ملک پر چھایا آسیب کا سایہ اور منیر نیازی کی یاد

شاعر منیر نیازی کی ذات پر تمام عمر یہ بہتان لگارہا کہ وہ بہت اناپرست آدمی ہیں۔ کسی کی ذات کو خاطر میں نہیں لاتے۔ اپنے ہم عصروں کے بارے میں مدتوں کوئی پھبتی یوں سوچتے رہتے ہیں جیسے کسی اچھے شعر کی تلاش میں ہوں۔ جب ان کی ’’تسلی‘‘ کرنے والی پھبتی دریافت ہوجاتی ہے تو وہ ’’اچانک‘‘ کسی ایسی محفل میں پوری تحقیق کے بعد ’’نمودار‘‘ ہوجاتے جہاں وہ شخصیت ہر صورت موجود ہوتی ہے۔
باتوں باتوں میں اس شخص کے بارے میں اپنا ’’کئی دن پہلے سے ایجادکردہ‘‘ فقرہ ’’بے ساختگی‘‘ کے ساتھ اس محفل میں بیان کردیتے۔ چند ہی دنوں میں ان کے منہ سے نکلا یہ تضحیک آمیز فقرہ کوٹھوں چڑھ کے زبان زدِعام ہوجاتا ۔
اپنے کالج کے ایام میں ریڈیو پاکستان اور پاک ٹی ہائوس میں منیر نیازی کو کئی بار دیکھا۔ ان کے ’’اناپرست‘‘ مشہور ہونے کی وجہ سے لیکن ان سے کبھی اپنا تعارف کروانے کی ہمت ہی نہ ہوئی۔دیکھنے میں اگرچہ وہ بہت شاندار مردنظر آتے تھے۔ لمبے قد والے وجیہہ آدمی جو کھوئے کھوئے دِکھنے کے باوجود مقناطیسی کشش کے حامل تھے۔
منیرنیازی سے ذاتی تعارف کی ہمت کئے بغیر میں لاہور سے اسلام آباد آگیا۔ پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس میں، جسے ان دنوں ادارئہ ثقافتِ پاکستان کہا جاتا ہے، تحقیق وغیرہ کی نوکری مل گئی۔ بعدازاں مگر 5جولائی 1977ء ہوگیا۔ چند ہی دنوں بعد احساس ہوا کہ جنرل ضیاء کا دور لمبا ہوگا اور اس میں کلچرشلچر کے پنپنے کی ہرگز کوئی گنجائش نہیں۔ نوکری سے استعفیٰ دے دیا۔ رزق تو پھر بھی کمانا تھا۔پاکستان ٹیلی وژن کا ڈرامہ نگار تسلیم ہوچکا تھا۔ سوچا ڈرامے لکھنے پر ہی توجہ دے کر گزارہ کیاجائے۔
کوئی ڈرامہ مگر سوچنے کی کوشش کرتا تو سمجھ ہی نہ آتی کہ کیا لکھا جائے۔ کوئی کہانی ذہن میں آبھی جاتی تو اسے ڈرامے کی صورت دیتے ہوئے ہر وقت یہ خوف لاحق رہتا کہ جانے اس کے کس کردار یا کسی اور کردار کے ادا کردہ کون سے مکالمے کی وجہ سے مجھے ’’خلافِ اسلام‘‘ ٹھہراکر Banکردیا جائے۔
خدا ٹی وی پروڈیوسر اقبال انصاری کو لمبی عمر عطا کرے۔اس شخص نے ہمت نہ ہاری۔ ان دنوں سزا کے طورپر شاعروڈرامہ نگارسرمد صہبائی کو بھی لاہور سے زبردستی پاکستان ٹیلی وژن اسلام آباد کی ’’سکرپٹ ایڈیٹری‘‘کے لئے بھیج دیا گیا تھا۔ وہ دونوں متحدہوکر مجھ سے طویل قسطوں پر مشتمل ایک سیریز لکھوانے پر بضد ہوگئے۔ ’’رشتے‘‘ اس کا نام تھا۔
