں تمہیں ان کا قرض چکانا ہے اور یہ قرض تم چکا سکتی ہو۔ بفضل خدا اپنی تعلیم کو ان لوگوں کی زندگیاں بہتر بنانے پر صرف کرو‘‘۔مٹی کی محبت کا قرض اتارنا اور اسکے بے بس محکوم عوام کی بھلائی کیلئے کام کرنا ہی بی بی کا مقصد حیات ٹھہرا اور وہ اس میں کھوگئیں …؎
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اُتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے
بھٹو صاحب کا اپنی بیٹی سے تعلق کوئی عام باپ بیٹی جیسا تعلق نہ تھا یہ رشتہ روحانی اور نظریاتی حد تک بہت گہرا تھا۔ کیا کوئی عام باپ اور بیٹی کبھی مشترکہ جدوجہد کا ایسا عہد بھی کرتے ہیں جیسا انکے ہاں نظر آتا ہے ’’میں اپنی بڑی بیٹی کیلئے سب کچھ کرنے کو تیار ہوں مشکل یہ ہے کہ تم بھی حساس ہو اور تمہاری آنکھوں سے بھی فوراً آنسو گرنے لگتے ہیں جیسے میری آنکھوں سے بھی اسکی وجہ یہ ہے کہ ہم دونوں ایک گوشت پوست کے بنے ہوئے ہیں۔ آئو ہم دونوں ایک دوسرے کو سمجھنے کا معاہدہ کرلیں تم ایک متحرک طبیعت کی مالک ہو۔ ایک متحرک انسان کی یہ کمزوری ہے کہ وہ صحرا کو حدت کے بغیر اور پہاڑوں کو برف کے بغیر دیکھنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا تم اپنی دھوپ کی چمک اور اپنی قوسِ قزح کو باطنی اقدار اور اخلاقیات میں تلاش کرو گی اور یہیں تمہیں کاملیت کا حصول ممکن ہوگا ہم دونوں قابل تعریف کامیابیوں کیلئے مشترکہ طور پر جدوجہد کرینگے کیا تم تیار ہو کہ ہم اس میں سرخرو ہوجائیں‘‘۔ اس عہد کی تکمیل کیلئے بی بی نے اپنی ساری زندگی وقف کردی۔ قیدوبند کی صعوبتیں آمرانہ حکومتوں کے ہتھکنڈے باپ اور بھائیوں کے لاشے جلاوطنیاں، خاوند کی گیارہ سال قید، ماں کی بیماری، بچوں کی محرومیاں کچھ بھی بی بی کو اس کے مقصد سے ہٹا نہ سکا۔ 24 سال کی کم عمری میں ضیاء آمریت سے ٹکرانا اور عوام کے حقوق کیلئے جنگ لڑنا ہماری تاریخ کا بینظیر باب ہے اس پر جالبؔ کو کہنا پڑا۔
ڈرتے ہیں بندوقوں والے ایک نہتی لڑکی سے
بھٹو کی بیٹی ایک سچی اور بے مثال بیٹی تھی ۔ بھٹو صاحب اپنی بینظیر بیٹی کو سالگرہ کے موقع پر ایک خط لکھتے ہوئے یوں مخاطب ہوتے ہیں۔ ’’ایک بدنصیب قیدی باپ اپنی پیاری اور ذہین بیٹی کو خط کے ذریعے سالگرہ کی مبارکباد کیسے دے پائیگا جو اپنے باپ کی زندگی کیلئے جدوجہد کررہی ہے اور خود بھی پابند سلاسل ہے جو اپنے اور اپنی ماں کے سانجھے دکھ کو جانتی ہے کس طرح محبت سے لبریز جذبات کا پیغام ایک قید خانے سے دوسرے قید خانے اور ایک زنجیر سے دوسری زنجیر تک پہنچ سکتا ہے۔ تمہارے دادا نے مجھے باوقار سیاست سکھائی اور تمہاری دادی سے میں نے غریب کی سیاست سیکھی۔ میری پیاری بیٹی میں تمہیں صرف ایک پیغام دینا چاہتا ہوں یہی تاریخ کا پیغام ہے کہ صرف عوام پر بھروسہ کرو انکی بھلائی اور مساوات کیلئے کام کرو۔ خدا کی جنت ماں کے قدموں تلے اور سیاست کی جنت عوام کے قدموں تلے ہے۔ میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے سے تمہیں کیا تحفہ دے سکتا ہوں جہاں میں اپنا ہاتھ بھی باہر نہیں نکال سکتا۔ آج میں تمہارے ہاتھ میں عوام کا ہاتھ دیتاہوں‘‘۔ وہ دن اور آج کا دن بھٹو کی بیٹی نے اپنے ہاتھوں سے عوام کا ہاتھ چھوٹنے نہ دیا۔…؎
کب یاد میں تیرا ساتھ نہیں، کب ہاتھ میں تیرا ہاتھ نہیں
صد شکر کہ اپنی راتوں میں اب ہجر کی کوئی رات نہیں
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا، وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے، اس جاں کی تو کوئی بات نہیں