واشنگٹن (نمائندہ خصوصی) امریکی محکمہ دفاع کی تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے افغانستان میں صدر اشرف غنی کی حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں بہتری علاقائی سلامتی کے لئے بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔ دونوں ممالک کی جانب سے سرحد کے آر پار سکیورٹی کے لئے باہمی رابطوں کی خواہش کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ افغانستان کی سلامتی و استحکام کے لئے پاکستان کا کردار بہت اہم ہے۔ افغانستان کی سلامتی و استحکام کے حوالے سے اس رپورٹ میں پینٹاگون نے کہا ہے کہ صدر اشرف غنی اقتدار سنبھالنے کے بعد افغانستان اور پاکستان رہنمائوں میں متعدد ملاقاتیں ہوئیں جن میں باہمی سلامتی کے حوالے سے مذاکرات ہوئے۔ پاکستان اور افغانستان دونوں کو داعش کے ممکنہ وجود کے خطرہ کے بارے میں تشویش ہے۔ وزیراعظم محمد نوازشریف نے 12مئی کے خطاب میں افغانستان کے مفاہمتی عمل میں پاکستان کی جانب سے بھرپور حمایت کا اعادہ اس کے علاوہ نوازشریف نے طالبان کے موسم بہار کے حملوں پر کھلے عام تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ افغانستان کے دشمن پاکستان کے دوست نہیں ہو سکتے۔ پشاور میں سکول پر حملے کے بعد پاکستان اور افغانستان سکیورٹی مفادات پر تعاون کر رہے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان ملٹری ٹو ملٹری تعلقات میں بھی بہتری آ رہی ہے۔ پاک فوج نے آپریشن خیبر ٹو بھی شروع کر رکھا ہے جس میں پاک فوج افغانستان کی فوج سے رابطہ رکھے ہوئے ہے۔ دسمبر 2014ء میں پاکستان نے قومی ایکشن پلان شروع کیا جس کا مقصد دہشت گردوں کا خاتمہ کرنا ہے۔ 23 دسمبر 2014ء کو افغانستان کے آرمی چیف جنرل شیر محمد کریمی نے جنرل راحیل شریف سے ملاقات کی۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومت پاکستان نے دہشت گردوں کے خاتمے کیلئے قومی ایکشن پلان بنایا، یہ ایک طویل المیعاد پلان ہے جسے بڑی رکاوٹوں پر قابو پانا پڑے گا۔