منافقانہ کسرِنفسی کے بغیر میں انتہائی دیانت داری سے اعتراف کررہا ہوں کہ ’’رشتے‘‘ ایک عام-’’چالو‘‘-قسم کی سیریز تھی۔ اس میں عابد علی کے علاوہ کوئی اور سٹار بھی نہ تھا۔ اس کے باوجود 6ماہ تک چلی اور تھوڑا مشہور بھی ہوگئی۔
اس قسط وار ڈرامے کے آن ایئر جانے کے دنوں میں سرمد صہبائی کو لاہور ٹی وی سے اطلاع یہ ملی کہ بارہا فون کرکے منیرنیازی کچھ پروڈیوسروں سے دریافت یہ کرتے پائے گئے ہیں کہ ’’ایہہ منڈا(نصرت جاوید) کون اے‘‘۔ ان کا خیال تھا کہ میں نے اپنے معاشرے میں خاندانی رشتوں کو ٹوٹتے اور بکھرتے ہوئے ’’وقت سے کہیں پہلے‘‘ جان لیا ہے ۔ اپنے ڈرامے کی تھیم (Theme)کی تعریف سے کہیں زیادہ میرا دل یہ سن کر بہت خوش ہوا کہ منیرنیازی لاہور ٹی وی والوں کو یہ بھی بتارہے تھے کہ ’’منڈا‘‘فقرہ بہت تیکھا اور بااثر لکھتا ہے۔
ایک نوجوان اور ہر حوالے سے بے ہنر شخص کے ساتھ کسی ذاتی تعلق کے بغیر منیرنیازی کی جانب سے میرے پاس جو تحسین بھرے کلمات پہنچے، میںنے ان ہی کی بناء پر اپنے کالم کی ابتداء میں یہ فقرہ لکھا ہے کہ :’’شاعر منیرنیازی کی ذات پر تمام عمر یہ بہتان لگارہا کہ وہ بہت اناپرست آدمی ہیں‘‘۔
اس ’’اناپرست‘‘شخص کے ساتھ بعدازاں میری کئی ملاقاتیں رہیں۔ تمام ملاقاتوں میں وہ ہمیشہ میرے ساتھ بہت شفقت سے پیش آتے۔ ہم دونوں کی عمروں میں تفاوت کے باوجود کافی بے تکلفی بھی پیدا ہوگئی۔
90ء کی دہائی میں لیکن کسی روز وہ اسلام آباد آئے۔ ان کے یہاں قیام کے دوران قرۃ العین حیدر کے اعزاز میں ایک تقریب بھی منعقد ہوئی۔ میری مرحومہ ساس نے وہاں جانے کی فرمائش کی۔ میں انہیں لے کر اس تقریب میں پہنچا تو ہوٹل کی لابی میں منیرنیازی کھڑے تھے۔ انہیں سلام کیا تو مجھے نظرانداز کرکے میری ساس کی طرف لپکے۔ ان سے پرجوش مصافحہ کیا اور مجھ سے ان کا تعلق معلوم کیا۔
میری ساس کی طرح وہ بھی ہجرت کے بعد ساہی وال آکر اس شہر میں مقیم ہوئے تھے جسے ان دنوں منٹ گمری کہا جاتا تھا۔ان دونوں میں ’’منٹ گمری لنک‘‘کے علاوہ ایک تعلق یہ بھی تھا کہ مرحومہ اپنے طالب علمی کے زمانے میں گورنمنٹ کالج کے راوی کے لئے افسانے لکھا کرتی تھیں۔ انٹرکالجیٹ تقریری مقابلوں میں اس کالج کی نمائندگی بھی کرتیں اور نقوش کے محمد طفیل نے ان کے کئی افسانے بھی شائع کئے تھے۔
میمونہ کلثوم جیلانی یعنی میری ساس سے میرا تعلق معلوم کرنے کے بعد منیرنیازی میرے ساتھ بے تکلف نہ رہے۔ میں جب بھی لاہورجاکر انہیں دوستوں کی بے تکلف محفل میں آنے کے لئے مدعو کرتا تو بہت شفقت سے یہ کہتے ہوئے انکار کردیتے کہ ’’تم ہمارے جوائی ہو‘‘ اور دامادوں کے ساتھ بے تکلف نہیں ہواجاتا۔ احتیاطاََ یہاں یہ بات لکھنے میں بھی کوئی ہرج نہیں ہے کہ موصوف کامیری ساس کے ساتھ کسی بھی حوالے سے کوئی دورپرے کا خونی یا خاندانی رشتہ نہیں تھا۔ دونوں مہاجر تھے مگر مشرقی پنجاب کے دو مختلف علاقوں سے آئے تھے۔ ان دونوں کی ذاتیں اور خاندانی شجرے بھی قطعاََ نہیں ملتے تھے۔ ان دونوں میں کوئی تعلق تھا تو صرف ساہی وال یا ادب کے حوالے سے۔ اب ایسے شخص کے بارے میں یہ دعویٰ کیوں نہ کروں کہ ان کی ذات پر تمام عمر یہ بہتان لگارہا کہ وہ بہت اناپرست آدمی ہیں۔
منیرنیازی کی ذات کے ان پہلوئوں کو ذاتی طورپر بھگتنے کے بعد میں بہت اعتماد کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ان کا ’’جس شہر میں بھی رہنااُکتائے ہوئے رہنا‘‘ کوئی تصنع بھرا’’ڈرامہ‘‘ نہ تھا۔وہ ساری عمر تقریباَََ تنہا رہے تو وجہ اس کی صرف یہ تھی کہ انہیں قیامِ پاکستان کے بعد وہ معاشرہ نہ مل سکا جہاں انسانوں سے پیار کیا جاتا۔زندگیوں میں خوب صورتیاں اگر اختراع نہ ہوپائیں تو کوئی بات نہیں۔ کم از کم اتنا تو ہوتا کہ جو خوب صورتیاں ہمیں اپنی تہذیب کی صورت ورثے میں ملی تھیں انہیں برقرار رکھا جاتا۔
اپنے ملک پر کسی ’’آسیب کے سایے‘‘ سے گھبراکر اپنے تخیل کے جنگل میں تنہا پھول کو تیز ہوا کا مقابلہ کرتے دیکھ کر منیر نیازی کا دل دہل جاتا۔ اسی لئے تو انہیں ’’جس شہر میں بھی رہنا اُکتائے ہوئے رہنا‘‘ والی اذیت سے گزرنا پڑا اور کبھی کبھار ان کے دل میں اس تمنا کا جاگ اٹھنا کہ:’’ اس شہر سنگ دل کو جلادینا چاہیے‘‘۔
اگر آپ میرا یہ کالم ابھی تک پڑھ پائے ہیں تو شاید سمجھ گئے ہوں گے کہ ان دنوں مجھے منیرنیازی اس شدت کے ساتھ کیوں یاد آرہے ہیں۔ اس ملک پریقینا کسی آسیب کا سایہ ہے جہاں راولپنڈی کی لال حویلی نے ایک بقراطِ عصر پیدا کردیا جو شرطیہ طورپر اینکرخواتین وحضرات کو Ratingsفراہم کرتا ہے۔ بات اسی بقراط تک محدود رہتی تو شاید برداشت کر ہی لی جاتی۔ ٹی وی سکرینوں پر اب’’ارسلان کے ابو‘‘ بھی رونق لگانا شروع ہوگئے ہیں اور کینیڈا میں رہنے والا ایک ’’مصلح‘‘ جس نے آف شور کمپنیوں کے ذریعے یورپ کے کئی شہروں میں انتہائی قیمتی جائیدادیں خریدرکھی ہیں ان دنوں ایک بارپھر یہاں ’’انقلاب‘‘ برپا کرنے کا Seasonلگانے آٹپکا ہے۔

ای پیپر دی نیشن